وجیہ احمد صدیقی
سابق سیکریٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود خان نے معاشیات میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔ بوسٹن یونیورسٹی میسا چوسٹس (امریکہ) سے ایم اے پولیٹیکل اکنامکس کیا، جبکہ اس سے قبل وہ جامعہ کراچی سے ایم اے معاشیات اور ایل ایل بی کی اسناد حاصل کرچکے تھے۔ انہیں نجی اور سرکاری دونوں شعبوں کی اقتصادیات میں مہارت حاصل ہے۔ ’’امت‘‘ نے ان سے ملک کی موجودہ معاشی صورتحال پر گفتگو کی اور آنے والی نئی حکومت کو اس ضمن میں کیا کرنا چاہیے اس بارے میں بھی ان کی رائے لی۔ ’’امت‘‘ کے ساتھ ڈاکٹر وقار مسعود کی خصوصی گفتگو نذر قارئین ہے۔
س: ڈاکٹر صاحب! پاکستان کی معیشت قرضوں میں جکڑی ہوئی ہے اور کہا جارہا ہے کہ چین کو بھی فوری طور پر قرضہ ادا کرنا ہے۔ پاکستان کا اصل قرضہ کتنا ہے جو اسے ادا کرنا ہے۔ بالخصوص چین کو ادا کرنے والے قرضے کی کل مالیت کیا ہے اور نئی حکومت کو کیا اقدامات کرنے ہوں گے؟
ج: قرضوں کی اصل صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ بیرونی ادائیگیوں کے توازن کی صورتحال کیا رہی۔ گزشتہ سال کرنٹ اکائونٹ کا خسارہ جسے ادائیگیوںکے توازن کا خسارہ بھی کہتے ہیں، 18 ارب ڈالر تھا۔ یہ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا خسارہ تھا۔ اگر اس خسارے کا موازنہ مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کے ساتھ کیا جائے تو اس نسبت سے بھی یہ خسارہ 6 فیصد زیادہ تھا۔ جبکہ پچھلے دس گیارہ سال میں ایسی کیفیت نہیں ہوئی۔ 18 ارب ڈالر کے اس خسارے کو پورا کرنے کے لئے پاکستان نے دس ارب ڈالر کے قرضے لیے اور 2 ارب ڈالر کی غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری FDI ہوئی۔ اس طرح یہ 12 ارب ڈالر ہوئے اور 18 ارب ڈالر میں سے جو 6 ارب ڈالر باقی بچا، اس کی ادائیگی زرمبادلہ کے ذخائر سے ہوئی۔ جس کے بعد یہ زر مبادلہ کے ذخائر گھٹ کر 9 ارب ڈالر سے بھی کم ہوگئے۔ لیکن حال ہی میں چین کی جانب سے مزید 2 ارب ڈالر کے ڈپازٹ مل گئے ہیں، جس سے کچھ آسانیاں پیدا ہوئی ہیں۔ لیکن یہ سلسلہ اس طریقے سے مسلسل نہیں چل سکتا۔
س: ایسی صورتحال پیدا ہی کیوں ہوئی؟
ج: یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ پاکستان کا بجٹ خسارہ آسمان کو چھو رہا تھا۔ بجٹ خسارہ 7.1 فیصد تک پہنچ گیا، جبکہ بجٹ میں اس کا تخمینہ 4.1 فیصد لگایا گیا تھا۔ یعنی ہدف سے بجٹ خسارہ 3 فیصد زیادہ ہوگیا۔ اس خسارے کو اگر رقم میں تبدیل کریں تو اس کی مالیت تقریباً ایک ہزار ارب روپے بنتی ہے۔ بجٹ میں پہلے ہی 1480 ارب روپے کے خسارے کا حکومت نے پہلے ہی تخمینہ لگا رکھا تھا۔ لیکن یہ بڑھ کر 2450 ارب روپے ہوگیا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خرابی پھیلی ہوئی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اخراجات بڑھ گئے تھے اور ان اخرجات کی وجہ سے درمدآت میں اضافہ ہوا۔ پانی کی امپورٹڈ بوتلیں ہوں یا گاڑیوں کا بے تحاشا استعمال ہو، کیونکہ ہم پٹرول بھی درآمد کرتے ہیں، جس کے اثرات ادائیگیوں کے توازن پر ہی پڑتے ہیں۔ پاور پراجیکٹس کے لیے مشینری بھی درآمد کی جاتی ہے تو اس پر بھی زر مبادلہ خرچ ہوگا۔ آج ہمیں جتنی بھی بجلی مل رہی ہے، یہ سب امپورٹڈ ہے، کیونکہ یہ فرنس آئل سے بن رہی ہے، جسے امپورٹ کیا جارہا ہے۔ یہ سب بجٹ کے تخمینے سے زیادہ خرچ ہوا ہے۔ یعنی مجموعی طلب aggregate demand میں اضافہ ہوگیا۔ لیکن اب پاکستان ایسا نہیں کر سکتا، کیونکہ ہمارے پاس زر مبادلہ کے اتنے ذخائر نہیں ہیں کہ ہم اس طلب کو پورا کرسکیں۔ کیونکہ ہم نے پہلے ہی 6 ارب ڈالر کے زر مبادلہ کے ذخائر استعمال کرلیے تھے۔ اس لیے مجموعی طلب کو پورا کرنے کی آزادی کم ہوگئی ہے۔ اس مرتبہ آنے والوں کو بجٹ کے اس خسارے کو بہر صورت کم کرنا ہے۔
س: بجٹ کے خسارے کو کم کرنے کے اقدامات کس طرح کیے جائیں گے۔ اور کیا اس کے اثرات عوام پر نہیں پڑیں گے؟
ج: بجٹ خسارے کو کم کرنے کے لیے جو بھی اقدامات کیے جائیں گے، وہ تکلیف دہ ہوںگے۔ مثلاً7.1 فیصد کا خسارہ اگر ہم 5 فیصد پر لانے کی کوشش کریں گے تو اس کے لیے 800 ارب روپے کے یا تو ٹیکس جمع کیے جائیں یا اخراجات کم کیے جائیں یا دونوں ہی اقدامات کیے جائیں۔ ان کو اگر نصف بھی کیا جائے تو بھی یہ آسان کام نہیں ہے کہ 400 ارب روپے کے ٹیکس لگانے ہوں اور400 ارب روپے کے اخراجات کم کرنے ہوں۔ نئی آنے والی حکومت کے لیے یہی سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔ اسے تلخ اور مشکل فیصلے کرنے ہوں گے۔
س: کیا چین کو قرضوں کی ادائیگی فوری کی جانی ہے۔ چین کی جانب سے کوئی مہلت نہیں مل سکتی؟
ج: امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے اس حوالے سے جو بیان دیا ہے وہ نہایت گمراہ کن ہے۔ اس بیان سے یہ تاثر ابھرا ہے کہ اگر پاکستان آئی ایم ایف کے پاس گیا تو اس کی اصل ضرورت چین کا قرضہ اتارنا ہے۔ چین کی سرمایہ کاری ایسی نہیں ہے جس کے نتیجے میں پاکستان سے رقوم کا net outflow ہو۔ چین سے ہمارے پاس جو سرمایہ کاری آرہی ہے، اس کی مالیت ماضی کے قرضوں کی ادائیگی سے زیادہ ہیں جو پاکستان سے بمع سود واپس جارہی ہیں۔ اسے اقتصادیات کی اصطلاح میں positive net transfer کہا جاتا ہے۔ یعنی ہمیں چین کو جو کل قرضہ ادا کرنا ہے وہ ہمیں اس سے زیادہ دے رہا ہے۔ چین سے تو سرمایہ کاری اور زر مبادلہ کا بہائو مثبت ہے۔ ہمارے سامنے یہ بات ہی نہیں ہے کہ ہم چین کے قرضوں کی ادائیگی کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جارہے ہیں۔
س: چین سے لیا جانے والا قرض کس مد میں خرچ ہوا ہے؟
ج: چین کے قرضے چین سے براہ راست آرہے ہیں۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے اندر جو نئی شاہراہیں بنی ہیں، شاہراہ قراقرم کو وسیع کیا گیا ہے، اس کو گوادر کے ساتھ منسلک کیا جارہا ہے۔ اس پر چینی قرضے سے کام ہوا ہے۔ اس کے علاوہ کراچی اور لاہورکے درمیان ایک اور ہائی وے کی تعمیر ہو رہی ہے اورگوادر ایئر پورٹ کی تعمیر چینی قرضے سے ہو رہی ہے۔ گوادر پورٹ نئی جیٹی کی تعمیر ہو رہی ہے۔ ان کے لیے چین سے قرضے آرہے ہیں۔ ابھی چین سے نئے قرضوں کی ایک لہر پاکستان ریلوے کے نئے اور مضبوط ٹریکس کی تعمیر کے لیے آئے گی۔ چین کی جانب سے جو پاور پلانٹس لگ رہے ہیں، ان میں حکومت کوئی قرضہ نہیں لے رہی ہے۔ کیونکہ وہ آئی پی پی سرمایہ کاری کے تحت ہیں اور حکومت پاکستان نے ان سے بجلی کی خریداری کا معاہدہ کر رکھا ہے۔ اس لیے ان کمپنیوں کے قرضوں کا بوجھ پاکستان پر نہیں ہوگا۔ ہم اس کی پیدا کردہ بجلی کی ادائیگی اس طے شدہ نرخ پر کردیں گے۔
س: تحریک انصاف کے ممکنہ وزیر خزانہ اسد عمر کا بیان تھا کہ اگر 12 ارب ڈالر کی امداد نہ ملی تو مسائل پیدا ہوں گے۔ تو کیا قومی خزانے کو اتنی رقم کی ضرورت ہے؟
ج: مجھے اس کا علم نہیں کہ وہ اس ضمن میں کیا کہہ رہے ہیں۔ یہ آئی ایم ایف سے معاہدے کے ضمن میں کہا جاسکتا ہے۔ لیکن انہیں یہ سوچنا چاہیے کہ اس سال کا بجٹ انہوں نے نہیں پیش کیا۔ یہ ان کا بجٹ نہیں ہے۔ مفتاح اسماعیل اس عرصے کا بجٹ دے کر چلے گئے، جس میں ان کی حکومت اور وہ خود موجود نہیں ہیں۔ میرا تو یہ مشورہ ہے کہ یہ اپنا بجٹ پیش کریں۔ یہ ان کی اولین ذمہ داری ہے۔ تاکہ وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ گزشتہ حکومت یہ بجٹ بنا کر چلی گئی تھی تو ہمیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس میں تحریک انصاف کے اقدامات نظر آنے چاہئیں۔
س: دنیا میں ترکی نے بھی آئی ایم ایف سے جان چھڑائی اور اپنی معیشت بھی درست کرلی۔ وہ کیوں آگے بڑھ گئے اور ہم کیوں پیچھے رہ گئے؟ اس میں قصو ر کس کا ہے؟
ج: ہمیں دور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ پاکستان نے ماضی قریب میں آئی ایم ایف کا تین سال کا پروگرام کامیابی کے ساتھ مکمل کیا۔ اس کی مثال یہ ہے کہ جیسے مریض اسپتال سے صحت یاب ہوکر نکل آئے اور اسے کوئی بیماری لاحق نہیں ہے۔ لیکن ڈاکٹر نے پرہیز بتایا ہوتا ہے تاکہ مرض کا دوبارہ حملہ نہ ہوسکے۔ لیکن آپ وہی حرکتیں کرنا شروع کردیں تو اس کا کیا انجام ہوگا۔ یہی نا کہ آپ دوبارہ اسی مرض میں مبتلا ہوجائیں گے۔ آئی ایم ایف کے پروگرام کے بعد بجٹ خسارہ8.2 فیصد سے 4.3 فیصد پر آگیا تھا۔ لیکن سابقہ حکومت بجٹ خسارے کو7.1 فیصد پر چھوڑ کر گئی ہے۔ یہ ہماری اپنی کوتاہی ہے۔ کسی نے مشورہ نہیں دیا تھا کہ اخراجات کو اتنا بڑھایا جائے۔ عوامی نمائندوں کو خوب رقوم دی گئیں۔ تیل کی قیمتوں کو مصنوعی سطح پر رکھا گیا۔ سابقہ حکومت نے انفرادی ٹیکس ریٹ کو 35 فیصد سے کم کرکے 15 فیصد کر دیا اور قابل ٹیکس آمدنی 4 لاکھ روپے سے بڑھا کر 12 لاکھ روپے کردی۔ قومی خزانے کو سابق حکومت نے 100 سے 150 ارب روپے کا ٹیکہ لگا دیا۔ یہ قوانین یکم جولائی سے نافذالعمل ہے۔ اس قانون کے نقصانات سے انہیں زک نہیں پہنچی۔ تعریف و تحسین وصول کرلی اور نئے آنے والوں کے لیے چھوڑ دیا کہ وہ اسے بھگتیں۔ نئی حکومت کو ایسے تمام معیشت دشمن اقدامات واپس لینے ہوں گے۔ اگر گھر کی صفائی کرنی ہے تو ان تمام منفی اقدامات کو واپس لینا ہوگا۔
س: آئی ایم ایف سے قرضہ لینا کیا واقعی ملک کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا؟ کیونکہ آئی ایم ایف کی شرائط بہت کڑی ہوں گی، جنہیں پورا کرنے سے عوام کے لیے مشکلات ہوں گی؟
ج: یہ سب معذرت کے ساتھ محض نعرے بازی کی باتیں ہیں۔ آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کی کچھ شرائط ہوتی ہیں۔ ان میں عموماً یہ شرط ہوتی ہے کہ بجٹ خسارے کو کم کیا جائے۔ کیا یہ تباہی کا باعث ہے؟ یہ شرط ہوتی ہے کہ اپنی ادائیگیوں کا توازن درست کریں۔ کیا یہ شرط اقتصادی تباہی کا باعث ہے؟ اس کے بعد ان کی یہ شرط ہوتی ہے کہ آپ اپنے ملک کے ماحول کو درست کریں، تاکہ یہاں سرمایہ کاری آئے۔ ان شرائط کو من و عن تسلیم نہیں کیا جاتا۔ بات چیت کے ذریعے معاملات طے ہوتے ہیں۔ جیسے نجکاری کی بات ہے۔ آئی ایم ایف یہ کہتا ہے کہ آپ کے سرکاری انتظام میں چلنے والے ادارے آپ کی معیشت پر بوجھ ہیں۔ ان کو نجی شعبے کے حوالے کرو، تاکہ یہ چل سکیں۔ وہ بجلی کے شعبے کے گردشی قرضوں کو ختم کرنے کا مطالبہ کریں گے، تو ان کا یہ مطالبہ درست ہوگا۔ کیونکہ ان کی وجہ سے ہماری ساری معیشت کا نظام درہم برہم ہے اور ہم پر اخراجات کا بوجھ بھی ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ ورلڈ بینک، ایشین ڈیولپمنٹ بینک اور دیگر مالیاتی ادارے بھی آجاتے ہیں۔ پاکستان نے دنیا بھر میں اپنے بانڈز جاری کیے ہوئے ہیں۔ آئندہ سال سے وہ بانڈز میچیور ہونا شروع ہوجائیں گے۔ یعنی ان رقوم کی ادائیگی کرنا ہوگی۔ ان کی ادائیگی کے لیے بھی رقم کی ضرورت ہے۔ یہ قوم کا معاملہ ہے فرد کی بات نہیں۔ اس کی بہترین صورت یہ ہوگی کہ نیا قرضہ حاصل کرلیا جائے، تاکہ پرانے قرض خواہوں کا قرض چکا دیا جائے اور نئے بانڈز کے ذریعے سے ہمارا صرف انٹرسٹ پر خرچ ہوگا اور ہمارے زر مبادلہ کے ذخائر پر واپسی کا کوئی بوجھ نہیں پڑے گا۔ آئی ایم ایف کے سرٹیفیکیٹ کے ذریعے ہمارے لیے بہت آسانیاں ہوں گی۔ تاکہ ہم باہر جاکر اپنا بانڈ بیچ سکیں۔
٭٭٭٭٭