زرداری – فریال کے خلاف جے آئی ٹی بنانے کا عدالتی عندیہ

0

اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف کے بعد پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرادری اور فریال تالپور بھی مشکلات میں گھر گئے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کے کیس میں سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپورکے خلاف تحقیقات کیلئے پاناما جے آئی ٹی طرز کی ٹیم تشکیل دینے کا عندیہ دے دیا۔ 13اگست کو حتمی فیصلہ کیے جانے کا امکان ہے، جبکہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے ہیں کہ آصف زرداری کے وکیل کہتے ہیں کہ تحقیقات نہ کی جائیں ، لوگ کہتے ہیں چیف جسٹس کو علم نہیں کہ کس پر ہاتھ ڈال دیا۔ چیف جسٹس کو لگ پتا جائے گا۔ چیف ہاتھ ڈال رہا ہے تو کسی سے ڈرتا نہیں۔ نواز شریف والی جے آئی ٹی بنادیتے ہیں وہی جے آئی ٹی بنے گی تو بیلنس ہو جائے گا۔ آئندہ سماعت پر جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ کریں گے۔ جعلی بینک اکاونٹس از خود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس آف پاکستان میاں محمد ثاقب نثار نے سپریم کورٹ میں کی۔سابق صدر آصف زرداری کے وکیل فاروق نائیک بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس کا سابق صدرآصف زرداری کے وکیل فاروق نائیک سے مکالمہ ہوا۔ فاروق نائیک کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے آصف زرداری، فریال تالپور کو روز کیوں بلاتی ہیں، کوئی جرم ہوا ہے تو ضرور تفتیش کریں، الیکشن لڑ رہا تھا، ایف آئی اے نے مجھے بھی اشتہاری قرار دیدیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہتے ہیں ایف آئی اے کا دائرہ اختیار نہیں، لیکن سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار ہے کہ وہ لوگوں کی کرپشن پکڑے، آپ کا موکل بے گناہ ثابت ہوا تو نیب اور ایف آئی اے کیخلاف مقدمات درج کرائیں گے، جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ اربوں روپے کے سکینڈل کی تحقیقات ہونی چاہئیں، اس ملک میں ٹیکس کا بوجھ غریب پر پڑتا ہے، جعلی اکاؤنٹس سے کالا دھن سفید ہوا۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا یہ پاکستان ہے، یہاں پر ہر معاملہ پاک ہونا چاہیے، یہ حرام کے پیسے تھے یہ رقم جن کی بھی ہے، ناپاک اور حرام ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نےسندھ حکومت کو وارننگ دیتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت نے کچھ کیا تو نہیں چھوڑیں گے۔ فاروق نائیک بولے کہ آصف زرداری نے کسی جعلی اکاؤنٹ میں پیسے جمع نہیں کرائے،طارق سلطان کااکاوٴنٹ اومنی گروپ کے ملازمین نے کھولا۔اس موقع پر ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے عدالت میں موقف اپنایا کہ طارق سلطان کے نام پر 5بینک اکاؤنٹس ہیں اور مشکوک ٹرانزیکشنز 29جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے کی گئیں، ٹرانزیکشنز سمٹ، سندھ اور نجی بینکوں کے اکاؤنٹس کے ذریعے سے کی گئیں جبکہ اومنی اکاؤنٹس کے ذریعے رقم زرداری گروپ کو منتقل کی گئی اور فنانشنل مانیٹرنگ یونٹ نے مشکوک ٹرانزیکشنز کی نشاندہی کی۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ اومنی گروپ نے رقم جمع کرائی تو اکاؤنٹ جعلی کیسے ہوگئے؟ جس پر بشیر میمن کا کہنا تھا کہ اکاؤنٹ ہولڈرز کو اپنے اکاؤنٹس کا علم ہی نہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کیا تمام 29بینک اکاؤنٹس جعلی ہیں، جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ آخر جعلی بینک اکاؤنٹس سے رقم آخر گئی کہاں؟ ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے عدالت کو آگاہ کیاکہ جعلی بینک اکاؤنٹس نے رقم واپس اپنے اکاؤنٹس میں منتقل کی گئی۔جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ رقم منتقلی کی وجہ کیاہے؟ جسٹس ثاقب نے ریمارکس دیئے کہ جعلی اکاؤنٹس کھول کر کالا دھن جمع کرایا گیا،واضح کریں آخر رقم گئی کہاں ہے؟ بشیر میمن کا کہنا تھا کہ جعلی اکاؤنٹس سے ہزاروں ٹرانزکشنز ہوئیں۔ جس پرجسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ 35ارب کی ٹرانزکشنز ہوئیں۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے پاس لسٹ آنی چاہئے کہ اکاوٴنٹس کس کس کے ہیں، دیکھنا ہے جعلی اکاوٴنٹس سے کس کو فائدہ ہوا۔ خالد رانجھا نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ اومنی گروپ کی 15کمپنیاں ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اومنی گروپ کے مالک انور مجید اگلے ہفتے پیش ہوں جعلی بینک اکاوٴنٹس کیس میں چیف جسٹس نے پوچھا کہ اومنی گروپ کے مالک انور مجید کدھر ہیں؟ اومنی گروپ کے مالک ذاتی حیثیت میں پیش ہوں۔ وکیل رضا کاظم نے بتایا کہ انور مجید بیمار ہیں وہ دبئی کے اسپتال میں داخل ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جب بھی ایسا مقدمہ آتا ہے لوگ اسپتال چلے جاتے ہیں، انور مجید سے کہیں آئندہ ہفتے پیش ہوں، عدالت انور مجید کو بلانے کا اختیار رکھتی ہے، اومنی گروپ کی کتنی کمپنیز ہیں، اومنی گروپ کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں کون ہیں، انور مجید کو آئندہ سماعت میں کمرہ عدالت میں ہونا چاہئے۔ ڈی جی ایف آئی اے نے بتایا کہ اومنی گروپ نے 2 ارب 82 لاکھ روپے مختلف بینک اکاوٴنٹس میں جمع کرائے۔ ایڈووکیٹ رضا کاظم نے بتایا کہ 5سال سے انور مجید کا اومنی گروپ سے کوئی تعلق نہیں ہے، اومنی گروپ کو 19لوگ چلا رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کروکس (بدمعاش،چور) کو ہر کوئی اس کے نام سے جانتا ہے، انور مجید کو عدالت میں دیکھنا چاہتے ہیں، کب آئیں گے، ابھی معلوم کر کے بتایا جائے، اس کے بیٹے بھائی کون ہیں؟۔ ایک وکیل نے عدالت کو بتایا گیا کہ عبدالولی مجید بیٹا ہے وہ ملک سے باہر ہے، علی کمال، ذوالقرنین مجید، نمر مجید بھی بیٹے ہیں۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ جواب ملا کہ معاون وکیل ہوں۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ کو وکالت نامے کس نے دیئے؟ کس کی طرف سے پیش ہو رہے ہیں؟۔ چیف جسٹس نے اسٹاف کو حکم دیا کہ ان کے وکالت نامے چیک کریں، رضا کاظم کا وکالت نامہ بھی دیکھیں۔ چیف جسٹس بولے کہ حد ہو گئی ہے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا آپ سپریم کورٹ کے وکیل ہیں؟۔ وکیل نے بتایا کہ میرا نام بیرسٹر جمشید ملک ہے اور سپریم کورٹ کا وکیل ہوں، 2لوگوں نے میرے سامنے وکالت نامے پر دستخط کئے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ کا ایڈووکیٹ آن رکارڈ کون ہے، آپ کے پاس کمپنی کی اتھارٹی کہاں ہے؟ آپ امپرسونیٹ (جعل سازی/نقالی/دھوکا) کر رہے ہیں، معلوم ہے قانون میں اس کی کیا سزا ہے؟ وکیل صاحب، کہیں اپنا لائسنس نہ گنوا دینا۔ بیرسٹر جمشید ملک نے کہا کہ وہ نہیں ہوگا سر۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کون ہے، ارشد چوہدری ہے تو اس کو وکالت نامہ کس نے دیا؟ پاور آف اٹارنی کے بغیر کیسے وکالت نامے جمع کرائے، کیا بڑے لوگوں کیلئے قانون مختلف ہے۔ چیف جسٹس نے اسٹاف سے کہا کہ پولیس کو بلائیں ان کے خلاف پرچہ درج کرائیں، رجسٹرار کو بھی بلا لیں۔ بیرسٹر جمشید نے کہا کہ میں نے کوئی ایڈووکیٹ آن ریکارڈ ہائر نہیں کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بغیر کسی عدالتی ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کے یہاں کیسے آگئے۔ وکیل نے بتایا کہ انور مجید اور عبدالحلیم کی طرف سے آیا ہوں، چیف جسٹس نے کہا کہ وہ تو پاکستان سے باہر تھے۔ جمشید ملک نے بتایا کہ 3دن پہلے ان سے وکالت نامے پر دستخط لئے تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اپنا پاسپورٹ لاؤ، ابھی دیکھ لیتے ہیں۔ جمشید ملک نے جواب دیا کہ وہ ہوٹل کے کمرے میں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی جا کر لاؤ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ وکیل رضا کاظم اسی کیس میں ایک ماہ قبل پیش ہوئے تھے، اگر موکل سے ملے بھی نہیں تو کیسے وکیل بن کر پیش ہوگئے؟۔ چیف جسٹس نے کہا کہ رضا، آپ کو پتہ ہے، آپ ملک کے سینئر ترین وکیل ہیں، کیا گزشتہ سماعت پر بھی بغیر کسی وکالت نامے کے پیش ہوگئے تھے؟ آپ نے عدالت کو بتایا تھا کہ آپ کے پاس کوئی تحریری اتھارٹی نہیں۔ چیف جسٹس نے بیرسٹر جمشید ملک سے پوچھا کہ کیا آپ کو اس عدالت میں پیش ہونے کے قانون کا پتہ ہے؟ وکیل نے کہا کہ ای میل کے ذریعے وکالت نامے بھیج دیئے تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے خلاف پرچہ کراوٴں گا، عدالت کو دھوکا دیا گیا۔ وکیل نے کہا کہ عدالت اور چیف جسٹس تو کیا میں نے کسی کو بھی دھوکا نہیں دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ رضا کاظم کا ہم احترام کرتے ہیں مگر اس طرح نہیں کرنے دیں گے۔ وکیل جمشید ملک نے کہا کہ 12جولائی عدالت نے نوٹس کیا تھا تو انور مجید نے مجھ سے کہا تھا کہ سپریم کورٹ کا وکیل کر لوں، میں نے پہلے اعتزاز احسن سے بھی رابطہ کیا تھا، پھر رضا کاظم سے بات کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کو دھوکہ دینے کی اجازت نہیں دیں گے، چیٹنگ برداشت نہیں کریں گے۔ جمشید ملک نے کہا کہ میں نے صرف اپنے موکل کے پیغام پہنچانے کا کام کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیس فائل میں بتائیں پاور آف اٹارنی کہاں لگی ہوئی ہے۔ جسٹس عمر عطا نے کہا کہ وہ دستاویزات دکھائیں جن پر آپ کی آنکھوں کے سامنے آپ کے موکل نے دستخط کیے، اپنے موکل کے دستخط شدہ دستاویزات دکھائیں جو آپ نے وکیل کے حوالے کیے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ایک وقت میں دو مختلف بیانات دے رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے کہہ رہے تھے کہ میرے سامنے دستخط کئے، اب کہہ رہے ہیں کہ ای میل کے ذریعے وکالت نامے آئے، میں ابھی اس کا لائسنس معطل کرتا ہوں، اس کے خلاف کیس درج کرائیں گے۔اسی دوران کئی پولیس اہلکار ہتھکڑیاں لٹکائے عدالت میں داخل ہوئے۔ ایک نے رپورٹر سے پوچھا کہ کس کی گرفتاری ہونی ہے؟۔ اسی دوران سپریم کورٹ کے رجسٹرار ارباب عارف بھی کمرہ عدالت میں داخل ہوگئے۔ بیرسٹر جمشید ملک نے کہا کہ میں کسی کی طرف سے پیش نہیں ہو رہا، یہاں سینئر وکیل کی معاونت کیلئے آیا ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میں آپ کا وکالت کا بنیادی لائسنس بھی معطل کر سکتا ہوں، میرے پاس اتھارٹی ہے۔ عدالت میں ایک اور سینئر وکیل خالد رانجھا کھڑے ہوئے اور کہا کہ ہم موٴکل اور ایڈووکیٹ آن رکارڈ سے اسی طرح معاملات کرتے ہیں، ہم تو سفید کاغذات پر دستخط کرا لیتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بات دہرائیں ہم ریکارڈ کر لیتے ہیں، یہ بدقسمتی ہے کہ خالد رانجھا جیسا وکیل یہ کہہ رہا ہے، جب میں وکیل تھا اس وقت تو ایسا نہیں ہوتا تھا، ہو سکتا ہے اب یہ نیا طریقہ آ گیا ہو۔ ایک وکیل کے پیچھے چھپ جائیں اور دوسرے کیلئے کوئی اور آڑ لے لیں۔ چیف جسٹس نے وکیل سے کہا کہ برخوردار کسی زعم میں نہ رہنا۔ وکیل جمشید ملک نے کہا کہ مجھے اب تک یہ سمجھ نہیں آرہی کہ میرا قصور کیا ہے، کہاں غلط بیانی کی، ان کو وکیل کرنے کا فیصلہ میری خواہش نہ تھی، بغیر کسی جرم کے مجھے کیوں مائیکرو اسکوپ کے نیچے رکھا گیا؟۔اعتزاز احسن عدالت میں کھڑے ہوئے اور بتایا کہ جمشید ملک درست کہہ رہے ہیں، مجھے بھی ان کا فون آیا تھا کہ انور مجید کی طرف سے وکالت کریں، جمشید ملک کا کام صرف پیغام پہنچانا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وکالت نامے ضروری ہیں، ایڈووکیٹ آن رکارڈ کو جو دستاویز دی اس کی پنجاب فرانزک لیبارٹری سے تصدیق کرا لیں گے۔ رضا کاظم اور ایڈووکیٹ خالد رانجھا مل بیٹھ کر یہ معاملہ سلجھائیں۔ کراچی کے نجی بینک کی خاتون ملازمہ نورین بھی عدالت میں پیش ہوئیں اور موقف اپنایا کہ میرے نام پرجعلی اکاوٴنٹ کھولاگیا،سارادن پولیس میرے گھر بیٹھی رہی اور مجھے ہراساں کیا جاتا رہا۔ جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پتہ ہے کونسی پولیس نے کس تھانے میں ہراساں کیا۔بینک ملازمہ کا کہنا تھا کہ میرے گھر میں تھانہ گلستان جوہر کی پولیس آئی تھی اور پولیس نے کہا گرفتار کرنے کا حکم ہے، نرمی برت رہے ہیں۔ایڈیشنل آئی جی نے عدالت میں موقف اپنایا کہ1 ارب 7کروڑ ان کے اکاوٴنٹ سے ٹرانسفر ہوئے، میرے نوٹس میں کل آیا جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میرے علم میں دو، تین روز سے ہے، آپ ریاست کے ملازم ہیں یا حکومت کے؟ سارا تھانہ، آئی جی سندھ حاضر ہوں، ملک کو پولیس اسٹیٹ بنا دیا گیا ہے، اندرون سندھ سے تعلق ہے اسی لیے وضاحت کرنیکی کوشش کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے آئی جی سندھ کو دو دن میں تحقیقاتی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے تنبیہ کی کہ مجھے ایماندارانہ رپورٹ تیار کر کے دیں۔ عدالت نے کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More