محمد زبیر خان
عمران خان کی بااعتماد ساتھی اور محکمہ صحت خیبرپختون کی سابق ایڈوائزر ڈاکٹر غزنہ خالد صدیقی کو برطانیہ میں بے ایمانی کی مرتکب قرار دیا جا چکا ہے۔ ان پر برطانیہ میں پریکٹس پر بھی پابندی عائد ہے۔ ٹریبونل نے ان کی تعلیمی قابلیت یا اہلیت کو بھی مسترد کر دیا تھا۔ ڈاکٹر غزنہ نے 2014ء میں برطانیہ پہنچنے والے وزارت صحت اسلام آباد کے وفاقی سیکریٹری کو خلاف ضابطہ ویاگرا لکھ کر دی تھی۔ جس کا وہ ٹریبونل کو کوئی جواز پیش نہیں کر سکیں۔ انہیں اپیل کا حق بھی دیا گیا تھا، تاہم وہ پاکستان چلی آئیں۔
واضح رہے کہ ڈاکٹر غزنہ خالد صدیقی نے 1996ء میں یونیورسٹی آف لندن سے ڈگری حاصل کی اور اس کے بعد برطانیہ کے مختلف شہروں میں بحیثیت گائنا کالوجسٹ، خدمات انجام دیتی رہیں۔ 2014ء میں وہ Scarborough میں تھیں۔ برطانیہ میں موجود معتبر ذرائع کے مطابق فروری 2014ء میں پاکستان سے آئے ہوئے ایک 55 سالہ شخص کے لئے ڈاکٹر غزنہ خالد نے نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ اے) کے نسخے پر پچاس ملی گرام ویاگرا تجویز کی اور میڈ سٹون (Maidstone) اسپتال کا نام استعمال کیا گیا، جو خواتین اور بچوں کیلئے مختص ہے۔ تاہم اس وقت انہیں بتایا گیا کہ فارمیسی میں اس مقدار کی ویاگرا موجود نہیں ہے۔ جس پر ڈاکٹر غزنہ نے ایک دوسرے نسخے پر سو ملی گرام کی ویاگرا تجویز کی اور مذکورہ شخص نے دوسرے روز تجویز کردہ دوا وصول کرنے کی ہامی بھری۔ اگلے روز جب فارمیسی میں نسخہ دکھایا گیا تو فارماسسٹ حیران رہ گیا کہ وومن اینڈ چلڈرن اسپتال سے ویاگرا تجویز کی گئی ہے۔ اس فارماسسٹ نے ڈاکٹر غزنہ کو کال کی تو انہوں نے بتایا کہ وہ اسی اسپتال میں کام کرتی ہیں۔ لیکن جب فارماسسٹ نے اپنے طور پر تحقیق کی تو پتا چلا کہ ڈاکٹر غزنہ اس اسپتال میں کام نہیں کرتیں، جس پر فارماسسٹ نے جنرل میڈیکل کونسل کو رپورٹ کردی اور اس حوالے سے باقاعدہ تحقیقات شروع کردی گئیں، اور باقاعدہ ایک تین رکنی تحقیقاتی ٹریبونل قائم کیا گیا۔ اس ٹریبونل نے 2017ء میں اپنی رپورٹ میں ڈاکٹر غزنہ خالد کو بے ایمانی کا مرتکب قرار دیتے ہوئے عوام کے بہترین مفاد میں ان کی پریکٹس پر مکمل پابندی عائد کردی، جبکہ انہیں 28 دن کے اندر اپیل کا حق بھی دیا گیا۔ مگر ’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق ڈاکٹر غزنہ صدیقی نے کبھی بھی اس فیصلے کے خلاف اپیل نہیں کی اور اس سے پہلے ہی پاکستان واپس آگئیں۔
ڈاکٹر غزنہ کے خلاف ٹریبونل کی رپورٹ 37 صحفات پر مشتمل ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ ’’دوران تفتیش ڈاکٹر غزنہ حیلے بہانے کرتی رہی تھیں۔ ٹریبونل کو یہ پتا نہیں چلا کہ ڈاکٹر غزنہ کے ساتھ مذکورہ شخص کا کیا رشتہ تھا، مگر ٹریبونل اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ ان کے ساتھ ڈاکٹر غزنہ کے قریبی ذاتی تعلقات تھے‘‘۔ ٹریبونل کی رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ’’جب ڈاکٹر غزنہ سے سوالات کئے گئے تو انہوں نے بتایا کہ وہ اس مریض کو علاج کرنے سے پہلے سے جانتی ہیں۔ وہ پاکستان کی وزارت میں ٹیکنیکل ایڈوائزر تھیں، جس میں وہ فیڈرل سیکریٹری یا جنرل سیکریٹری تھا‘‘۔ رپورٹ میں تحریر ہے کہ ٹریبونل کے چیئرمین ڈاکٹر اینڈرو لیوس Andrew Lewis نے ڈاکٹر غزنہ کو بتایا کہ اس نے قوانین اور اصول توڑے ہیں اور ٹریبونل اسے ایک ناقابل اعتماد سمجھتا ہے۔ جس پر ڈاکٹر غزنہ نے اپنے بیان میں قبول کیا کہ اس کا ایکشن گمراہ کن یا بے ایمانی سمجھا جاسکتا ہے۔ اس نے مزید کہا کہ وہ پیشہ وارانہ اخلاقیات پر ایک کورس کرنا پسند کرے گی، جو اسے بہتر بنانے میں مدد دے گا۔ اور اس کی خواہش ہے کہ وہ اپنی بے ایمانی اور گمراہ کن رویے اور غلطیوں کو دور کرسکے۔ ٹریبونل نے اپنی رپورٹ میں ڈاکٹر کی جانب سے دیئے جانے والے بیان کو یکسر مسترد کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ (اقراری بیان) کافی نہیں ہے۔ اس نے اپنی سی وی پر جو تعلیمی قابلیت/ اہلیت درج کی ہیں، اس کی وہ حق دار نہیں تھی۔ ٹریبونل اس پر اعتماد نہیں کر سکتا۔ ٹریبونل نے ڈاکٹر غزنہ پر پابندی لگانے کا فیصلہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ٹریبونل کے لئے بغیر کسی مناسب جواز اور ثبوت کے یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ ڈاکٹر اپنا رویہ دوبارہ نہیں دہرائے گی۔ اور نہ ہی کوئی ایسا مواد موجود ہے جس کی بنا پر ٹریبونل کو یہ تسلی ہو کہ وہ اس کو پریکٹس کرنے کی اجازت دے‘‘۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر غزنہ پر پابندی کا فیصلہ 28 روز کے بعد نافذ العمل ہوگا۔ وہ چاہے تو اس کے خلاف اپیل کر سکتی ہے۔ رپورٹ میں کم از کم پانچ مریضوں کو ویاگرا نسخے تجویز کرنے کا ذکر موجود ہے۔ڈاکٹر غزنہ خالد صدیقی 2014ء کے بعد پاکستان منتقل ہوگئی تھیں۔ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے 2016ء میں حیات آباد میڈیکل یونیورسٹی پشاور میں ایک پروفیسر کی حیثیت سے انہیں تعنیات کیا۔ اس کے علاوہ انہیں تحریک انصاف کی سابق صوبائی حکومت کی جانب سے مردان اور باچا خان میڈیکل کمپلکیس میں ممبر بورڈ آف گورنر تعنیات کیا گیا۔ پرویز خٹک کی حکومت کے دوران صوبائی محکمہ صحت نے انہیں اپنا ایڈوائزر مقرر کیا، جبکہ وفاقی محکمہ صحت اسلام آباد میں بھی ان کو اپنا ٹیکنیکل ایڈوائرز تعنیات کیا گیا۔ اس کے علاوہ بھی وہ بھاری مشاہرے پر متعدد عہدوں پر فائز رہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ ان کو حالیہ انتخابات میں تحریک انصاف نے خواتین کی مخصوص نشستوں پر ساتویں نمبر پر رکھا ہے، جبکہ تحریک انصاف کے حلقے اس بات کی بھی پیش گوئی کر رہے ہیں کہ وہ متوقع طور پر وزیر صحت ہو سکتی ہیں، کیونکہ وہ عمران خان کے انتہائی قریب ہیں اور پی ٹی آئی چیئرمین ان پر بہت زیادہ اعتماد کرتے ہیں۔’’امت‘‘ نے ڈاکٹر غزنہ خالد کا موقف لینے کیلئے کئی بار رابطہ کیا، مگر کوئی جواب نہیں ملا۔ سوشل میڈیا پر موجود ان کے فیس بک اکاوئنٹ پر بھی پیغام اور سوالات چھوڑے گئے اور ای میل بھی کی گئی، مگر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
٭٭٭٭٭