برطانوی تھنک ٹینک نے طالبان شیڈو نظام مثالی قرار دیدیا
لندن (امت نیوز)برطانوی تھنک ٹینک نے طالبان کے شیڈو نظام کو مثالی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مزاحتمی تحریک نے اسی کے ذریعے مختلف علاقوں میں مؤثر انداز میں پیشرفت کی ہے ۔طالبان 8 اضلاع میں بجلی جبکہ ملک کے موبائل فونز کے بل وصول کر رہے ہیں ۔اس بات کا انکشاف ایک برطانوی تھنک ٹینک کے محقق ایشلے جیکسن کی رپورٹ ’’لائف انڈر طالبان شیڈو گورنمنٹ‘‘ میں سامنے آئی ہے ۔ مصنف کے مطابق اس نے جولائی2017 میں طالبان کے شیڈو گورنمنٹ نظام کے بارے میں تحقیقاتی رپورٹ کی تیاری شروع کی ۔ اس مقصد کیلئے7صوبوں کے20 اضلاع سے تعلق رکھنے والی 162 شخصیات بشمول طالبان کمانڈرز ، جنگجوؤں،امدادی کارکنان، اساتذہ و ڈاکٹرز کے انٹرویوز لئے گئے ۔ یہ تمام افراد یا تو طالبان کے زیر قبضہ علاقوں میں رہ چکے ہیں یا اب بھی مقیم ہیں ۔ مصنف نے تمام انٹرویوزبذات خود لئے۔7 انٹرویوز ٹیلی فون یا میسجنگ ایپس اور درمیان میں پڑنے والے افراد کے ذریعے لئے گئے۔ تحقیقات کے دوران صوبہ لوگر کے ضلع چرخ،ہلمند کے ضلع نادِ علی اور قندوز کے ضلع چاردرہ پر خصوصی توجہ دی گئی۔رپورٹ کے مطابق اس بار افغانستان کے مختلف زیر قبضہ علاقوں میں طالبان کا طرز انتظام اچھا ہے اور بہت سے لوگ اسے مثالی سمجھتے ہیں۔اس بار طالبان کا شیڈو نظام حکومت زیادہ تسلسل سےکام کر رہا ہے ۔طالبان نے تعلیم ،صحت ،عدل،خزانہ، محصولات کے شعبوں میں کمیشن بنا رکھے ہیں۔ شیڈو نظام میں چین آف کمانڈبھی بہت واضح ہے ۔طالبان اپنے علاقوں میں حکومتی اداروں اور این جی اوز کے کاموں پر نظر رکھتے ہیں اور ان کی نگرانی کرتے ہیں۔طالبان کے زیر قبضہ علاقوں میں تعلیم اور صحت کے شعبوں میں کام کرنے والے حکومتی ادارے اور این جی اوز طالبان کے اصولوں کے مطابق کام کرتی ہیں۔خدمات کے محکموں سے وابستہ افغانستان کے وزرا نے اپنے اداروں کے حوالے سے مقامی طالبان سے رابطے استوار کئے اور اب دونوں محکموں کے ضلعی اور ڈویژنل افسران کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ہم عصر طالبان کے شیڈو ارکان سے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں ۔رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ طالبان کا صحت کمیشن کے نمائندہ صحت مراکز میں ڈاکٹروں کی موجودگی ،غیر حاضری پر ان کی تنخواہوں میں کٹوتی ، طبی آلات و ادویات کے ذخائر کی چیکنگ کرتے ہیں ۔ اس حوالے سے کمی کو دور کرنے کی تجاویز دیتے ہیں۔طالبان کی جانب سے تعلیم و صحت کے شعبے میں کام کرنے والی این جی اوز کی نا صرف حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے بلکہ ان پر دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ وہ ملک کے دور دراز علاقوں تک اپنی خدمات کا دائرہ وسیع کریں اور لوگوں کو خدمات کی فراہمی یقینی بنائیں اور اس کے معیار میں بہتری بھی لائیں ۔طالبان کے نامزد نمائندے سرکاری اسکولوں میں بچوں کے نصاب کو بھی ریگولیٹ کر رہے ہیں ۔طالبان کے نمائندے اسکولوں میں جاکر اساتذہ کی حاضری چیک کرتے ہیں اور بچوں کو دی جانے والی تدریس پر بھی نظر رکھی جاتی ہیں۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ طالبان کی جانب سے ملک کے 34 میں سے8اضلاع میں سرکاری بجلی کمپنی کے جاری کردہ بجلی بل جبکہ ملک کے ایک چوتھائی موبائل فونز کے بلوں کی رقم وصول کرتے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان کا طرز انتظام یہ ظاہر کرتا ہے کہ اسے مختلف معاملات کو کنٹرول کرنے کیلئے ملک کے علاقوں پر با قاعدہ قبضے کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے ۔طالبان قبضے سے قبل ہی متعلقہ علاقوں کا انتظام سنبھال لیتے ہیں۔طالبان کا اثر ان علاقوں تک بھی پھیلا ہوا ہے جو اس کے زیر قبضہ ہیں نہ ہی یہ علاقے متنازع ہیں ۔رپورٹ کے مطابق طالبان نے امریکی حملے میں حکومت کے خاتمے کے 16برس کے اندر افغانستان بھر میں متوازی حکومت کا نظام قائم کیا جا چکا ہے ۔2002سے2003 میں طالبان نے امریکی حملے اور ملا عمر حکومت کے خاتمے کے خود کو دوبارہ منظم کرنا شروع کیا اور ملک میں متوازی نظام کےقیام کی کوششیں شروع کیں۔اس زمانے میں طالبان کی شوریٰ کا رکن رہنے والے ایک رہنما نے بتایا کہ جب ہم نے مختلف مقامات پر قبضے شروع کئے تو تنظیم کی شوریٰ کا اجلاس بلایا گیا تاکہ ہم لوگوں کو توقعات کے مطابق خدمات کی فراہمی کی کوئی راہ ڈھونڈ سکیں ۔اس موقع پر ہم نے کمیشن بنائے جو وزارتوں کے ہم پلہ قرار دیے گئے ۔اس زمانے میں سابق وزیر صحت عباس کو صحت کمیشن کا سربراہ بنایا گیا ۔اسی طرح مہارت رکھنے والوں کو متعلقہ مختلف شعبوں میں ذمہ داریاں سونپی گئیں۔ مختلف صوبوں اور اضلاع میں شیڈو گورنرز لگائے گئے ۔طالبان کے مختلف رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ملا عمر کے بعد طالبان کے سربراہ بننے والے ملا محمد منصور کے دور میں ناصرف عسکری محاذ پر توجہ دی گئی بلکہ انہوں نے ملک بھر میں شیڈو حکومتیں اور گورنر بھی بنائے ۔