حافظ شیرازی کے مزار سے میں سیدھا ہوٹل دریا پہنچا، وہاں اپنا سامان پیک کیا اور ہوٹل کا بل ادا کیا۔ صبح اپنا فیلڈ کا پتلون ہوٹل کی صفائی کرنے والی خاتون کو دھونے کے لئے دے گیا تھا کیونکہ وہ کوہ نمک کے دورے میں خاصا خراب ہو گیا تھا۔ انہوں نے اپنا چھ ہزار ریال کا بل پیش کیا۔ میں نے ہوٹل کے استقبالیہ کو دس ہزار ریال کا نوٹ پیش کیا، تاکہ وہ صفائی والی خاتون کو چھ ہزار ریال ادا کر کے چار ہزار ریال مجھے واپس کر دیں۔ مگر ان صاحب نے مجھے چار ہزار ریال ادا کرنے کے بجائے اپنے پاس رکھ لئے اور کہا کہ چونکہ آپ مقررہ وقت کے بعد ہوٹل چھوڑ رہے ہیں، اس لئے باقی ماندہ ریال اس مد میں بحق ہوٹل ان کے پاس رہیں گے۔ اس پر میں نے ان حضرات سے کہا کہ اپنے تاخیر سے جانے کی بات تو میں نے ہوٹل منیجر سے پہلے ہی کر لی تھی اور انہوں نے مجھے اس کی اجازت دے دی تھی۔ اس پر ان صاحب نے وہ چار ہزار ریال مجھے واپس کر دیئے۔ بس اسٹینڈ پہنچا تو ایک بس کمپنی کے ایجنٹ صاحب نے مجھ سے اصفہان کے دس ہزار ریال کے ٹکٹ کے عوض تیرہ ہزار ریال چارج کرلئے۔ شاید ایجنٹ حضرات کے ذریعے ٹکٹ کی خریداری پر وہاں اتنی ہی اضافی رقم ادا کرنی ہوتی ہوگی۔ مگر شیراز سے سوئے اصفہان سفر کرنے سے پہلے میں اپنے فاسا سے شیراز تک کے سفر کے دوران ایران کے باربرداری والے ٹرکوں کی پیشانی پر لکھے ہوئے کلمات کی بابت مطلع کرتا چلوں اور پاکستانی ٹرکوں کے کلمات سے ان کا تقابلی جائزہ پیش کرتا چلوں کہ یہ پاکستانی ٹرانسپورٹروں کے لئے باعث دلچسپی اور شاید لائق تقلید بھی ہو گا۔ ہمارے پاکستانی ٹرکوں کی پیشانیوں اور پشت پر عموماً اس قسم کے کلمات لکھے ہوتے ہیں۔
’’ماں کی دعا جنت کی ہوا‘‘۔ ’’کالا باغ میرا شہر‘‘۔ ’’ماواں ٹھنڈیاں چھاواں‘‘۔ ’’پپو یار تنگ نہ کر‘‘۔ ’’پہاڑوں کی شہزادی‘‘۔ ’’فخرِ میانوالی‘‘۔ ’’شیر سرحد‘‘۔ ’’کشمیر کی شہزادی‘‘۔ ’’چترال کا شہزادہ‘‘۔ ’’ہارن دو راستہ لو‘‘۔ ’’اچھا دوست پھر ملیں گے‘‘۔ ’’تبلیغی جماعت زندہ باد‘‘۔ ’’تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں‘‘۔
ایرانی ٹرکوں پر جو کلمات لکھے ہوتے ہیں وہ عموماً مکمل دعائیہ جملے ہوتے ہیں مثلاً:
’’خدایا چشمان منتظر را چشمان گریاں مکن‘‘۔ (اے خدا انتظار کرنے والی آنکھوں کو رونے والی آنکھیں نہ ہونے دے)۔
’’خدایا ہر چہ وارم از تو دارم‘‘۔ (اے خدا میرے پاس جو کچھ بھی ہے وہ سب تیرا دیا ہوا ہے)۔
میری شاندار بس نے شیراز کا صدر بس اسٹینڈ پانچ بجے شام چھوڑ دیا۔ چھوٹے چھوٹے کئی ہالٹ کرنے کے بعد اس بس نے اباداہ کے مقام پر پینتالیس منٹ کا ڈنر ہالٹ کیا۔ یہ ہالٹ ایک شاندار ریستوران پر تھا جہاں دستِ خود دہانِ خود یا سیلف سروس کا نظام نافذ تھا۔ اغلباً یہ ریستوران ٹرانسپورٹ کمپنیوں کی مشترکہ ملکیت تھا۔ اس میں ایک بڑا اور شاندار ڈائننگ ہال تھا۔ خواتین و حضرات کے واش روم علیحدہ علیحدہ تھے۔ نیز خواتین و حضرات کے لئے نماز کی ادائیگی کا بندوبست بھی علیحدہ علیحدہ تھا اور ہر بندوبست بہت خوب تھا۔ شیراز و اصفہان کے درمیان اس ریستوران کی حیثیت وہی تھی جو اسلام آباد و لاہور موٹر وے کے سفر میں بھیرہ انٹر چینج کی ہے۔
تقریباً ڈیڑھ بجے شب بس اصفہان کے جنرل بس اسٹینڈ میں داخل ہوگئی۔ ایک ٹیکسی ڈرائیور سے رابطہ کیا کہ جناب مجھے کسی مناسب سے مہمان پذیر میں پہنچا دیجئے۔
انہوں نے فرمایا کہ بہت خوب۔ جب میں نے کرائے کی بات کی تو کہنے لگے کہ یہ کوئی مسئلہ نہیں، جو چاہیں دے دیجئے گا۔ میں نے بہت کہا کہ جناب یہ معاملہ پہلے طے ہوجائے تو بہتر ہے، مگر وہ صاحب نہ مانے اور جلدی جلدی میرا سامان ٹیکسی میں لوڈ کرلیا اور بولے کہ چلیے۔ ناچار مجھے ٹیکسی میں بیٹھنا پڑا۔ اور پھر وہی ہوا جو ایسے مواقع پر ہوتا ہے۔ مہمان پذیر امیر کبیر جو چہار باغ پائیں کے علاقے میں چہار باغ اسٹریٹ پر واقع تھا، پر پہنچ کر ٹیکسی ڈرائیور صاحب نے بیس ہزار ریال کرائے کی ڈیمانڈ داغ دی۔ مگر میں کہ اس وقت تک آدھا ایرانی تو بن ہی گیا تھا ان کے جھانسے میں کہا آنے والا تھا۔ آخر کار دس ہزار ریال میں معاملہ طے ہوگیا۔ مہمان پذیر امیر کبیر کا اصل نام دراصل امیر کبیر ہاسٹل تھا۔ یہ میرا نیا تجربہ تھا۔ یہ ہاسٹل ایک کمرشل ایریا کی بالائی منزل پر واقع ایک اچھا اور صاف ستھرا مہمان خانہ تھا۔ یہاں مجھے ایک ڈبل بیڈ والا کشادہ کمرہ پچاس ہزار ریال فی یوم کرائے پر مل گیا۔ واحد بیڈ والا کمرہ تیس ہزار ریال میں دستیاب تھا، مگر وہ بہت چھوٹا تھا اور اس میں واش ہینڈ بیسن کی آسانی بھی دستیاب نہ تھی، جیسا کہ ایران میں ہر اچھے ہوٹل یا مہمان خانے میں دستیاب ہوتی ہے۔ اس مہمان خانے کے تمام کمرے سینٹرلی ہیٹڈ اور آرام دہ تھے۔ میں رات کو تقریباً دو بجے سونے کے لئے بستر میں چلا گیا اور ساڑھے پانچ بجے اٹھ بیٹھا اور نماز فجر کے بعد دوبارہ بستر میں جا گھسا اور پھر پونے دس بجے اٹھا، تیار ہوکر مہمان خانے کا ناشتہ کیا، جس کی قیمت 7500 ریال تھی۔ مگر اس میں مجھے بالکل مزہ نہ آیا۔
قارئین کرام! اب آپ کو یہ بتاتا چلوں کہ میں اصفہان میں، کہ جس کو ہمارے ایرانی بھائی ’’نصف جہان‘‘ بھی کہتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’جس نے اصفہان نہ دیکھا اس نے زندگی میں کچھ نہ دیکھا‘‘، کیوں وارد ہوا۔ دراصل اصفہان کو ایران کے سفری پروگرام میں شامل کرنے کی وجہ اصفہان میں قائم ایران کی سب سے بڑی فولاد فیکٹری تھی، جس کو ایران سے باہر کی دنیا میں ’اصفہان اسٹیل مل‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ فیکٹری اصفہان شہر کے مرکز سے تقریباً اٹھائیس کلو میٹر بجانب جنوب مغرب واقع ہے۔ فیکٹری کے علاقے اور اس سے ملحقہ آبادی و کاروباری علاقے کا نام فولاد فیکٹری کی مناسبت سے فولاد شہر رکھا گیا ہے۔ اصفہان/ فولاد شہر شاہراہ اصفہان سے کوئی بیس کلو میٹر کے فاصلے پر علاقے کے مشہور اور تاریخی دریا ’’زائندہ رود‘‘ کے اوپر سے گزرتی ہے۔
اصفہان کی فولاد فیکٹری ایرانی خام لوہے، بالخصوص سیر جان کے خام لو ہے پر اور ایرانی کوئلے، بالخصوص کرمان کے کوئلے پر منحصر ہے۔ اس کا خام لو ہے سے لوہا بنانے کا طریقہ کار وہی ہے، جو پاکستان کی کراچی اسٹیل مل کا ہے۔ یعنی سنٹرنگ اور بلاسٹ فرینس پروسس (Sintering and Blast Furnace Process)۔ ہماری اور ایران کی اصفہان اسٹیل مل میں پروسس کی یکسانیت کے باوجود ایک بڑا فرق یہ ہے کہ اصفہان کی فیکٹری میں ہر دو خاص خام مواد ملکی (ایرانی) استعمال ہوتے ہیں۔ جبکہ ہماری کراچی کی اسٹیل مل میں ہر دو خاص خام مواد، یعنی خام لوہا اور کوئلہ غیر ملکی یا درآمد شدہ استعمال ہوتے ہیں۔ مجوزہ کالا باغ اسٹیل مل کے لئے بھی جرمنی کی مشہور کمپنی سالزگٹر انڈسٹری باؤ (Salzgitter Industriebau A.G) نے اپنی 1967ء کی قابل عملی رپورٹ میں یہی پروسس تجویز کیا تھا اور اسی پروسس سے سالزگٹر (جرمنی) میں جون 1966ء کے دوران کالا باغ کے پندرہ ہزار ٹن خام لوہے سے پانچ ہزار ٹن معیاری فولاد بنایا گیا اور یہ تمام فولاد بطور خاص فوکس ویگن کاریں بنانے والی کمپنی کو فروخت کیا گیا، جس نے اس فولاد سے فوکس ویگن کاریں بنائیں اور عالمی مارکیٹ میں فروخت کیں۔ اس کامیاب انڈسٹری اسکیل ٹیسٹ کے بعد جرمنی کے مشہور ’’ہنوور‘‘ میں ’’پاکستان اسٹیل ڈے‘‘ بھی منایا گیا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Next Post