اسلام آباد/ تہران/ انقرہ (امت نیوز/ مانیٹرنگ ڈیسک) امریکہ کے خلاف خطے میں نئے اتحاد کی راہ ہموار ہونے لگی۔ترکی پر پابندیوں کے معاملے پر پاکستان اور ایران نے انقرہ کا مکمل ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے۔ اسلام آباد میں دفتر خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ یکطرفہ پابندیاں کسی مسئلے کا حل نہیں، جبکہ تہران میں حکام نے کہا کہ امریکہ کی غلامی قبول نہیں، اقتصادی پابندیوں کے جواب میں ترکی کو تمام طرح کی مدد فراہم کریں گے۔ دوسری جانب ترک صدر نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ ہم تجارتی جنگ کا جواب نئے اتحاد بنا کر اور نئی شرکت داریاں قائم کر کے دیں گے۔ واضح رہے کہ رجب طیب اردگان نے روس کے ساتھ پہلے ہی تعلقات بہتر بنا رکھے ہیں، جبکہ چین امریکی اقدامات کیخلاف پاکستان کے شانہ بشانہ ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ تمام ممالک مشترکہ مفادات کے تحت اکٹھے ہو کر امریکی عزائم ناکام بناتے ہوئے نیا بلاک قائم کرسکتے ہیں۔ پیر کے روز اسلام آباد میں دفتر خارجہ سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی حکومت اور عوام خوشحالی اور ترقی کے لیے ترک حکومت اور عوام کے ساتھ ہیں۔ ترجمان نے عالمی امن اور استحکام میں ترکی کے قابل ذکر کردار کی تعریف کرتے ہوئے اسے عالمی معیشت میں ایک انجن قرار دیا اور اس بات کا اعادہ کیا کہ اسلام آباد اپنے مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے انقرہ کے ساتھ کھڑا رہے گا۔ دریں اثنا یوم آزادی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نگراں وزیر دفاع خالد نعیم لودھی نے کہا کہ امریکہ پاکستان کے خلاف 5،6 اقدامات اٹھا چکا ہے۔ اس نے ہمیں مغربی اتحاد سے باہر دھکیل دیا اور واضح کیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ نہیں چلنا۔ انہوں نے مزید کہاکہ امریکہ ابھی تک ہمارا فضائی اور زمینی راستہ استعمال کر رہا ہے اور پاکستان سے افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی توقع رکھتا ہے۔اس سے قبل نگراں وزیر خارجہ عبداللہ حسین ہارون نے کہا تھا کہ ہم ہر موڑ پر امریکہ کی مانتے رہے لیکن نتائج اچھے برآمد نہیں ہوئے۔ 7 برس کے دوران کیری لوگر بل کے 7ارب ڈالر نہیں ملے۔ دوسری جانب بھارت کو پونے 9ارب جنگی طیاروں کیلئے دے دیئے اور حال ہی میں انڈوپیسیفک فریٹ اہم کردار بھی دیا ہوا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حقیقت میں امریکہ کی توجہ چین کی طرف ہے، ہماری تنہائی بھی اسی وجہ سے ہے۔ ہم نے سی پیک بنا کر بیجنگ کیلئے ایک راستہ کھول دیا جو انہیں ناگوار گزرا ہے۔ادھر تہران میں وزارت خارجہ کے ترجمان بہرام قاسمی نے ترکی کے خلاف امریکی سازشوں کی شدید مذمت کی اور کہا کہ تہران واشگنٹن کی جارحانہ پالیسی پر انقرہ کے ساتھ ہے۔امریکی پابندیاں بری طرح ناکام ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ مسلمان ممالک کو اپنا غلام بنانا چاہتا ہے، مگر ایران اور ترکی امریکہ کی غلامی قبول نہیں کریں گے۔ سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے بھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مذاکرات کی پیشکش ٹھکرا دی اور کہا ہے کہ امریکی دھمکیوں میں آکر خطے میں پالیسیاں تبدیل نہیں کریں گے۔انہوں نے جوہری معاملے پر مذاکرات پر بھی ندامت کا اظہار کیا اور کہا کہ حکومت کو اس بات کی اجازت دینا غلطی تھی۔ لیکن اب عوام جان لیں نہ تو جنگ ہو گی اور نہ ہم مذاکرات کریں گے۔ واشنگٹن وعدوں اور اپنی بات پر قائم رہنے والا نہیں۔دوسری جانب انقرہ میں سفیروں سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر نے کہا ہے کہ ہم امریکہ کو اس کی زبان میں جواب دیں گے۔ واشنگٹن کا کھیل جان لیا ہے۔ ڈالر کے ذریعے چڑھائی کے باوجود پیداوار، برآمدات میں اضافہ، روزگار کو فروغ اور ریکارڈ سطح پر ترقی کرنا جاری رکھیں گے۔ جن سے ہر میدان میں ترکی کی ترقی ہضم نہیں ہو پا رہی وہی ڈالر کے ذریعے وہ سب کچھ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جسے وہ 15 جولائی کے حملے میں نہیں کر سکے۔ رجب طیب اردگان نےاقتصادی جنگ شروع کرنے والوں کو للکارتے ہوئے کہا کہ ہم نے افغانستان میں، صومالیہ میں اور بوسنیا میں آپ کا ساتھ دیا۔اس وقت بھی کابل میں آپ کے ہوائی اڈے کا دفاع ہم کر رہے ہیں۔ ایسے اسٹریٹجک ساجھے دار کو آپ دہشت گرد تنظیموں کی خاطر کیسے چھوڑ سکتے ہیں۔ فیتو اور PKK کے ساتھ منسلک امریکی پوپ کیخلاف عدالتی کارروائی پر احکامات دے کر گردن جھکانے پر مجبور نہیں کر سکتے۔ یہ قانون کی زبان نہیں کوئی اور زبان سمجھتے ہیں لیکن کوئی مسئلہ نہیں ہم وہ زبان بھی بولنا جانتے ہیں۔ کیا اس چیز کو قبول کیا جاسکتا ہے کہ ایک طرف ہمیں اسٹریٹجک ساجھے دار کہیں اور دوسری جانب پیٹھ میں چھرا گھونپیں؟ ہم ٹرمپ کے منچلے پن پر آمنا و صدقنا نہیں کہہ سکتے۔