امت رپورٹ
بدعنوان سیاست دانوں اور بیوروکریٹس سے ہڑپ کیا گیا پیسہ واپس لینے کا پلان تشکیل دیا جا چکا ہے۔ ابتدائی ہدف دو سو بلین ڈالر رکھا گیا ہے، جس کا بڑا حصہ غیر ملکی بینکوں میں ہے۔ ذرائع نے انور مجید کی گرفتاری کو بارش کا پہلا قطرہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگلے چند ماہ کے دوران بلا تفریق بڑے مگرمچھوں پر ہاتھ ڈالنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ اس کی لپیٹ میں نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے علاوہ تحریک انصاف کے بدعنوان رہنما بھی آئیں گے۔ واضح رہے کہ جعلی بینک اکائونٹس اسکینڈل کے سلسلے میں ایف آئی اے نے بدھ کے روز آصف زرداری کے فرنٹ مین قرار دیئے جانے والے انور مجید اور ان کے بیٹے کو سپریم کورٹ کے احاطے سے گرفتار کر لیا۔ دونوں باپ بیٹوں پر 36 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کا الزام ہے۔
پالیسی ساز حلقوں تک رسائی رکھنے والے ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ الیکشن سے قبل ہی اعلیٰ سطح پر یہ فیصلہ کر لیا گیا تھا کہ ملک کی معیشت کو سنبھالا دینے اور کرپشن کے خاتمے کے لیے ہر پارٹی کے بدعنوان رہنما اور بیوروکریٹس کے خلاف بلا تفریق کارروائی کی جائے گی۔ آپریشن کا بڑا حصہ نیب کے ذریعے قابل عمل بنایا جائے گا اور ترجیح پالیسی یہ ہو گی کہ سزا کے ساتھ ساتھ لوٹی گئی اور ناجائز طریقے سے بنائی گئی رقم بھی وصول کی جائے۔ تاہم اس میں یہ نکتہ شامل ہے کہ جو جتنا ناجائز پیسہ واپس کرے گا، اسے سزا میں اتنا ہی ریلیف ملے گا۔ مثال کے طور پر اگر کسی کو جرم ثابت ہو جانے پر دس برس قید کی سزا ہو جاتی ہے تو وہ لوٹی گئی رقم کا بڑا حصہ واپس کر کے اس سزا میں تین سے پانچ برس کی قید کم کرا سکتا ہے۔ یعنی رقوم کی وصولی کے نتیجے میں مجرم کو مکمل کلین چٹ نہیں ملے گی، جیسا کہ عموماً نیب کیسز میں پلی بارگیننگ کے تحت کیا جاتا ہے کہ مجرم یا ملزم رقم کا ایک بڑا حصہ دے کر رہا ہو جاتا ہے۔ رقم لوٹانے کے علاوہ ملزم کو اپنے فرنٹ مین بھی قانون کے حوالے کرنے ہوں گے۔ ذرائع کے بقول قوم کا پیسہ واپس لانے کے ٹاسک میں عدلیہ اور اہم ادارے نیب کی پشت پر ہوں گے، تاکہ کوئی کسی قسم کا دبائو ڈال کر بچنے کی کوشش نہ کرے۔ ذرائع نے بتایا کہ جو رقم واپس لینے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے اس کا تخمینہ سینکڑوں ارب ڈالر ہے۔ تاہم ابتدائی طور پر کم سے کم ٹارگٹ 200 ارب ڈالر رکھا گیا ہے۔ یہ رقم زیادہ تر سوئٹزر لینڈ، برطانیہ، امریکہ اور دبئی کے بینکوں میں رکھی گئی ہے، یا آف شور کمپنیوں کی صورت میں محفوظ ہے۔ اس کے علاوہ بیرون ملک جن لوگوں نے ناجائز پیسوں سے جائیدادیں بنا رکھی ہیں، ان اثاثوں کو فروخت کر کے بھی رقم حاصل کی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق یہ پلان ملائیشین وزیر اعظم مہاتیر محمد کے اختیار کردہ فارمولے سے ملتا جلتا ہے۔ جب وہ اپنے پہلے دور حکومت میں ملائیشیا کے کرپٹ سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی جانب سے لوٹی گئی رقم بیرون ملک سے واپس لے آئے تھے۔ اس سلسلے میں مہاتیر محمد نے ریاستی سطح پر اپنی ٹیمیں امریکہ، سوئٹزر لینڈ اور ہانگ کانگ بھیجی تھیں۔ یہ ٹیمیں تمام دستاویزی اور فارنسک شواہد اپنے ہمراہ لے کر گئی تھیں۔ متعلقہ ممالک سے کہا گیا تھا کہ ان کے بینکوں میں جو پیسہ پڑا ہے وہ ناجائز طریقے سے کمایا گیا اور ملائیشین عوام کی امانت ہے، لہٰذا واپس کیا جائے۔ ان کوششوں کے نتیجے میں اس وقت ہانگ کانگ جیسے کرپٹ ملک کے بینکوں کو بھی یہ رقوم واپس کرنی پڑی تھیں۔ ذرائع کے مطابق نئی حکومت کے آپریشنل ہونے کے بعد بیرون ملک پاکستانیوں کے ناجائز پیسوں کو لانے کے لیے اسی طرز کی حکومتی ٹیمیں متعلقہ ممالک بھیجی جائیں گی۔ جو مکمل ہوم ورک اور ضروری دستاویزی شواہد کے ساتھ روانہ ہوں گی۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ منی لانڈرنگ کو ختم کرنے اور پاکستانی کرنسی کے استحکام کے لیے بھی حکمت عملی طے کر لی گئی ہے، جس کے تحت ہنڈی کے کاروبار کے مکمل خاتمے کے علاوہ منی چینجرز کی چھٹی کرانے پر بھی غور ہو رہا ہے، تاکہ سارا کاروبار صرف بینکوں کے ذریعے کیا جائے۔ ذرائع کے بقول ڈالر مہنگا ہونے کی مختلف وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بڑے پیمانے پر ڈالر ہنڈی اور منی چینجرز کے ذریعے باہر بھیج دیا جاتا ہے یا لوگ اپنے پاس چھپا کر رکھ لیتے ہیں۔ جب غیر ملکی کرنسی کے لین دین کا واحد ذریعہ بینک رہ جائیں گے تو جنہوں نے ڈالر چھپا کر رکھیں ہوں گے، ان کے ڈالر ردی ہو جائیں گے یا انہیں باہر نکالنے پڑیں گے۔
ذرائع کا دعویٰ ہے کہ انور مجید کے خلاف کارروائی بالآخر صدر آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کی گرفتاری پر منتج ہوگی۔ ساتھ ہی انور مجید کے وعدہ معاف گواہ بننے کا اشارہ بھی دیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق منی لانڈرنگ کیس میں اگر انور مجید کی ضمانت ہو بھی جاتی ہے تو ایف آئی اے کے پاس اس قدر ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ ان کے بچنے کی امید نہیں اور یہ امکان بھی نہیں کہ کسی سیاسی مصلحت کے تحت کیس کو منطقی انجام تک پہنچائے بغیر دبا دیا جائے۔ ایک سوال کے جواب میں ذرائع کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ نئی حکومت کو اہم ترامیم کے لیے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے۔ اور اس کے لیے پیپلز پارٹی کو اتحادی حکومت میں شامل کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس سودے بازی کے ذریعے کرپشن کیسز میں ملوث پیپلز پارٹی کے اہم رہنمائوں کو ریلیف مل جائے گا۔ ذرائع نے اشارہ دیا کہ پیپلز پارٹی میں مائنس زرداری اندر سے ہو گا، جیسا کہ مسلم لیگ ’’ن‘‘ میں ہوا ہے کہ اپنے تاحیات قائد نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم کی گرفتاری کے باوجود سابق حکمران جماعت کمپرومائز کر رہی ہے، کیونکہ شہباز شریف کو معلوم ہے کہ اگلا نمبر ان کا ہے۔ ذرائع کے بقول یہی صورت حال پیپلز پارٹی کو درپیش ہونے والی ہے۔ حالات اس نہج پر پہنچا دیئے جائیں گے کہ آصف زرداری اور فریال تالپور کی گرفتاری کی صورت میں پیپلز پارٹی بھی کمپیرومائز کرتی رہے گی۔ ذرائع کے بقول ممکنہ طور پر پیپلز پارٹی کے پاس دو آپشن ہوں گے۔ ایک بدتر اور دوسرا بدترین۔ ان دونوں میں سے اسے کسی ایک کو اختیار کرنا پڑے گا۔ دوسری جانب آصف زرداری نواز شریف کے خلاف کرپشن کیسوں کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ لہٰذا وہ اس پوزیشن میں نہیں ہوں گے کہ یہ کہہ سکیں ہ نواز شریف کے ساتھ جو ہوا وہ ٹھیک ہے، لیکن انہیں نہ چھیڑا جائے۔ ذرائع کے مطابق جیسا کہ سپریم کورٹ نے اشارہ دیا ہے کہ آصف زرداری اور فریال تالپور کے خلاف جے آئی ٹی بنائی جا سکتی ہے۔ جے آئی ٹی بننے کی صورت میں تفتیش کا عمل طویل ہو جائے گا اور گرفتاری میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ تاہم منی لانڈرنگ کیس میں دونوں کو ریلیف ملنا خارج از امکان ہے کہ شواہد مضبوط ہیں۔ ذرائع کے مطابق احتساب کا عمل پنجاب میں مزید تیز ہونے والا ہے۔ اور یہ سلسلہ سندھ تک پہنچانے کا اصولی فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ آنے والے دنوں میں خواجہ برادران (خواجہ آصف اور خواجہ سلمان) کی گرفتاریاں متوقع ہیں۔ جبکہ آصف زرداری کے منہ بولے بھائی مظفر عرف ٹپی کو دبئی سے بذریعہ انٹرپول واپس لانے کی تیاری کی جارہی ہے۔ اسی طرح آف شور کمپنیوں کے حوالے سے تحریک انصاف کے جہانگیر ترین اور علیم خان کے گرد بھی گھیرا تنگ کیا جائے گا۔
نواز شریف کے حوالے سے ذرائع کا کہنا تھا کہ سابق وزیر اعظم کو تھوڑی بہت چھوٹ ملنے کا امکان ہے۔ نیب قوانین کے مطابق دس برس سے اوپر ہونے والی سزا میں ضمانت نہیں ملتی۔ نواز شریف کی سزا کی مدت میں کمی ہو سکتی ہے۔ جس کے بعد وہ ضمانت کرا لیں گے۔ لیکن انہیں کیس میں مکمل ریلیف کا فی الحال کوئی امکان نہیں۔ مریم نواز کو آٹھ برس اور کیپٹن (ر) صفدر کو محض ایک برس قید کی سزا ہوئی ہے، لہٰذا ان کی ضمانت کا ایشو نہیں۔٭
٭٭٭٭٭
Next Post