سید نبیل اختر/ اسامہ عادل
سہراب گوٹھ میں لگنے والی بکروں کی منڈی میں خوبصورت بکرے 8 لاکھ روپے تک فروخت کے لئے دستیاب ہیں۔ ان بکروں میں کاموری اور گلابی نسل کے بکروں کی ڈیمانڈ زیادہ ہے۔ ماضی کے مقابلے میں اس بار منڈی میں لائے جانے والے بکروں کی تعداد کم ہے، جس کی وجہ سے سپلائی اور ڈیمانڈ کے مطابق ان کی قیمتیں مقرر کی گئی ہیں۔ اب تک منڈی میں 40 ہزار بکرے، دنبے اور بھیڑ فروخت کے لئے لائے جا چکے ہیں۔ ’’امت‘‘ ٹیم نے سہراب گوٹھ کی بکرا منڈی پہنچ کر یہ جاننے کی کوشش کی کہ بکرے اس قدر مہنگے کیوں ہیں اور یہ کہ انہیں پالنے کیلئے سال بھر کیا کیا کرتے ہیں۔
’’امت‘‘ کو نوشہرو فیروز کے رہائشی شوکت نے بتایا کہ اس کے پاس گلابی اور کاموری کراس نسل کے بڑے بکرے موجود ہیں، جو ڈھائی سے سات لاکھ روپے مالیت کے ہیں۔ وہ ہر برس عید قرباں پر دو درجن بکروں کے ساتھ مویشی منڈی کا رخ کرتے ہیں اور عید سے قبل انہیں فروخت کر کے اہلخانہ کے ساتھ عید کی خوشیاں مناتے ہیں۔ شوکت کا کہنا تھا کہ وہ بقرعید کے فوراً بعد ہی بکری کے بچوں کی خریداری شروع کر دیتا ہے اور دو سے تین ماہ کے بچے خرید کر انہیں قربانی کے لئے تیار کرتا ہے۔ یہ یومیہ دودھ، مکھن، ڈالڈا گھی، سرسوں کا تیل، گندم کے دانے اور چنا کھاتے ہیں۔ دو دانت نکلنے کے بعد انہیں ہاتھ کی بھرائی کی جاتی ہے۔ ہاتھ کی بھرائی سے متعلق شوکت نے بتایا کہ جب بکروں کے دو دانت مکمل طور پر نکل آتے ہیں تو وہ محض اتنا ہی کھاتے ہیں، جتنا انہیں کھانا چاہئے۔ مگر انہیں صحت مند بنانے کے لئے ہاتھوں سے کھلانا شروع کرتے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق انہیں ایک کی بجائے دو بکروں کی خوراک ایک وقت میں دی جاتی ہے۔ کاموری کی اصل نسل کے بارے میں شوکت کا کہنا تھا کہ وہ تو محض زرداری خاندان کے پاس ہیں یا پھر سندھ کے بڑے جاگیرداروں نے رکھے ہوں گے۔ یہاں کاموری نسل کا بکرا اب نایاب ہے اور شاید ہی ایشیا کی سب سے بڑی منڈی میں کسی بیوپاری کے پاس یہ نسل موجود ہو۔ بکری کے بچوں کی قیمت کے حوالے سے شوکت نے بتایا کہ وہ کم از کم 40 اور زیادہ سے زیادہ پچاس ہزار میں بکری کے بچے خریدتے ہیں۔ ان پر لاکھوں روپے خرچ آنے کے بعد مارکیٹ میں لایا جاتا ہے۔ جبکہ بیشتر بیوپاری ایسے ہیں، جو محض شوق میں ہر سال لاکھوں روپے کا نقصان برداشت کرتے ہیں، کیونکہ اس میں کمائی نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔
وہیں ایک جگہ انتہائی خوبصورت بکروں کو کھانا کھلانے پر مامور غلام حسین نے بتایا کہ اس کے پاس بکروں کی پانچ نسلیں ہیں، جنہیں 8 لاکھ روپے تک فروخت کرنے کیلئے لایا گیا ہے۔ ان میں گلابی، کاموری، راجن پوری، مکھی چینی اور پٹیل شامل ہیں۔ غلام حسین نے دعویٰ کیا کہ اس کے پاس موجود بکروں کا وزن سات من تک ہے، جن کی بالترتیب قیمتیں دو، ڈھائی، تین، ساڑھے تین، چار، ساڑھے چار اور 5 لاکھ روپے تک ہیں۔ انہوں نے بکروں کی پہچان سے متعلق بتایا کہ وائٹ جسم اور گردن تک کتھئی رنگت کے بکرے پٹیل نسل کے ہوتے ہیں۔ مکمل سفید بکرے گلابی نسل کہلاتے ہیں، جنہیں نکرے بھی کہا جاتا ہے۔ سفید اور کتھئی رنگ کے دھبے دار (چتکبری) بکرے مکھی چینی نسل کے ہوتے ہیں۔ اسی طرح کاموری نسل کے بکرے ہلکے کتھئی پر گہرے براؤن کلر کے دھبے کے حامل ہوتے ہیں۔ انہیں عام طور پر اجرک سے بھی یاد رکھا جاتا ہے۔ غلام حسین کے مطابق اس کے پاس جتنے بھی بکرے ہیں، ان کے لئے روزانہ بھینسوں کا تازہ دودھ منگوایا جاتا ہے، جو روزانہ صبح صبح نوشہرو فیروز سے گاڑی کے ذریعے منڈی پہنچتا ہے۔ ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے بکروں کیلئے اس وی آئی پی بلاک میں ایک لاکھ 60 ہزار روپے کا پلاٹ لیا ہے اور انہیں منڈی میں آئے ہوئے پانچ دن گزر چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عید تک جگہ اور جانوروں پر مزید 5 لاکھ روپے تک کے اخراجات آجائیں گے، جس میں مزدوریاں بھی شامل ہیں۔ جبکہ ہر جانور کو منڈی میں داخل کرنے پر 800 روپے ٹیکس بھی ادا کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ منڈی میں آنے کے بعد بکروں کو جنتر، چنے اور گرائپ واٹر دیا جارہا ہے، تاکہ ان کا پیٹ خراب نہ ہو اور وہ تندرست نظر آئیں۔
وہیں دلپسند اسٹال پر بکرے سنبھالنے پر مامور عاشق سولنگی اور پرویز خاصخیلی نے بتایا کہ ان کے پاس بھی ایک درجن کے قریب گلابی اور دیگر اچھی نسلوں کے بکرے ہیں۔ عاشق کے مطابق ان کے بکرے نہار منہ دہی کھاتے ہیں۔ ایک بکرا دس کلو تک گھاس کھاتا ہے، جبکہ 4 لیٹر یومیہ دودھ پلایا جاتا ہے۔ پرویز کے مطابق ان کے بکروں کو اضافی طور پر روزانہ دو ٹائم روح افزا کی جمبو سائز بوتل میں گندم پلائی جاتی ہے۔
سروے کے دوران سہراب گوٹھ مویشی منڈی میں میرپور خاص سے تعلق رکھنے والے سائیں خدا بخش سے بھی بات چیت کی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ گزشتہ 20 برس سے بکرے فروخت کرنے کیلئے کراچی کا رخ کر رہے ہیں اور ان کے پاس کاموری سمیت مختلف اقسام کے 50 بکرے تھے۔ ان میں سے 25 کے لگ بھگ بکرے فروخت کر چکے ہیں۔ سائیں خدا بخش کا کہنا تھا کہ ان کے پاس بکروں کی مالیت ڈیڑھ سے 3 لاکھ روپے ہے، جبکہ اس میں کچھ نہ کچھ گنجائش کر کے فروخت کر دیئے ہیں۔ ان کے پاس سب سے زیادہ تعداد میں کاموری اور گلابی نسل کے بکرے ہیں، جنہیں سرسوں کا تیل، گندم، چنا اور دودھ بھی پلایا جاتا ہے۔ خدا بخش کے مطابق ان کے پاس کمانڈو اور کبوتر کی جوڑی کی قیمت 4 لاکھ روپے مقرر ہے اور اور دونوں کا وزن دو دو من ہے۔
وہیں درگاہ لشکر شاہ میرپور خاص سے آئے ولی خان نے بتایا کہ ان کے پاس 2 لاکھ روپے سے 4 لاکھ روپے مالیت کے بکرے موجود ہیں۔ گزشتہ برس کے مقابلے میں کم مگر اس بار بھی 65 گاؤں سے بکرے تیار کر کے لائے ہیں، جن میں سے 17 بکرے فروخت ہو چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان بکروں کو گندم، دودھ، چنا، گھی اور سبز گھاس کھلا کر تیار کیا گیا ہے۔ ولی خان نے ایک بکرے کی طرف اشارہ کر کے بتایا کہ اس کا نام سلطان ہے اور اس کی قیمت 2 لاکھ روپے مقرر کی گئی ہے۔ انہوں نے منڈی میں چارا مہنگے داموں فروخت ہونے کی شکایت کرتے ہوئے بتایا کہ ایک بکرا ایک دن میں 8 لیٹر پانی پیتا ہے۔ ایک سوال پر ولی خان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس موجود بکروں میں سے کچھ ان کے اپنے گھر میں پیدا ہوئے، جبکہ بعض بچے خرید کر انہیں پال کر یہاں فروخت کیلئے لائے ہیں۔ یہ تمام بکرے گھر کے پلے ہوئے ہیں اور اشاروں پر چلتے ہیں۔ ولی خان نے بتایا کہ ایک بکرے پر اخراجات کافی ہوتے ہیں۔ 8 سو روپے کے حساب سے داخلہ فیس ادا کی۔ 15 دن کے لئے 7 عدد شامیانوں کا کرایہ ادا کیا ہے، جو فی شامیانہ 7 ہزار روپے کے حساب سے ملا ہے۔ بکروں کی دیکھ بھال کیلئے 15 افراد موجود ہیں۔ کھانے پینے کا انتظام خود کرتے ہیں، جس کیلئے سامان اور برتن ساتھ لائے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ برسات کا موسم ہے اور منڈی میں بارشیں ہونے کی صورت میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ گزشتہ برس بھی کافی مشکلات ہوئی تھیں۔ بارش ہونے کی صورت میں منڈی میں خریدار کم آتے ہیں، جبکہ ریٹ بھی اچھے نہیں ملتے۔ پھر بارشوں کی صورت میں بکروں کو بخار اور زکام ہو جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ جو بکرے فروخت کے لئے لائے ہیں، ان میں کیلا، گلابی، کاموری، پھورا اور ٹاپ نسل کے بکرے شامل ہیں۔ وہیں موجود ساجد کے مطابق ان کے بکرے ہر سال عید سے قبل ہی فروخت ہوجاتے ہیں اور وہ تین روز قبل ہی واپس لوٹ جاتے ہیں۔ جبکہ واپسی پر کراچی سے بھی چند بکرے خرید کر لے جاتے ہیں، جنہیں سال بھر کھلائی پلائی کے بعد تیار کرتے ہیں اور اگلی عید پر فروخت کیلئے مویشی منڈی لے آتے ہیں۔
٭٭٭٭٭