کراچی(رپورٹ:عمران خان)سندھ کے ماہر افسران نے سرکاری اسپتالوں کو کروڑوں روپے مالیت کی جعلی اور غیر معیاری ادویات کی فراہمی کے کیس دبانے کیلئے نیا طریقہ ڈھونڈ لیا ہے ۔ مقدمات میں ملوث افراد اور کمپنیوں کے خلاف مقدمات ایف آئی اے کے بجائے پولیس کو بھجوانا شروع کر دیے ۔سندھ پولیس نے کراچی سمیت صوبہ بھر کے25 تھانوں میں ڈرگ انسپکٹرز کی جانب سے دی گئی درخواستوں پر ایورسٹ فارما سمیت دیگر ملزمان کیخلاف مقدمات درج کرنے سے ہی انکار کر دیا ہے ۔اس ضمن میں پولیس نے موقف اپنایا ہے کہ جعلی و غیر معیاری ادویات کی تیاری و فراہمی کے مقدمات درج ایف آئی اے کا اختیار ہے۔پولیس کے دو ٹوک انکار کے باوجود ڈرگ کوالٹی کنٹرول بورڈ کی جانب سے ڈرگ انسپکٹرز کو تھانوں میں ہی درخواستیں دینے کا حکم جاری کیا گیا ۔پولیس کے کیس درج کرنے سے انکار کے باوجود کوالٹی کنٹرول بورڈنے ناقص و جعلی ادویات سپلائی میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی آگے بڑھانے کے لئے متبادل راستہ چننے کے بجائے خاموشی اختیار کر رکھی ہے تاکہ معاملہ دب جائے۔مجموعی طور پر کروڑوں مالیت کی 37ادویات کے اسٹاک 25سے زائد سرکاری اسپتالوں اور ڈپوز میں سیل کئے گئے اور اس کے بدلے متبادل ادویات بھی فراہم نہیں کی گئیں جس سے3ماہ کے دوران سرکاری اسپتالوں میں مفت ادویات کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔سندھ پولیس کے ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ گزشتہ مالی سال میں محکمہ صحت سندھ نےایورسٹ فارما نامی کمپنی سے سیرپ،انجکشن سمیت کروڑوں روپے مالیت کی درجنوں ادویات خرید کر سندھ بھر کے سرکاری اسپتالوں میں سپلائی کیں۔رواں برس فروری میں ایورسٹ فارما کی جعلسازیوں کے معاملات اس وقت سامنے آنا شروع ہوئے جب وفاقی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے حکام نے کمپنی اور اس کے مالک کے خلاف سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کرائی۔ڈریپ حکام نے عدالت کو بتایا کہ ایورسٹ فارما کا مالک چوہدری عثمان سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث ہے اور با اثر ہونے کی وجہ سے ڈریپ افسران کو خاطر میں نہیں لاتا۔عدالتی حکم پر کمپنی کو ادویات سمیت سیل کر دیا گیا۔یہ ادویات لیبارٹری ٹیسٹ میں جعلی و غیر معیاری ثابت ہوئیں بعد ازاں سپریم کورٹ کے احکام پر کمپنی مالک چوہدری عثمان کو 6مارچ کو احاطہ عدالت سے گرفتار کر کے اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا۔ اس وقت تک سندھ حکومت کمپنی سے کروڑوں روپے کی ادویات خرید چکی تھی۔ اس لئے خود کو بچانے کیلئے ڈرگ انسپکٹرز سندھ کے ذریعے سندھ کے تمام29اضلاع میں26ڈرگ انسپکٹرز کے ذریعے 40سے زائد سرکاری اسپتالوں سے ایورسٹ فارما کی فراہم کردہ ادویات کے نمونے اٹھوا کر لیبارٹری بھجوائے ۔ٹیسٹ کی رپورٹ سے انکشاف ہوا کہ 37ادویات میں سے بیشتر غیر رجسٹرڈ اور غیر قانونی ہیں ،باقی غیر معیاری ثابت ہو گئی ہیں ۔رپورٹ پر اسٹاک سیل کر دیا گیا۔ذرائع کے بقول ادویات خریداری کے وقت بھی ایورسٹ فارما سوٹیکل کمپنی کی ساکھ اچھی نہیں تھی۔وفاقی ڈرگ ریگو لیٹری اتھارٹی میں کمپنی کے حوالے سےبہت سی شکایات پہلے ہی موجود تھیں۔صوبائی ڈرگ ڈیپارٹمنٹ افسران بھی کمپنی کی ساکھ و شکایات کے حوالے سے باخبر تھے۔تاہم اس کے باوجود صوبائی سیکریٹری صحت فضل اللہ پیچوہو اور ان کے قریبی افسر فرحان بلوچ کی منظوری سے کمپنی سے بھاری مقدار میں ادویات خریدی گئیں ۔ذرائع کے مطابق سنگین معاملے کو ڈرگ ڈیپارٹمنٹ اور پولیس کے درمیان ہی رکھ کر دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔معاملے سے خود کو بری الذمہ کرنے کیلئے محکمہ صحت کے حکام نے اسٹاک سیل کروایا اور اب انہیں یہ فکر لاحق ہو گئی کہ وہ خود کو تحقیقات سے کیسے بچائیں کیونکہ کمپنی سے سستے داموں غیر معیاری و غیر ادویات کی بھاری مقدار خرید کر بھاری کمیشن بٹورا گیاتھا۔منصوبے کے تحت ڈرگ انسپکٹرز کو ایورسٹ فارما کی ادویات کے خلاف پولیس کے ذریعے کارروائی آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ورنہ اس سے قبل ماضی میں ادویات کے غیر قانونی یا غیر معیاری ثابت ہونے پر کارروائی ایف آئی اے کے ذریعے ہی بڑھائی گئی ۔اس ضمن میں ڈرگ انسپکٹرز صوبائی کوالٹی کنٹرول بورڈ سے اجازت لے کر لیبارٹری رپورٹس کے ہمراہ ایف آئی اے میں مقدمات درج کرانے تحریری درخواستیں دیتے رہے ہیں۔ایف آئی اے مقدمات درج کر کے ڈرگ کورٹس میں بھیجتی ہے ۔ڈرگ ڈیپارٹمنٹ کے افسران کے مطابق ایف آئی اے کے ساتھ انہیں کام کرنے میں کافی سہولت رہتی ہے۔ڈرگ ایکٹ شیڈول میں شامل ہونے کی وجہ سے ایف آئی اے کے پاس ماہر افسران موجود ہیں دوسرا مقدمہ کی تیاری اور سیزر میمو بنانے میں بھی آسانی رہتی ہے ۔تھانوں میں تعینات افسران کو مقدمے کی تیاری کیلئے سندھی اور اردو زبان میں رپورٹیں بنانی ہوتی ہیں اور پھر انہیں تکنیکی معاملہ بار بار سمجھانا پڑتا ہےجس سے غیر ضروری تاخیر ہوتی ہے۔ذرائع کے بقول ادویات کے ذخائر ضبط کئے جانے کے بعد صوبائی کوالٹی کنٹرول بورڈ کے افسران کی خصوصی ہدایات پرمتعلقہ تھانوں میں مقدمات کے اندراج کیلئے تحریری شکایات جمع کرائی گئیں تاکہ وقت گزرنے کے ساتھ ہی کیس دبایا جاسکے۔ذرائع کے مطابق وقت ڈرگ ڈیپارٹمنٹ کا شعبہ انسپکٹرز بالکل غیر فعال ہو چکا ہے۔رواں برس میں ماہ اپریل سے چیف ڈرگ انسپکٹر کا عہدہ خالی ہے جسے پر نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے کئی انکوائریاں اور تحقیقات رکی ہوئی ہیں۔