روزنامہ امت کراچی /حیدر آباد /راولپنڈی /پشاور
میں نے سوالیہ نظروں سے آمنہ کی طرف دیکھا۔ اس نے وضاحت کی ’’ممبئی میں باقی شہروں کے مقابلے میں آزاد خیالی بہت زیادہ ہے۔ یہاں کے لوگوں کی اکثریت خود کو کسی بھی مذہب کے کٹر پیروکاروں سے دور رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ لہٰذا بہتر یہ ہوگا کہ آپ ایک آزاد خیال مسلمان نوجوان کے طور پر خود کو پیش کریں‘‘۔
میں نے اس کی رائے کو سراہا اور اس کے مشورے پر عمل کرنے کا وعدہ کیا۔
اس نے کہا ’’اس کے علاوہ یہ بھی سمجھ لیں کہ ہمارے ممبئی کے قونصل خانے اور اس کے عملے کے تمام افراد کی بھی کڑی نگرانی کی جاتی ہے، لہٰذا آپ براہ راست وہاں نہیں جا سکتے۔ بلکہ افتخار محمود (فرضی نام) آپ سے رابطے کا طریقہ خود طے کریں گے، جس کی اطلاع آپ کو یہیں پہنچا دی جائے گی۔ آپ کو اس کے مطابق عمل کرنا ہے۔ یعنی فی الحال آپ کو یہیں رہ کر رابطہ کیے جانے کا انتظار کرنا ہے۔ البتہ آپ چاہیں تو شہر میں گھوم پھر سکتے ہیں‘‘۔
میں نے کہا ’’مجھے یہاں کا کیا پتا؟ آپ ہی یہاں کی سیر کرائیں گی‘‘۔
میری بات سن کر اس کے ہونٹوں پر شرارت بھری مسکراہٹ نمودار ہوئی ’’آپ کو شاید کوئی غلط فہمی ہوئی ہے محترم۔ میں آپ کی ٹورسٹ گائیڈ بننے کے لیے یہاں نہیں آئی ہوں۔ مجھے آپ کو بحفاظت یہاں تک پہنچانے کے لیے آپ کی خاتون خانہ کا کردار سونپا گیا ہے، جو اب ختم ہو چکا ہے‘‘۔
میں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ اس نے سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا ’’ہم دونوں آج رات کی گاڑی سے ہی واپس دلّی جارہی ہیں، جہاں ہماری دیگر ذمہ داریاں ہماری منتظر ہیں۔ ہم آپ کی خیریت اور کامیابی کے لیے دعاگو رہیں گی۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ کا مشن کافی کٹھن ہے۔ لیکن آپ کی کامیابی کی خبر ملی تو مجھے خصوصی خوشی ہوگی‘‘۔
میں نے قدرے حیرانی سے اسے دیکھا۔ وہ اس لمحے مجھے دلّی میں دل میں لطیف و خواب آگیں تصورات جانے والی الہڑ حسینہ کی جگہ ایک گھاگ، فرض شناس افسر دکھائی دی۔ ساتھ ہی مجھے ادراک ہوا کہ یہی اس کا اصل روپ ہے۔ دلّی میں تو اس نے اپنی شخصیت کا ایک فرضی خاکہ مجھے دکھایا تھا۔ مجھے اپنے اناڑی پن پر دل ہی دل میں خفت کا احساس ہوا۔ مجھے معاملے کا ادراک کرلینا چاہیے تھا۔ ہو سکتا ہے اس فرضی کردار کی طرح اس کا نام بھی من گھڑت ہو اور میں شاید زندگی بھر اس چند دن کی ہم سفر کے اصل نام سے ناواقف رہوں گا۔
شام کو ساتھ لائے ہوئے سفری بیگوں میں سے ایک میری رہائش گاہ پر چھوڑ کر وہ دونوں واپسی کے لئے تیار ہوگئیں۔ میں نے انہیں ریلوے اسٹیشن پر چھوڑنے کی پیش کش کی جو آمنہ نے غیر ضروری قرار دے کر مسترد کر دی۔ پھر وقت ہونے پر وہ مجھے خدا حافظ کہہ کر گھر سے نکل گئیں۔
اس طرح میری زندگی کا ایک مختصر، لیکن خوش گوار باب ختم ہوا اور میں نے سب کچھ بھلا کر خود کو آنے والی آزمائش کے لیے ذہنی طور پر تیار کرنے کی ٹھانی۔ اگلا پورا دن اور رات میں نے گھر میں گزارا اور کھانے کے علاوہ کہیں نہیں گیا، تاکہ افتخار محمود کو مجھ سے رابطے کی کوشش میں کوئی مشکل نہ ہو۔ لیکن میری یہ کارگزاری بے کار گئی۔ اس دوران میں آمنہ کے مشورے کے مطابق کلین شیو ہوگیا تھا اور بشرٹ اور پتلون زیب تن کرلی تھی، جو اسی سفری بیگ سے ہاتھ لگی تھی، جو آمنہ اپنے ساتھ لائی تھی۔ حیرت انگیز طور سفری بیگ میں موجود چاروں جوڑی لباس میرے ناپ کے عین مطابق نکلے۔
اگلے دن اور اس سے اگلے دن بھی کسی نے میری خیر خبر نہ لی۔ بالآخر تیسرے دن میں علی الصباح گھر سے نکلا اور آٹو رکشا میں کولابا میں گیٹ وے آف انڈیا کا رخ کیا اور دیر تک ساحل کی فرحت بخش فضا سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ پھر میں نے ایک سیاحتی کشتی میں سمندر کی سیر کی۔ گودی پر واپسی پر میں نے ایک بار پھر آٹو رکشا کرائے پر لینے کا سوچا، لیکن پھر خیال آیا کہ مجھے جلدی کیا ہے۔ راستہ بھی دیکھا بھالا ہے، خوش گوار موسم میں اڑھائی تین میل فاصلہ ٹہلتے ہوئے طے کر کے گھر پہنچ جاؤں گا۔
لگ بھگ پونے گھنٹے بعد میں اپنے ٹھکانے پر پہنچ گیا۔ اگلے روز میں خاصی دھوپ چڑھے ناشتے کے لیے گھر سے نکلا۔ میں نے لگ بھگ پچاس گز کا فاصلہ طے کیا تھا کہ ایک آٹو رکشا میرے قریب آکر آہستہ ہوا اور پھر رک گیا۔ میں نے چونک کر مسکین سی شکل والے ادھیڑ عمر کے آٹو ڈرائیور کی طرف دیکھا۔ وہ عاجزی بھرے لہجے میں بولا
’’کہاں جائیں گے بابو؟ چلیے میں آپ کو چھوڑ دیتا ہوں‘‘۔
میں نے قدرے بیزاری سے کہا ’’آپ جائیں بھائی، مجھے کہیں نہیں جانا۔ ناشتہ کرنے کے لیے نکلا ہوں‘‘۔
میری بات سن کر اس نے ضدی لہجے میں کہا ’’ارے آپ بیٹھیں تو صحیح بھائی جان، میں آپ کو ایسی جگہ لے چلتا ہوں جہاں کراچی سے بھی زیادہ بڑھیا ناشتہ ملتا ہے‘‘۔
میں نے چونک کر اس کے چہرے کی طرف دیکھا، جہاں معنی خیز مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ میں نے گرد و پیش پر نظر دوڑائی اور کسی کو متوجہ نہ پاکر جھٹ سے آٹو میں بیٹھ گیا۔ ڈرائیور نے رکشا آگے بڑھا تے ہوئے کہا ’’السلام علیکم جناب، میرا نام اسلم علی ہے۔ افتخار صاحب نے بھیجا ہے۔ ممبئی میںکوئی مسئلہ تو نہیں پیش آیا آپ کو؟‘‘۔
میں نے اطمینان کی سانس لیتے ہوئے کہا ’’نہیں، سب ٹھیک رہا۔ بس انتظار نے بیزار کر دیا۔ شکر ہے، آپ لوگوں نے رابطہ تو کیا‘‘۔
اس نے سنجیدہ لہجے میں کہا ’’آپ تو جانتے ہیں جناب، معاملہ کتنا خطرناک ہے۔ پہلے یہ یقین دہانی کرلینا ضروری تھا کہ کہیں کوئی آپ کی طرف سے مشکوک ہوکر پیچھے تو نہیں لگا ہوا ہے۔ میں کل سارا دن آپ کے ساتھ تھا۔ گیٹ وے آف انڈیا، کشتی اور پھر ایک گھنٹے کی پیدل مارچ۔ بالآخر افتخار صاحب نے آپ سے رابطے کے لیے گرین سگنل دے دیا۔ اس وقت میرے پاس آپ کے لیے افتخار صاحب کا یہ پیغا م ہے کہ وہ کل آپ سے ملاقات کریں گے۔ میں آپ کے لیے کل شام کے لیے مراٹھا مندر سینما کا ٹکٹ لایا ہوں۔ آپ پہلے پہنچ جائیے گا۔ شو شروع ہونے کے بعد افتخار صاحب آپ کے ساتھ والی خالی سیٹ پر آکر بیٹھ جائیں گے اور فلم شو کے دوران آپ لوگ آپس میں باتیں کر سکیں گے‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭