کراچی (رپورٹ :اقبال اعوان )عید قربان پر فروخت کیلئے لائے گئے لاکھوں جانور مویشی منڈیوں میں پہنچ گئے تاہم جانور چوری اور چھننے والے 5 گروہ سرگرم ہوگئےہیں ۔ یومیہ 50 بڑے چھوٹے جانور چھننے یا چوری کئے جارہے ہیں۔ شہر کے 17 تھانے اس حوالے سے حساس ہیں جبکہ ملیر، بلدیہ، لانڈھی کی مویشی منڈیاں زیادہ متاثر ہیں۔ جبکہ رہائشی علاقوں میں صورتحال خراب ہونےپر قربانی کے مویشی بچانے کے لئے علاقے کی سطح پر چوکیداری نظام شروع کردیا گیا ہے۔ شہر کے بیشتر علاقوں اور منڈیوں میں جانور چوری یا چھننے کے واقعات کی روک تھام کے لئے پولیس کی جانب سے حکمت عملی مرتب نہ کرنے پر بیوپاری اور شہری پریشان ہوگئے۔ سپر ہائی وے مویشی منڈی کے اطراف جانور چھننے کے واقعات بڑھ گئے۔ کراچی کی مویشی منڈیوں اور علاقوں میں لگنے والی چھوٹی چھوٹی منڈیوں میں لگ بھگ 6 لاکھ سے زائد جانور آچکا ہے جبکہ جانوروں کی آمد کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے۔ ایک جانب شہر کی مویشی منڈیوں میں سیکورٹی کا انتظام انتہائی ناقص ہے۔ دوسری جانب شہری علاقوں میں جانور چوری ہونے یا اسلحہ کے زور پرچھینےجانےکے حوالے سے پریشان ہیں۔ اس سلسلے میں 17 تھانے حساس قرار دیئے جاتے ہیں جن میں قائد آباد، سکھن، شرافی گوٹھ، عوامی کالونی، کورنگی آئی ایریا، ملیر سٹی، شاہ لطیف ، بن قاسم، گڈاپ، سرجانی، معمار، بلدیہ، موچکو، سعید آباد، منگھو پیر، کیماڑی ، سچل، سائٹ سپر ہائی وےشامل ہیں۔ کراچی میں دو گروپس تو گزشتہ 12 سال سے جانور چھننے اور چوری کرنے کی وارداتیں کررہے ہیں۔ ان میں دادوکا سوڈا ببر گروپ اورخیرپور کا عبدالغنی گروپ شامل ہیں۔ ان گروپوں کے بعض کارندے منظم گروپ چلا رہے ہیں۔ جو ملیر، بن قاسم، کورنگی، لانڈھی کے باڑوں، مویشی منڈیوں ملیر ندی کے باڑوں میں وارداتیں کرتے ہیں۔سوڈا ببر گروپ کو میمن گوٹھ کا رفیق چانڈیو جبکہ عبد الغنی کے گروپ کو کورنگی کا جمال عرف شاہ جی چلارہا ہے۔ یہ گروپ جانوروں خاص طور پر گائے، بھینسیں چھین کرواپسی کیلئے تاوان بھی طلب کرتا ہے۔ ان گروپوں کے ”بھونگ“ درجنوں کی تعداد میں ہیں۔ جو مویشیوں اورملزموں میں لین دین کے لئے رابطہ کراتے ہیں۔ ملیر بکرا پیڑی لانڈھی، بھینس کالونی کی مویشی منڈیوں میں جانور چوری کرنے اور چھیننے میں دونوں گروپ ملوث ہیں کورنگی مہران ٹاوٴن سیکٹر 6/G کے رہائشی خادم چانڈیو کے گھر سے بکرے چوری کرلئے گئے۔ جبکہ بلدیہ رئیس گوٹھ میں اسلحہ کے زور پر درجنوں بڑے جانور چھین لئے گئے۔ 8ملزمان واردات کیلئے ٹرک ساتھ لائے تھے۔ ذرائع کے مطابق مویشی منڈیوں میں بکروں، بڑے جانوروں کی چوری کے واقعات بڑھ چکے ہیں۔ رسہ گیروں کا تیسرا بڑا گروہ انور سندھی کا ہے جو ٹنڈو آدم سے تعلق رکھتا ہے اور کئی سال سے ملیر گڈاپ اور سہراب گوٹھ کے علاقوں میں وارداتیں کررہا ہے جبکہ چوتھا گروپ جان محمد سولنگی کا ہے جو جانو سائیں کے نام سے جانا جاتا ہے اس کا تعلق دادو سے ہے اور بلدیہ میں اس کی وارداتیں زیادہ تھیں تاہم اب یہ صفورا گوٹھ میں اپنا نیٹ ورک چلارہا ہے۔ اس کے گروہ میں بلوچ اور سندھی کارندے زیادہ ہیں۔ ذرائع کے بقول رسہ گیروں کے گروپوں میں 70 سے 80 کارندے ہوتے ہیں انہوں نے مضافاتی علاقوں میں باڑے بنائے ہوئے ہیں۔ بقرعید سے قبل جانور بڑی تعداد میں آنے پر یہ وارداتوں میں اضافہ کردیتے ہیں۔ ٹرک لے کر 10/12 کارندے ادھر ادھر نکلتے ہیں موقع دیکھ کر جانور چھین یا چوری کرکے باڑوں پر لے آتے ہیں اور بعد میں رابطے میں رہنے والے بیوپاریوں کو سستے داموں فروخت کردیتے ہیں اور دوسرے علاقے کی منڈی میں جانور فروخت ہوجاتا ہے۔ سپر ہائی وے مویشی منڈی میں اس گروپ کے کارندے جانور چوری کرتے ہیں۔ اور بیوپاریوں سے لین دین کے دوران زیادہ جانور چڑھا لیتے ہیں یا ایک بیوپاری کے چوری شدہ جانور دوسرے بیوپاری کے قریب باندھ کر بعد میں گاڑیاں لاکر لے جاتے ہیں۔ سپر ہائی وے منڈی میں زیادہ تر بکرےاور دنبے یا گائے چوری کئے جاتے ہیں ضلع وسطی کے رہائشی افراد جو دوچار جانورپال کر انصاری پل کے نیچے، بندو خان کباب یا منڈی کے اطراف فروخت کرتے ہیں۔ چار روز قبل سرجانی کے رہائشی جبار سے مسلح افراد ایک گائے تین بکرے چھین کر فرار ہوگئے۔ منڈی میں موجود رپورٹ کرانے والے بیوپاریوں کو روکا جاتا ہے کہ پولیس کیس سے انتظامیہ کی بد نامی ہوتی ہے اور مزید بیوپاری مال لے کر نہیں آتے ۔ بلدیہ ٹاوٴن میں اسلم بلوچ عرف فیصل دادا گروپ زیادہ سرگرم ہے جس کے کارندوں نے رئیس گوٹھ، یوسف گوٹھ، مواچھ گوٹھ میں باڑے بنائے ہوئے ہیں۔ اسلم بلوچ کا تعلق موچکو سے ہے اور یہ عزیر بلوچ کے فیصل پٹھان گروپ سے تعلق رکھتا ہے اس کے زیادہ تر کارندے بلوچ ہیں۔ یہ زیادہ وارداتیں بلدیہ کی مویشی منڈی یا اطراف کے گوٹھوں میں لائے گئے جانور چھین یا چوری کرتے ہیں۔ بلدیہ ٹاوٴن کی منڈی جو سال بھر لگتی ہے اور جہاں 40/45 ہزار کٹاو جانور موجودہوتے ہیں جبکہ بقرعید پر تین چارلاکھ جانور لائے جاتے ہیں ۔ اب بھی ڈیڑھ لاکھ تک جانور آچکا ہے اس منڈی کی چار دیواری نہیں ہے اور وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی ہے اس کے گلی کوچوں سے کئی راستے اطراف کی آبادیوں میں جاتے ہیں اس منڈی میں تین سال قبل تک گینگ وار کارندوں کا راج تھا۔ اب بھی جانور چوری یا چھیننےکے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ بیوپاری توفیق احمد کا کہنا ہے کہ 10 سال سے اس منڈی میں جانوروں کا کاروبار کررہے ہیں۔ یہاں پر جانور بڑھنے پر وارداتیں زیادہ ہوجاتی ہیں۔ اب بیوپاری اسلحہ یا سیکورٹی گارڈ نہیں رکھ سکتے ۔ رات کوملزمان جانور چوری یا چھین کر لے جاتے ہیں۔ ہر بار پولیس بڑے بڑے دعوے کرتی ہے۔ تاہم بقرعید قریب آتے ہی وارداتیں زیادہ ہوجا تی ہیں۔ گزشتہ سال بھی کئی وارداتیں ہوئی تھیں۔ چاکیواڑہ کی حدود میراں ناکہ لیاری ندی کے اطراف بھی مویشی منڈی لگی ہے۔ کئی ہزار قربانی کے جانور آچکے ہیں دو روز میں چار وارداتیں ہوچکی ہیں اکبر بیوپاری سے دو بکرے۔ جمیل سے ایک دنبہ اور مہربان شیر شاہ والے سے گائے چھینی جاچکی ہے۔ چوری کی وارداتیں یا خریداروں کو لوٹنے کی وارداتیں بھی بڑھ گئی ہیں۔ یہاں بابا لاڈلہ گروپ کا شکیل بلوچ اور غفار زکری گروپ کا سیفو بلوچ زیادہ وارداتیں کرتے ہیں۔ نارتھ کراچی کے رہائشی توقیر کا کہنا ہے کہ ان کے علاقے میں پاور ہاوٴس کے قریب جانور سڑک کنارے فروخت ہورہے ہیں رات کو زیادہ کاروبار ہوتا ہے۔ ہم نے دو بکرے 60 ہزار میں خریدے تھے۔ اور بکرے لے کر گاڑی کے انتظار میں کھڑے تھے کہ ڈاٹسن سوار دو افراد نے بکرے لے جانے کی بات کی۔والد کے انکار کرنے پر اسلحہ دکھاکربکرے لے گئے ۔ والد نے رپورٹ کرانے سےمنع کر دیا کہ کچھ نہیں ہوگا ۔ شاہ فیصل کالونی ملیر ندی میں باڑے بنائے گئے ہیں جہاں قربانی کے جانورمعاوضے پر بقرعید تک کے لئے رکھے جاتے ہیں دو روز قبل شوکت کی ایک گائے چوری کرلی گئی۔ کھارادر میں بھی کرائے پر جانور رکھے جارہے ہیں۔ صرافہ بازار کے قریب محمد سمیع سے دو بکرے چھین لئے گئے۔ ایک جانب رسہ گیر اور دوسری جانب ڈکیٹ گروپ سرگرم ہوچکے ہیں۔ جو شہریوں اور بیوپاریوں کو لوٹتے ہیں۔ شہر میں وارداتیں بڑھنے پر شہری پریشان ہں کہ منڈی کے اندر تو سیکورٹی ہے تاہم راستے میں یا گھر کے آگے جانور کی حفاظت کس طرح کریں ۔