اقبال اعوان
بھارت پاکستانی بچوں کو بھی دہشت گرد سمجھتا ہے۔ لگ بھگ سوا دو برس قبل پکڑے گئے 14 پاکستانی مچھیروں میں شامل 12 سے13 سالہ تین ماہی گیر بچوں سے انڈین نیوی کے افسران دوران تفتیش، شدت پسند تنظیموں سے رابطوں کے بارے میں پوچھ گچھ کرتے رہے۔ بعد ازاں انہیں پولیس کے حوالے کیا گیا اور کچھ عرصے بعد گجرات کی جاسی جیل بھجوا دیا گیا۔ تاہم جیل میں بھی ان پر تشدد کیا جاتا رہا۔ بھوکا پیاسا رکھ کر تفتیش کی جاتی تھی۔ رہا کرنے سے قبل ان کو ساری رات دھمکایا جاتا رہا کہ کراچی جاکر بھارتی حکام کے خلاف کوئی بیان نہیں دینا۔ ورنہ دوبارہ پکڑے جانے کی صورت میں گولیاں مار کر سمندر میں پھینک دیں گے۔ ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے یہ انکشافات بھارتی جیل سے رہا ہو کر آنے والے 14 ماہی گیروں میں شامل تین کمسن ماہی گیروں نے کئے۔
ان ماہی گیروں کو 7 اگست کو واہگہ بارڈر پر پاکستانی حکام کے حوالے کیا گیا تھا جہاں سے ان کو ٹرین کے ذریعے گزشتہ روز (جمعہ کو) کراچی لایا گیا۔ ان ماہی گیروں کا تعلق ضلع ٹھٹھہ کے مختلف علاقوں سے ہے۔ بوسیدہ کپڑوں میں ملبوس، ننگے پائوں، ان ماہی گیروں کی حالت بہت خراب تھی۔ ناقص خوراک کے سبب گردوں، دماغ، دل اور جگر کے امراض میں مبتلا ہونے کے باوجود ان کو خوشی تھی کہ اپنے ملک میں آ چکے ہیں۔ ان کے ورثا صبح سے ہی کراچی کینٹ اسٹیشن آچکے تھے اور اپنے پیاروں کو ملنے کیلئے بے چین تھے۔ ماہی گیروں میں عبدالغفور، عبدالرزاق، علی محمد، دیدار، حسین، ابوبکر، محمد، جمیل، عبدالعزیز، صدیق، سکندر اور تین ماہی گیر بچے علی اصغر، رمضان اور سجاد علی شامل تھے۔ ٹرین سے اترتے ہی اپنے ورثا کو دیکھ کر وہ خوشی سے رونے لگے۔
’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کم عمر ماہی گیر رمضان کا کہنا تھا کہ اس کا تعلق جنگی سر علاقے سے ہے۔ اس کے والد محمد جمعہ اور بھائی بھی ماہی گیری کرتے ہیں۔ فروری 2016ء میں وہ حاجی دلبر کاتیار کی لانچ الشہناز میں سمندر میں شکار کیلئے گئے تھے۔ شکار کے دوران 5 فروری کی صبح جال ڈال کر کچھ دیر کیلئے آرام کرنے لگے کہ اچانک فضا میں بھارتی بحریہ کا ہیلی کاپٹر اڑتا نظر آیا۔ اس دوران ان کو پتہ چلا کہ لانچ کاجر کریک کے علاقے سے بھارتی حدود میں چلی گئی ہے۔ ہیلی کاپٹر سے گن دکھا کر ان کو کہا گیا کہ لانچ بھارت کی جانب چلائو، اس طرح گن پوائنٹ پر انہیں بھارتی سمندری حدود میں کر لیا گیا۔ اس دوران بھارتی بحریہ کی گشتی لانچ آگئی اور بھارتی بحریہ کے اہلکار کود کر ان کی لانچ پر آگئے اور ان کو اسلحہ دکھا کر لانچ سے اتار کر اپنی جنگی کشتی پر سوار کر لیا گیا، پھر بڑے جہاز پر لے کر گئے۔ رمضان کا کہنا تھا کہ تلاشی لے کر تمام پاکستانی ماہی گیروں کے شناختی کارڈ، رقم، موبائل فون اور دیگر چیزیں لے لی گئیں تھیں۔ وہاں بھارتی بحریہ کے افسران ان سے تفتیش کرتے رہے۔ پہلا سوال یہ تھا کہ پاکستان کی کس خفیہ ایجنسی کے ایجنٹ ہو یا القاعدہ، داعش یا کسی اور شدت پسند تنظیم کے لیے کام کررہے ہو۔ ان کو گولی مارنے، جسم کے اعضا الگ کرنے کی دھمکیاں دی گئی تھیں۔ کئی روز تک تفتیش چلتی رہی۔ پھر انہیں گجرات پولیس کے حوالے کر دیا گیا اور بعد ازاں جاسی جیل بھیج دیا گیا۔ وہاں لگ بھگ 150 پاکستانی قیدی تھے، جن میں زیادہ تر ماہی گیر تھے۔ رمضان کا کہنا تھا کہ رہائی تک ان سے تفتیش کا سلسلہ جاری رہا اور رہائی سے ایک روز قبل رات بھر دھمکیاں دی جاتی رہیں کہ کراچی جاکر بھارتی بحریہ کے خلاف بیان دیا تو یہ سوچ لینا کہ دوبارہ سمندر میں پکڑے گئے تو گولی مار کر لانچ سمیت غرق کر دیں گے۔
14 سالہ ماہی گیر علی اصغر نے بتایا کہ بھارتی بحریہ کم عمر ماہی گیروں سے بھی ڈرتی ہے کہ کہیں دہشت گرد نہ ہوں۔ ان پر شدید تشدد کر کے پوچھ گچھ کی جاتی تھی۔ کم عمر ماہی گیر سجاد کا کہنا تھا کہ پاکستانی ماہی گیروں سے بیرکوں کے واش روم صاف کرائے جاتے تھے۔ صبح ایک سوکھی روٹی دال کے ساتھ دیتے تھے۔ شام کو صبح کی بنی روٹی، ٹھنڈے سالن کے ساتھ دی جاتی۔ کم غذائیت اور غیر انسانی ماحول کی وجہ سے ماہی گیروں میں سے کسی کو گردے کی تکلیف، کسی کودل کا مرض، تو کسی کو معدے اور جگر کی تکلیف پیدا ہوگئی۔ بعض تو ذہنی مریض بن چکے ہیں۔
رہا ہو کر آنے والا ماہی گیر محمد ولد حاجی ابراہیم خاصا خوف زدہ تھا اور بار بار منہ رومال سے ڈھانپ رہا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ ’’میرے سر پر تاریں باندھ کر کرنٹ لگاتے تھے۔ میں بے ہوش ہو جاتا تھا، پھر بھی تشدد کرتے رہتے تھے اور کہتے تھے کہ بتائو کہ بھارتی سمندری حدود میں کس کی جاسوسی کرنے آئے ہو۔ ایسا لگتا تھا کہ زندگی بھر واپس نہیں جا سکیںگے۔‘‘ ماہی گیر عبدالغفور کا کہنا تھا کہ ’’مہینے میں ایک صابن ملتا تھا کہ کپڑے دھو لو یا نہالو۔ کھانا انتہائی بدمزہ ہوتا، کھارا پانی پینے کو ملتا۔ صبح سے شام تک جیل کی صفائی ستھرائی ہم سے صاف کراتے تھے۔ اس لئے صحت خراب ہو گئی ہے۔ عید کی نمازیں تو کیا کوئی اور نماز بھی ادا نہیں کر سکتے تھے کہ کپڑے گندے ہوتے تھے۔ سوا دو سال کے دوران درجنوں بار تفتیش کا سامنا کرتے رہے۔‘‘ ماہی گیر صدیق کا کہنا تھا کہ ’’پہلے روز ہمیں 24 گھنٹے بھوکا رکھا گیا اور پوچھ گچھ کی جاتی رہے۔ راتوں کو جگانے، آنکھوں میں مرچیں ڈالنے اور ٹھنڈے پانی کی تیز دھار مارنے سے میری آنکھوں میں تکلیف رہتی ہے اور نظر بھی کم آتا ہے۔‘‘ ماہی گیر ابوبکر کا کہنا تھا کہ ’’جیل میں بھی کئی بار ہمیں الٹا لٹکا کر مارا گیا۔ جب پاک بھارت کشیدگی بڑھتی تھی تو پاکستانی قیدیوں کی شامت آجاتی تھی۔ ان کو بھوکا پیاسا رکھا جاتا۔‘‘ ماہی گیر جمیل اور عبدالرزاق کا کہنا تھا کہ سوا دو سال تک انہیں گھر والوں کو خط بھیجنے یا فون پر بات کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ واضح رہے کہ کراچی، ٹھٹھہ اور بدین سے تعلق رکھنے والے 150 سے زائد ماہی گیر اب بھی بھارتی جیلوں میں قید ہیں۔
٭٭٭٭٭