دہلی 1844ء۔ ابو ظفر سراج الدین محمد بہادر شاہ ثانی کی دہلی میں بیرونی اور اندرونی لٹیروں کی تاخت و تاراج ایک مدت سے بند تھی۔ حسن و عشق، علم و فضل، ہیئت و ہندسہ، منطق و ریاضی، نجوم و رمل، شعر و ادب اور زہد و تصوف کی شمعوں کی جگمگاہٹ نے دلی کے ہر کوچے کو غبطہ دہ بغداد و قرطبہ بنا دیا تھا۔ کھیل کود، موسیقی و غنا، مصوری و خوش نویسی، ہاتھ کی ہر صنعت و حرفت، مرصع سازی و سادہ کاری، طباخی و دواسازی، ہر فن کے ماہر شاہجہان آباد مینو سواد میں پٹے پڑے تھے کہ ایک ڈھونڈو تو چار کا پتہ ملتا تھا۔ آداب و علوم مملکت و جہانبانی و کشور کشائی و فوج کشی و جہانستانی کے سوا کوئی شعبہ حیات ایسا نہ تھا جس کے علما اور متخصصین دہلی میں نہ ہوں۔ اور ان علوم اور ان میدانوں میں بھی عمدۃ الحکما حاذق الزمان حکیم محمد احسن اللہ خان کے کمالات کا درجہ ایسا تھا کہ اگر ان کی وزارت واقعی وزارت، اور ان کا بادشاہ واقعی بادشاہ ہوتا تو جہانگیر و شاہجہاں نہ سہی، بہادر شاہ اول کے دن واپس آسکتے تھے اور بدنصیب دلی کی تقدیر پلٹا کھا سکتی تھی۔ لیکن دلی کی قسمت میں تو لٹنا اور اجڑ ناہی نہیں، بیوہ ہونا اور دربدر ہونا بھی لکھا تھا۔
بہادر شاہ ثانی کی تخت نشینی کے دن وہ روز شوم بہرحال بیس برس آگے کے سیاہ غبار میں گم تھا اور اس وقت کسی کو یہ خیال کو یہ خیال نہ تھا کہ ہم انحطاط کے دروازے میں داخل ہو چکے ہیں۔ حکومت اور اقتدار کے لئے خونریزیوں کا کھیل تو دلی بیسیوں بار کھیل چکی تھی۔ زمانہ بدلتا تھا لیکن آئین زمانہ کبھی نہ بدلتا تھا۔ اور علوم و فنون، ہنر و حرفہ کا اکتساب تو انسانی وجود کی ضرورت اور اس کی اشرافیت کی دلیل تھا۔ دلی والے علم و حرفہ میں اب بھی سب سے آگے تھے اور نئی روشنیاں بھی ان کے پرانے فانوسوں اور فرشی مردنگوں، حتیٰ کہ مٹی کے بھی چراغوں میں جھلملانے لگی تھیں۔ انگریزی کتابوں کے پڑھنے والے، فرنگی عقائد پر منہاج زیست کو استوار کرنے والے، بھاپ اور لوہے کی کلوں کو بنانے اور چلانے والے، یہ لوگ بھی اب دہلی کے قلب میں نظر آنے لگے تھے۔ کشمیری دروازے پر سکندر صاحب کا کلیسا آس پاس کی مساجد کی برابری کرتا معلوم ہوتا تھا۔ سب یہی سمجھتے تھے کہ دلی کی کٹھالی اب بھی وہی کٹھالی ہے جس میں سونا، چاندی، تانبا سب گل کر اور گھل کر ایک ہوجاتے ہیں کسی کو یہ گمان نہ تھا کہ اب کی بار جو بارش سنگ و آہنگ ہوگی اس میں ساری کٹھالیاں ٹوٹ جائیں گی اور اب کی بات خون کی بار خون کی جوہولی کھلے گی اور اب کی بار خون کی جوہولی کھلے گی اور اس میں لال حویلی کے رنگوں کا بھی خون ہوجائے گا۔
بتاریخ 28 شعبان المعظم 1189ہجرت نبوی مطابق 30 اکتوبر 1775ء کو مرزا بلاقی شاہ عالم بہادر شاہ ثانی کے فرزند اکبر مرزا معین الدین کی ہندو بیگم لال بائی کے بطن سے متولد ہونے والے فرزند سراج الدین عرف میرزا ابن کی تقدیر بظاہر بہت اچھی نہ تھی۔ ہر چند کہ معین الدین سب سے بڑے تھے لیکن دہلی سے شاہ عالم ثانی کی طویل غیر حاضری کے سبب انتظامات ملکی و مالی بادشاہ کے منجھلے بیٹے میرزا سلیمان شکوہ کے ہاتھ میں تھے اور بخوبی انجام پا رہے تھے۔ ایسی صورت میں خلوے سر پر بادشاہی کے وقت بادشاہ کون بنے گا، یہ کسی کو نہ معلوم تھا۔ بارے شاہ عالم ثانی کی مراجعت دہلی کے بعد پہلے تو میرزا غلام نجف خان، پھر نجیب الدولہ، پھر مہادا جی سندھیا، اور سب آخر میں لاٹ صاحب کلاں لارڈ لیک صاحب بہادر کی حفاظت میں فردوس منزل شاہ عالم بہادر شاہ ثانی نے 1771 سے 1806 تک پایہ تخت دہلی سے حکومت کی اور انگریز کی نگرانی میں بادشاہت بآسانی معز الدنیا والدین ابو النصر معین الدین محمد اکبر شاہ ثانی (1806 تا 1837) کو منتقل ہوگئی۔ لیکن اکبر شاہ ثانی عرش آرام گاہ کو میرزا سراج الدین سے زیادہ اپنے دوسرے بیٹے میرزا جہانگیر بخت سے محبت کی انگریز دشمنی اور کچھ ان کی عادت شراب نوشی، یہ باتیں ولی عہدی کی راہ میں رکاوٹ بنتی رہیںِ یہاں تک کہ میرزا جہانگیر بخت کو دو بار جلا وطنی پر بنارس اور الہ آباد جانا پڑا اور وہیں 1821 میں ان کا انتقال ہوگیا۔ لاش دہلی لائی گئی اور سلطان الاولیا سلطان جی صاحب کی مسجد کے صحب میں مدفون کی گئی۔
انگریزوں نے اعلان کر دیا کہ اب سراج الدین ہی ولی عہد ہوں گے۔ چنانچہ اکبر شاہ ثانی بادشاہ عرش آرام گاہ نے جب جان جان آفریں کو سپرد کی تو 29/28 ستمبر 1837 کی رات کو تین بجے میرزا سراج الدین نے حضرت ظل سبحانی، خلیفۃ الرحمانی، بارشاہ چمجاہ، ملائک سپاہ، شہریار ظل اللہ، پناہ دین محمدی، رونق افزاے ملت احمدی، سلالہ خاندان گورگانی، نقاوہ دودمان صاحب قرانی، خاقان العمظم، شاہنشاہ الاعظم، الخاقان ابن خاقان، السلطان ابن سلطان، صاحب مفاجر و المغازی، ولی نعمت حقیقی و خداوند مجازی، ابو المظفر سراج الدنیا والدین محمد بہادر شاہ غازی، خلد اللہ ملکہ، و سلطانہ، افاض علی العالمین برہ، واحسانہ کے القاب و خطابات کے ساتھ جلوہ افروز و سادہ بادشاہی ہوئے۔ امام بخش صہبائی کہ نوتا جپوش کے زمانہ شاہزادگی سے متوسلین میں شامل تھے، بحر فکر شعر میں غوطہ زن ہوئے اور رباعی کی بحر میں تین لآلی آبدار پر مشتمل قطعہ تاریخ کہہ کر انعام و خطاب کے مورد قرار پائے۔
از نشہ دولت بہادر شاہی
شد پر ز مئے طرب ایاغ دہلی
بنشست بہ تخت دولت روز افزوں
نزہت بفزود ازو بہ باغ دہلی
تاریخ جلوس آں شہ والا قدر
امد بہ لب خرد چراغ دہلی
بعد میں لوگوں نے اسے انگریز کے غلبے کی برکت قرار دیا گیا، یا اسے دلی کا آخری سنبھالا نام دیا، یا ہند اسلامی تہذیب کی ابدی روشنی کا کرشمہ سمجھا، لیکن حقیقت بہرحال یہی تھی کہ بہادر شاہ ثانی کی دلی میں وہ سب کچھ تھا جو دنیا کے بڑے سے بڑے شہر میں اس وقت یکجا ملنا مشکل تھا۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ شہرآباد، عایا دلشاد، امیر اپنے مال میں مست، فقیر اپنی کھال میں مست۔ دلی صحیح معنوں میں بیت المعمور تھی۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭