نذر الاسلام چودھری
چینی مسلمان گنبد و مینار کے تحفظ کیلئے ڈٹ گئے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بیجنگ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ننگزیا ریجن میں 600 برس قدیم مسجد ’’وہائی ژو جامع مسجد‘‘ کی تعمیر نو، پگوڈا اسٹائل میں کی جائے، جس میں میناروں اور گنبد کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ دوسری جانب مقامی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ مسجد خدائے بزرگ و برتر کا گھر ہے، جس کو شہید کرنے کی کسی کو بھی اجازت نہیں دی جائے گی۔ چینی حکومت اور سیکورٹی فورسز کی جانب سے ننگزیا ریجن میں کی جانے والی کسی بھی انہدامی کارروائی کو روکا جائے گا، چاہے اس کوشش میں ان کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔ سائوتھ چائنا مارننگ پوسٹ نے بتایا ہے کہ چینی حکومت نے 600 سال قدیم اس مسجد کو جو نئے انداز میں تعمیر کی گئی ہے، خلاف قانون قرار دیا ہے۔ واضح رہے کہ مسجد کو شہید کرنے کیلئے چینی حکام نے دو بار پہلے بھی کوششیں کی تھیں لیکن ہوئی نسل کے چینی مسلمانوں نے تین دن تک مسجد کے اطراف دھرنا دیا جس میں پچاس ہزار سے زائد خواتین نے بھی شرکت کی تھی۔ اس دھرنے کی وجہ سے چینی حکام کو پسپا ہونا پڑا۔ سائوتھ چائنا مارننگ پوسٹ کے مطابق چینی حکومت نے مسلمان عمائدین اور مسجد کے منتظمین کو پیغام بھیجا ہے کہ چینی حکومت مسجد کو شہید کرنے کا آپریشن تین ہفتے کیلئے ملتوی کررہی ہے۔ اگر اس عرصے میں مسجد کے منتظمین اور مسلمان عمائدین مسجد کے میناروں کو خود ہی منہدم کردیں تو بہتر ہوگا۔ کیونکہ مسجد کا اسلامی طرز تعمیر چینی حکومت کیلئے قطعی ناقابل قبول ہے۔ چینی میڈیا کا کہنا ہے کہ مقامی مسلمانوں کو کہا گیا ہے کہ وہائی ژو جامع مسجد کے میناروں کے انہدام کے بعد ہی چینی حکومت اس مسجد کے قیام کی اجازت دے گی۔ لیکن مسجد سے لائوڈ اسپیکرز اتارنے ہوں گے اور محراب و منبر کے گرد چینی پرچم آویزاں کئے جائیں گے۔ ہر جمعہ کے خطبے میں مسجد کے امام چینی حکومت کی تعریف کریں گے۔ جبکہ مسجد کے اندرونی حصوں میں چینی رسم الخط میں قرانی تراجم لکھے جائیں گے۔ لیکن مسلمان عمائدین نے اس سلسلے میں چینی حکومت کی تمام پیشکشوں کو یکسر مسترد کردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مسجد کے مینار تو کجا، اس کی سیڑھیوں تک کو انہدامی کارروائیوں کا نشانہ نہیں بننے دیا جائے گا۔ دوسری جانب چینی حکومت نے وہائی ژوجامع مسجد کے اطراف انٹرنیٹ سروس منقطع کردی ہے۔ مقامی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ سروس اس لئے بند کی گئی ہے کہ حکومت جامع مسجد کی شہادت کی کارروائی کو بیرونی دنیا سے خفیہ رکھنا چاہتی ہے۔ مقامی مسلمان رہنما مسٹر ہان نے بتایا ہے کہ یہ تاریخی مسجد 600 برس قبل چین میں موجود مسلمانوں نے تعمیر کی تھی۔ لیکن چینی انقلاب کے دور میں حکومت نے اسے شہید کردیا تھا۔ اب اس کی دوبارہ تعمیر اسی پرانے ڈیزائن پر کی گئی ہے جو چینی حکومت کی آنکھ میں کھٹک رہا ہے۔ مقامی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے حکام کو بتا دیا ہے کہ مسجد کی شہادت کا پروگرام دماغ سے نکال دیں، کیونکہ مسلمان گردنیں کٹوانا پسند کریں گے لیکن مسجد شہید نہیں ہونے دیں گے۔ سائوتھ چائنا مارننگ پوسٹ سے گفتگو میں مسلمان عمائدین کا کہنا تھا کہ حکومت نے نوٹس میں دعویٰ کیا ہے کہ مسجد غیر قانونی جگہ پر تعمیر کی گئی ہے۔ لیکن یہ موقف جھوٹ کا پلندہ ہے کیونکہ مسجد 600 سال قدیم ہے اور کاغذات اور تاریخ اس کے شاہد ہیں۔ چینی میڈیا کے مطابق مسلمانوں کے جذبات دیکھتے ہوئے چینی حکومت نے مجوزہ کریک ڈائون تین ہفتے کیلئے ملتوی کردیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق وہائی ژو جامع مسجد کے منتظمین نے جمعرات، جمعہ اور ہفتے کو مسجد کی حفاظت کیلئے دھرنے کا انتظام کیا تھا، جس میں چین بھر سے آئے ہوئے پچاس ہزار سے زائد مسلمانوں نے اپنے اہل خانہ کے ساتھ شرکت کی اور خصوصی نمازیں بھی ادا کیں۔ چینی خاتون صحافی نیکتار جین کا کہنا ہے کہ ہفتے کی شب مقامی اتھارٹیز اور سیکورٹی فورسز نے مسجد کے اطراف دھرنے میں بیٹھے مسلمانوں کو منتشر ہونے کیلئے کہا اور ان کو یقین دہانی کرائی کہ مسجد کو فوری طور پر منہدم نہیں کیا جارہا۔ حکام مسلمانوں کے تمام مطالبات کا جائزہ لیں گے۔ ادھر امریکا میں مقیم چینی مسلمانوں کی جلاوطن رہنما رابعہ قدیر نے کہا ہے کہ چینی حکومت مسلمانوں کو کچلنا چاہتی ہے اور بالخصوص سنکیانگ ریجن میں لاکھوں یوغور مسلمانوں کو یرغمال بنایا لیا گیا ہے۔ سائوتھ چائنا مارننگ پوسٹ نے بتایا ہے کہ مغربی چین کے کئی علاقوں میں موجود مسلمانوں کیلئے مساجد میں جانا اور قرآن کی تعلیمات حاصل کرنا شجر ممنوع قرار دیا گیا ہے اور نئے اماموں کے انتخاب اور تربیت و تعیناتی کیلئے اسناد کا اجرا محدود کردیا گیا ہے۔ جبکہ 16 برس سے کم عمر نوجوانوں کی اسلامی طرز پر فکری تربیت سے روکنے کیلئے ان کے مسجد جانے پر پابندی عائد کی جاچکی ہے۔
Prev Post