اسکول جلانے والے دہشت گرد تاحال دیامر میں موجود

0

محمد زبیر خان
گلگت بلتستان کے علاقے دیامر اور چالاس میں اسکول جلانے والے دہشت گرد تاحال علاقے میں موجود ہیں۔ سو سے زائد دہشت گردوں نے وادی تانگیر کے دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں آماجگاہ بنا رکھی ہے۔ پہاڑی سلسلوں کا یہ علاقہ لدک تقریباً آٹھ کلو میٹر پر مشتمل ہے۔ سرکاری گاڑیوں کو مذکورہ علاقے میں سفر کرنے کی اجازت نہیں۔ دن کے وقت عام ٹریفک جاری رہتا ہے، تاہم رات کے وقت عام ٹریفک کا داخلہ بھی بند کر دیا جاتا ہے۔ پولیس کی بھاری نفری پہاڑی کے دامن میں مورچہ زن ہے، مگر انتہائی دشوار گزار پہاڑی سلسلے میں آپریشن کرنا ممکن نہیں۔ فضائی امداد ملنے پر آپریشن جلد شروع کئے جانے کا امکان ہے۔
دیامر کے علاقے وادی تانگیر کے مقامی ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ جب سے دیامر اور چالاس کے علاقوں میں اسکولوں کو جلانے اور تباہ کرنے کے واقعات ہوئے ہیں اور پولیس نے تعاقب کرکے ایک دہشت گرد کو ہلاک کیا ہے، وادی کے علاقے لدک میں موجود پہاڑی سلسلے کی چوٹیوں پر دہشت گردوں نے مورچے قائم کرلئے ہیں۔ انتہائی بلندی پر ہونے کی وجہ سے عملاً لدک کا آٹھ کلو میٹر کا علاقہ ان کے کنٹرول میں ہے اور یہ دہشت گرد تعداد میں سو سے زائد ہیں۔ ذرائع کے مطابق اس علاقے میں دن کے وقت عام ٹرانسپورٹ کے گزرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ لیکن کسی سرکاری گاڑی کو گزرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ جبکہ رات کے وقت ہر قسم کی ٹریفک کا داخلہ ممنوع کر دیا جاتا ہے۔ اسکولوں کی تباہی اور رات کو سفر کی پابندی کے سبب علاقہ بھر میں سخت خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے۔ علاوہ ازیں مختلف قسم کی افواہیں بھی گرم ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ سیکورٹی فورسز علاقے میں بڑے آپریشن کی تیاری کر رہی ہیں۔ اسی طرح یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ دہشت گردوں کا تعلق بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم سے ہے اور یہ انتہائی تربیت یافتہ اور منظم ہیں۔ علاقے کے مقامی شہری ظاہر شاہ نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ اسکولوں کو جلائے جانے کے بعد سے اب تک دہشت گردوں نے کسی عام فرد کو تو نشانہ نہیں بنایا، مگر پہاڑی کی چوٹیوں پر ان کی موجودگی محسوس کی جا سکتی ہے۔ لدک کے علاقے میں پہاڑی کے دامن میں پولیس کی بھاری نفری بھی موجود ہے، لیکن وہ پہاڑی کے اوپر پیش قدمی نہیں کر رہی۔ اس صورت حال پر علاقے میں شدید خوف و ہراس پایا جاتا ہے اور شہری انتہائی پریشان حال ہیں۔ دیا مر کے مقامی صحافی عبداللہ شاہ نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’میں دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع پر اس مقام پر پہنچا تھا۔ ابھی میں سڑک پر پہاڑ کے دامن ہی میں موجود تھا کہ مجھے اوپر پہاڑ سے دہشت گردوں نے آواز دے کر خبردار کیا کہ اوپر علاقے میں نہیں آنا۔ اس پر میں نے ان سے کہا کہ میں آپ سے مذاکرات (انٹرویو) کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کے کیا مطالبات ہیں۔ جس پر انہوں نے کہا کہ جو بھی مذاکرات (انٹرویو) کرنا ہے، نیچے ہی سے کرو‘‘۔ عبداللہ شاہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے کیمرہ مین کی مدد سے علاقے کی ویڈیو بھی بنائی ہے۔ ان کے بقول عملاً اس وقت آٹھ کلو میٹر کا علاقہ دہشت گردوں کے کنٹرول میں ہے۔ یہ پہاڑی علاقہ ہے اور یہاں آبادی نہیں ہے۔ روڈ پر دن کے وقت تو لوگوں کے آنے جانے پر کوئی پابندی نہیں، مگر رات کو ٹریفک چلنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ سرکاری گاڑیوں کو تو گزرنے کی اجازت ہی نہیں ہے۔
دیامر پولیس میں موجود ’’امت‘‘ کے ذرائع نے بتایا ہے کہ دیامر اور چالاس میں اسکولوں کو جلائے جانے کے واقعے کے بعد سے پولیس دہشت گردوں کے تعاقب میں ہے۔ مگر دہشت گرد سب ڈویژن تانگیر کے دشوار گزار پہاڑی علاقے میں روپوش ہیں اور انتہائی اونچائی پر ہونے کی وجہ سے وہ عملاً لدک نامے علاقے تک جو تقریباً آٹھ کلو میٹر بنتا ہے، قابض ہیں۔ ان ذرائع کے مطابق پولیس کی بھاری نفری لدک میں موجود ہے، مگر عملاً کسی قسم کا آپریشن نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ دہشت گرد جن کی ایک اندازے کے مطابق تعداد سو یا اس سے زیادہ ہو سکتی ہے اونچائی پر ہیں اور اوپر سے مسلسل پولیس پر فائرنگ کرتے رہتے ہیں۔ دیامر پولیس کے افسر نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’’دہشت گرد جس مقام پر موجود ہیں، وہاں ان کے خلاف فضائی آپریشن ہی کامیاب ہو سکتا ہے۔ اگر پولیس پہاڑی پر چڑھ کر ان کے خلاف آپریشن کرنے کی کوشش کرے گی تو اس سے پولیس کا بہت زیادہ جانی نقصاں ہو سکتا ہے‘‘۔ ایک سوال پر پولیس افسر کا کہنا تھا کہ ’’عام لوگوں کو وہ کچھ نہیں کہہ رہے۔ مگر اسکول جلانے کے بعد آپریشن شروع کرنے اور ایک دہشت گرد کی ہلاکت کے بعد سے وہ پولیس پر حملہ ضرور کر سکتے ہیں‘‘۔ گلگت بلستان حکومت کے ترجمان فیض اللہ فراق نے ’’امت‘‘ کے رابطہ قائم کرنے پر یہ تو کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف ٹارگٹ آپریشن شروع ہے۔ تاہم انہوں نے مذکورہ علاقے میں دھشت گردوں کی موجودگی سے انکار کیا۔ ان کے بقول مذکورہ علاقے میں دہشت گرد موجود نہیں ہیں۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More