کراچی میں کھیڑی پہننے کے رجحان میں اضافہ ہونے لگا

0

عظمت علی رحمانی
کراچی میں کھیڑی پہننے کے رحجان میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ پشاوری کے بعد مارکیٹ میں سب سے زیادہ مقبولیت چارسدہ کی چپل نے حاصل کرلی ہے۔ عمران خان کے حوالے سے مشہور ہونے والی موٹے سول کی ’’کپتان چپل‘‘ کی مانگ میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ شہر کی سینکڑوں ہول سیل دکانیں گاہکوں کی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے نت نئے ڈیزائن کی کھیڑیاں تیار کررہی ہیں۔
‘‘امت‘‘ کی جانب سے پشاوری اور چارسدہ کھیڑی بنانے والی مارکیٹوں کا سروے کیا گیا جس میں معلوم ہوا کہ شہر کے درجنوں مقامات پر پشاور، چارسدہ، سوات اور مردان کی روایتی کھیڑیوں کی درجنوں بڑی مارکیٹیں ہیں جن میں سیکڑوں ہول سیل اور ریٹیل کی دکانیں قائم ہیں۔ ان مشہور اور برسوں پرانی مارکیٹوں میں لی مارکیٹ میں واقع مدینہ مارکیٹ، شیدی روڈ کیماڑی میں مسان روڈ، ناظم آباد میں سیف اللہ مارکیٹ، منگھو پیر، بنارس، بلدیہ ٹاؤن، لانڈھی، داؤد چورنگی اور گذری پر واقع مارکیٹس نمایاں ہیں۔ سروے کے مطابق اس وقت کراچی میں ضلع چکوال اور میانوالی کی مشہور زری والی کھیڑی اور کھوسہ بنانے کے کارخانہ مفقود ہوچکے ہیں۔ جبکہ اکا دکا دکانوں میں گوٹے کی بنی کھیڑی موجود ہے تاہم اس پر بھی ہاتھ کے بجائے مشین کی کاری گری کی گئی ہے۔ شہر میں سے زیادہ ہول سیل کا کام پشاوری چپل کا ہے جس کی ڈیمانڈبھی زیادہ ہے۔
لی مارکیٹ میں واقع پشاوری کھیڑی کا سب سے بڑا مرکز مدینہ مارکیٹ ایسوسی ایشن کے صدر حاجی عبدالحق نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’میر ا آبائی تعلق چارسدہ کے علاقے شب قدر سے ہے۔ میں یہاں 32 بر س سے کام کررہا ہوں۔ اس مارکیٹ میں کم از کم 100سے زائد دکانیں ہیں جو صبح 8 بجے سے رات 11بجے تک کھلی ہوتی ہیں۔ جبکہ ہم صرف جمعہ کو چھٹی کرتے ہیں۔ میں نے ہاتھ سے خود کام کرنا چھوڑ دیا ہے کیوں کہ میرے تین بیٹوں نے ایک، ایک دکان سنبھال لی ہے اور وہ خود اور کاریگروں کی مدد سے یہ کام کرتے ہیں۔ میرے والد موزے بنانے کا کام کرتے تھے جس کے بعد اس کام کی ڈیمانڈ کی وجہ سے یہ کام شروع کیا۔ کھیڑی بنانے کے کام میں 70 فیصد لوگ محنت و ایمانداری سے کام کرتے ہیں جبکہ 30 فیصد لوگ اب بھی کام چوری اور بے ایمانی سے کام کرتے ہیں۔ کارخانے میں تیار کی جانے والی نارمل کھیڑی کی عمر 2 سال جبکہ آرڈر پر ناپ لے کر بنائی جانی والی کھیڑی کی عمر 3 ساڑھے 3 برس ہوتی ہے۔ عام کھیڑی دو قسم کی ہوتی ہے۔ پہلی قسم میں استعمال ہونے والا چمڑا گائے کا ہوتا ہے جو قصور اور گجرانوالہ سے منگوایا جاتا ہے اور اس میں لیدر ہائی کروم کا استعمال کرتے ہیں جو 200 روپے فی فٹ لیا جاتا ہے۔ ایک کھیڑی میں اوسطاً دو فٹ لیدر استعمال ہو تا ہے۔ اس میں خوبصورتی کیلئے کنٹراس کے طور پر استعمال ہونے والا ریگزین ایک سے ڈیڑھ فٹ، ایک کھیڑی پر استعمال ہوتا ہے جو 305 روپے گز کے حساب سے لایا جاتا ہے۔ کھیڑی کے سول کے اوپر اور تلوے کے طور پر لگایا جانے والا اسٹیکر چائنا کا ہوتا ہے جو 320 روپے گز منگوایا جاتا ہے۔ اچھی والی کھیڑی میں استعال ہونے والا سول ربڑ کا ہوتا ہے جو روس اور اٹلی سے درآمد شدہ ہوتا ہے جو موٹے سائز کا 150 روپے فی کلو خریدا جاتا ہے۔ جبکہ جرمنی کا 200 روپے کلو خرید کر استعمال کرتے ہیں۔ اس میں استعمال ہونے والا دھاگہ، جس کو 21 نمبر ریل کہتے ہیں، اس سے تیار ہونے والی کھیڑی کی قیمت مارکیٹ میں ایک ہزار روپے ہوتی ہے۔ جبکہ اس میں چمڑا شفاقت کمپنی کا استعمال کیا جاتا ہے جس کی قیمت95 روپے فی فٹ ہوتی ہے۔ سول کی قیمت 80 روپے فی کلوگرام ہوتی ہے۔ اس کھیڑی کی قیمت 600 روپے سے 800 روپے ہوتی ہے۔‘‘ حاجی عبدالحق کہتے ہیں کہ ’’اب مارکیٹ میں ’’کپتان کھیڑی‘‘ کی ڈیمانڈ بھی بڑھ گئی ہے۔ اس کھیڑی میں وہی ساری چیزیں استعمال ہوتی ہیں۔ تاہم اس میں سول ربڑ کے بجائے بغیر وزنی شیٹ کا ہوتا ہے جس کی موٹائی پونے یا ایک انچ تک ہوتی ہے۔ اس کی قیمت لی مارکیٹ میں 3 ہزار روپے تک ہے۔ میں ارادہ رکھتا ہوں کہ ایک، دو کاریگر الگ سے رکھ لوں تاکہ اب ہم یہ بھی تیار کریں۔‘‘
شہر میں دستیاب کھیڑی میں زیادہ تر کھیٹری سنگل گیئر (پلہ) کی ہوتی ہے، جس کی لی مارکیٹ، بنارس اور سلطان آباد کی مارکیٹوں میں قیمت ایک ہزار روپے، مسان کی مارکیٹ میں 1200سے 1500روپے، جبکہ گذری میں اس کی قیمت 2 ہزار روپے تک ہے۔ ریگزین والی کھیڑی کی قیمت اس سے بھی کم ہے۔ پشاوری اور چارسدہ کی کھیڑی کے لیدر میں فی کھیڑی 16روپے میں ڈیزائن تیار کرایا جاتا ہے۔ جبکہ نارمل 15سے 20 سال کے نوجوان کی کھیڑی کا نمبر 7 اور بڑے مرد کا نمبر زیادہ سے زیادہ 12ہوتا ہے۔ تاہم اس سے بھی بڑے پاؤں کی کھیڑی آرڈر پر تیار کی جاتی ہے۔ دن میں ایک کاریگر کم از کم 4 سے 5 کھیڑی کے جوڑے تیار کرنے ہوتے ہیں ، جس کو فی کھیڑی کا معاوضہ 150 سے 200 روپے دیا جاتا ہے۔ لی مارکیٹ شیدی روڈ پر فرنٹیئر چپل ہائوس کے مالک حسن زیب آفریدی کا کہنا تھا کہ ’’ہمارا تعلق خیبر ایجنسی سے ہے۔ ہماری دکان 1948ء سے کھیڑی بنانے کا کام کررہی ہے۔ مجھ سے پہلے میرے والد سوات خان یہ کام کرتے تھے جس کے بعد بھائی تاج محمد نے یہ کام سنبھالا۔ وہ عمان چلے گئے تو 18برس سے میں خود اس دکان کو چلا رہا ہوں۔ یہاں پشاوری، چارسدہ اور مردان کی کھیڑی سمیت ’’کپتان کھیڑی‘‘ بھی تیار کی جاتی ہے۔ ہمارے پاس 3 سے 5 کاریگر کام کرتے ہیں۔ عام کھیڑی 1000سے 1200 اور آرڈر پر تیار کی جانے والی کھیڑی 2 ہزار روپے میں دیتے ہیں۔ سب سے زیادہ چارسدہ کی سافٹ لیدر کی کھیڑی کی ڈیمانڈ ہے۔ ہم ’’کپتان کھیڑی‘‘ 4 ہزار وپے میں فروخت کرتے ہیں، جس کی مانگ میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔‘‘
کیماڑی مسان رود پر واقع پاک چپل میکر کے مالک سرویز خان کا کہنا تھا کہ ’’ہمارا آبائی تعلق صوابی کے علاقے چھوٹا لاہور سے ہے۔ میں اور میرا بھائی اس دکان پر کام کرتے ہیں۔ یہ دکان 1971ء سے قائم ہے اس کو میر ے والد رحمت شیر نے شروع کیا تھا۔ ہمارے کھیڑی 1400روپے میں فروخت کی جاتی ہے۔ ہم کاریگر کو 200 روپے دیتے ہیں اور زیادہ تر ہول سیل کا کا کرتے ہیں۔‘‘ گذری احسان سینٹر میں واقع دکان پشاوری چپل میکر کے مالک جاوید ولی کا کہنا تھا کہ ’’ہم کپتان کھیڑی سمیت ہر سائز اور ہر رنگ کی چپل بناتے ہیں۔ بڑے سائز کی کپتان کھیڑی کی قیمت 3 سے 4 ہزار روپے ہے۔ ہمارے پاس 6 سے 12 نمبر تک کا سائز تیار ملتا ہے۔ پہلے دن میں کپتان کھیڑی کے 4 سے 5 جوڑے فروخت ہوتے تھے جبکہ اب 12 سے 15 جوڑے یومیہ بھی فروخت ہو جاتے ہیں۔‘‘
واضح رہے کہ عمران خان کو ان کے ایک دوست نے موٹے سول والی چارسدہ کی کھیڑی دی تھی جس کے بعد یہ کھیڑی ’’کپتان کھیڑی‘‘ کے نام سے مشہور ہوگئی۔ اس کھیڑی کا سول عام کھیڑی کے مقابلے میں بالکل وزن دار نہیں ہوتا۔ تاہم اس کی موٹائی پونے سے ایک انچ تک ہوتی ہے۔ جبکہ اس کی بعض مقامات پر سلائی ہاتھ سے کی جاتی ہے اور بعض جگہوں پر اس کو چپکا دیا جاتا ہے۔ عبداللہ ہمدرد نامی گاہک کا کہنا تھا کہ وہ ہمیشہ کھیڑی پہنتے ہیں کیونکہ یہ بیک وقت کھلی اور بند حالت میں بھی پہنی جاسکتی ہے۔
سروے میں معلوم ہوا کہ ضلع چکوال اور میانوالی کی زری کھیڑی تقریباً ختم ہوگئی ہے۔ یہ کھیڑی عطا للہ خان عیسی خیلوی کی وجہ سے بھی عام ہوئی تھی۔ 15 بر س قبل تک یہ کھیڑی پنجاب میں بے حد مقبول تھی۔ جبکہ دیگر صوبوں میں بھی شادیوں پر دولہے کو تحفے کے طور پر زری و گوٹے کی چمکدار کھلی کھیڑی تحفہ میں دی جاتی تھی۔ تاہم اب یہ کھیڑی آہستہ آہستہ دم توڑتی روایات کا حصہ بنتی جارہی ہے۔ کیونکہ زری کی کھیڑی کا زیادہ کام ہاتھ سے کیا جاتا تھا جس پر اب مہنگائی کے دور میں کام کرنا بے حد مشکل ہے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More