نئے پاکستان میں پرانی ڈیل کرنے کیلئے زرداری سرگرم

0

کراچی (اسٹاف رپورٹر) اپنے قریبی دوست انور مجید کی بیٹے سمیت گرفتاری سے پریشان سابق صدر آصف علی زرداری نئے پاکستان میں پرانی ڈیل کرنے کیلئے سرگرم ہو گئے ۔پی پی قیادت نے منی لانڈرنگ کیس میں محفوظ راستہ ملنے کے بدلے نئی حکومت سے تعاون پر آمادگی ظاہر کر دی، جب کہ وزارت عظمی کیلئے رائے شماری میں حصہ نہ لینے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔باخبر ذرائع کے مطابق تحریک انصاف اور مقتدر حلقوں سے بیک ڈور رابطوں میں تیزی آ گئی ہے تاہم اب تک پی پی قیادت اس ضمن میں کوئی یقین دہانی حاصل نہیں کرسکی ۔ اس حوالے سے آئندہ 2 ہفتے بڑی اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ خصوصاً عیدالاضحیٰ کے بعد صورتحال واضح ہونا شروع ہو جائے گی۔دوسری جانب نواز لیگی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ہمیں زرداری صاحب کی پریشانیوں کا اندازہ ہے۔ وہ کوئی رعایت حاصل کرسکتے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ تفصیلات کے مطابق منی لانڈرنگ کیس کی انکوائری میں دن بدن ہونے والی پیشرفت اور اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید کی بیٹے سمیت گرفتاری کے بعد پیپلزپارٹی کی قیادت بیک فٹ پر آ گئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات کے نتائج آنے کے بعد ہی پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف میں بیک ڈور رابطوں کا آغاز ہوگیا تھا، جس میں پی پی قیادت نے آئندہ صدارتی انتخابات میں آصف علی زرداری کو مشترکہ امیدوار بنانے، پنجاب اور کے پی کے میں صوبائی وزارتوں میں حصہ دینے، سینیٹ کے امور میں پیپلزپارٹی کو زیادہ اہمیت دینے اور قائد ایوان بھی جیالے کو بنانے جیسی شرائط پیش کیں۔ تاہم منی لانڈرنگ کیس میں اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید اور اس کے بیٹے کی گرفتاری کے بعد پیپلزپارٹی کی قیادت اپنی ان شرائط کو زیادہ اہمیت دیئے بغیر اس بات پر زیادہ زور دے رہی ہے کہ ایسی کوئی یقین دہانی کرائی جائے، جس میں منی لانڈرنگ کیس کے معاملے پر کوئی محفوظ راستہ نکالا جائے اور پیپلزپارٹی کی قیادت پر براہ راست کوئی آنچ نہ آئے۔نیز سندھ میں اسے کھلی چھوٹ دینے کے ساتھ ساتھ پنجاب میں سیاسی سرگرمیوں کیلئے سازگارماحول دیا جائے ۔جس کے بدلے میں پیپلزپارٹی وفاقی حکومت کا حصہ بنے بغیر بھی اس سے تعاون کرنے کو تیار ہے۔ آگے چل کر نئی حکومت کا حصہ بھی بن سکتی ہے۔ذرائع کے مطابق مقتدر حلقے آصف علی زرداری کو صدر مملکت بنانے کے حق میں نہیں تاہم انہوں نے پی ٹی آئی کی قیادت کو مشورہ دیا تھا کہ پیپلزپارٹی کی جانب ہاتھ بڑھایا جائے۔ جس سے قومی اسمبلی میں اپوزیشن کمزور ہونے سے تحریک انصاف کی حکومت کو فائدہ ہوگا۔ خصوصاً سینیٹ میں اپوزیشن جماعتوں کی جو اکثریت ہے وہ ختم ہو جائےگی۔ جس سے نئی حکومت کو قانون سازی وغیرہ کرنے میں بھی کوئی دقت پیش نہیں آئے گی۔ ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے سینئر رہنما بھی اپوزیشن خصوصاً نواز لیگ کو کمزور کرنے اپنی وفاقی حکومت کو مضبوط کرنے کیلئے پیپلزپارٹی کے ساتھ بہتر ورکنگ ریلیشن شپ رکھنے کے حامی ہیں اور خصوصاً بلاول بھٹو زرداری سے بات چیت کرنے کیلئے تیار ہیں۔ تاہم مقتدر حلقوں کیلئے یہ بات بھی اہمیت اختیار کرگئی ہے کہ اس صورتحال میں پیپلزپارٹی کی قیادت کو کوئی بڑا ریلیف دیا جائے گا تو اس سے خصوصاً صوبہ پنجاب میں اسٹیبلشمنٹ کے جانبدار ہونے کا تصور زور پکڑے گا۔ مذکورہ ذرائع کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال پیپلزپارٹی کی قیادت کیلئے پرانے طریقہ کار کے تحت کوئی ڈیل حاصل کرنا مشکل ہوگیا ہے کیونکہ منی لانڈرنگ کیس کی انکوائری جلدی ختم ہونے والی نہیں ہے بلکہ یہ معاملہ لمبا چلے گا۔ اس ضمن میں پیپلزپارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی کی قیادت نے خصوصاً عام انتخابات سے قبل نواب شاہ سے آصف علی زرداری کے قریبی دوست کی گرفتاری کے عمل سے یہ بات بھانپ لی تھی آنے والے وقت پی پی قیادت کیلئے مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔مذکورہ ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی اور سیاسی سرگرمیوں کے عمل میں بلاول بھٹو زرداری کو آگے لانے سے پارٹی کو فائدہ ہوا ہے اور سیاسی منظر نامے میں وہ فرنٹ فٹ پر ہیں تاہم اب بھی جو اہم فیصلے ہوتے ہیں ان میں شریک چیئرمین آصف علی زرداری کو اہمیت حاصل ہے اور عملی طور پر پالیسی امور انہی کے کنٹرول میں ہے۔ سابق صدر مختلف حلقوں سے بات چیت کے معاملے میں بلاول بھٹو زرداری کو آگے لانے کے حق میں ہیں اور حکمت عملی کے تحت خود بیک فٹ پر بھی جاسکتے ہیں لیکن انہیں مائنس فارمولا قبول نہیں ہے۔ اس ضمن میں تحریک انصاف کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کی کوشش ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کی سربراہی میں پی پی اور تحریک انصاف کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ پیدا ہو، جو کہ ان کے حق میں ہے اور ان کی بھی کوشش ہے کہ ایسی نوبت پیدا نہ ہو کہ پیپلزپارٹی بھی نواز لیگ والی شدت پر آجائے۔ دریں اثنا دیگر ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت وزیراعظم کے انتخاب میں نواز لیگ کے امیدوار کا ساتھ نہ دینے اور اس حوالے سے ووٹنگ میں حصہ نہ لینے کا جو فیصلہ کیا ہے۔ اس کا مقصد مقتدر حلقوں تک اپنے لیے مثبت پیغام پہنچانا ہے کہ پیپلزپارٹی تعاون کرنے کیلئے تیار ہے اور جو روڈ میپ تیار ہوگا اس پر چل سکتی ہے۔ تاہم اس سلسلے میں ابھی تک کچھ طے نہیں ہوسکا ہے اور رابطوں کا سلسلہ جاری ہے۔ دریں اثنا پیپلز پارٹی نے ملکی سیاسی تاریخ میں پہلی بار وزیراعظم کے الیکشن سے علیحدہ رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔آصف زرداری اور بلاول بھٹو کی زیرصدارت مشاورتی اجلاس میں پرویز اشرف، یوسف رضا گیلانی اور خورشید شاہ سمیت دیگر رہنماؤں نے شرکت کی۔اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پیپلز پارٹی قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت تو کرے گی لیکن انتخابی عمل کا حصہ نہیں بنے گی، عمران خان اور شہباز شریف کسی کو بھی وزیراعظم کا ووٹ نہیں دے گی۔ادھرمسلم لیگ ن نے بھی سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ذرائع کے مطابق مسلم لیگ ن نے سینیٹ میں اپنی جماعت کا اپوزیشن لیڈر لانے کا فیصلہ کیا ہے، جس کے لیے ن لیگ نے مختلف جماعتوں سے رابطے شروع کر دیے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن نے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کی تبدیلی کے لیے نیشنل پارٹی، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور جے یو آئی ایف سے رابطہ کر لیا ہے۔اس وقت پیپلز پارٹی کی شیری رحمان سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر ہیں۔قبل ازیں پی پی رہنما اورسابق اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ پیپلز پارٹی نے (ن) لیگ کو وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار پر اپنے تحفظات سے آگاہ کر دیا تھا کہ (ن) لیگ نے امیدوار نہ بدلا تو پیپلز پارٹی اپنا فیصلہ کرے گی۔دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثنااللہ نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے موٴقف بدلا ہے اس کا جواب وہ دے سکتے ہیں، وزارت عظمیٰ کے امیدوار کی نامزدگی مسلم لیگ (ن) کی صوابدید تھی، اعتراض یہ نظر آتا ہے کہ زرداری صاحب کی کچھ مجبوریاں ہیں، اور اگرایسا کر کے وہ کوئی رعایت حاصل کرسکتے ہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔جہاں تک میں سمجھتا ہوں انہیں کچھ نہیں ملے گا۔جب کہ خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے پہلے اتفاق کیا بعد میں زرداری صاحب کے کہنے پر پیچھے ہٹ گئی۔ سابق صدر سے کوئی گلہ نہیں، ان کی پریشانیوں کا اندازہ ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More