سدھارتھ شری واستو
اطالوی ماہرین کی ایک ٹیم نے مصری ممیوں کو حنوط کرنے کا قدیم نسخہ دریافت کر لیا ہے، جبکہ مصری ماہرین نے اہرام مصر سے متصل قدیم چیمبرز میں ایسی لیبارٹریز بھی ڈھونڈ لی ہیں، جہاں شاہی اور غیر شاہی افراد کی لاشیں حنوط کیلئے لائی جاتی تھیں اور یہاں ان کو ایک لمبے مرحلے سے گزار کر صدیوں کیلئے محفوظ کردیا جاتا تھا اور ان لاشوں کو بعد ازاں تابوتوں اور مختلف دھاتوں کے باکسز میں رکھ دیا جاتا تھا۔ مصری چیف آرکیالوجسٹ ضاحی ہواس کا کہنا ہے کہ یہ انکشاف ایک تاریخی کامیابی ہے، جس کی مدد سے قدیم مصری ممیوں کو حنوط کرنے کے طریقہ کار اور اس میں مستعمل اشیا کا کھوج لگایا گیا ہے۔ ادھر اطالوی جریدے لاری پبلیکا نے ایک رپورٹ میں آرکیالوجیکل سروے کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ تازہ تحقیق ماہرین کے ایک گروپ نے مرتب کی ہے، جس کے مطابق اس کیمیائی مادے کی جدید لیبارٹری میں جب جانچ کی گئی تو چند ایسے عام نباتاتی مادوں کا انکشاف ہوا، جو تین ہزار سے چار ہزار سال قبل مصر میں شہزادوں، بادشاہوں، وزرا سمیت رئوسا کی لاشیں حنوط کرنے کیلئے استعمال ہوتی تھیں۔ ان کیمیائی لیبارٹریز کے حوالے سے برطانوی جریدے ڈیلی میل آن لائن نے ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ ایک تازہ تحقیق سے معلعم ہوا ہے کہ مصری اہراموں کے اطراف ہی ایک سے زیادہ ایسی لیبارٹری نما فیکٹریاں موجود تھیں جہاں حنوط کی جانیوالی لاشوں کو لاکر رکھا جاتا تھا اور ان کے اعضا کو مخصوص نباتی مادوں کی مدد سے لیپ کرکے کپڑوں کی خاص کیمیائی مادوں والی پٹیوں میں لپیٹ دیا جاتا تھا اور ان کو ایسے کمروں میں کئی ماہ تک رکھ کر دھوپ اور ہوا یا نمی سے محفوظ رکھ کر خشک کیا جاتا تھا اور اس کے بعد کیمیائی پائوڈرز چھڑک کر ان کو تابوتوں اور دیگر صندوقوں میں رکھ دیا جاتا تھا۔ مصری ممیوں کا جائزہ لینے اور تجربات کرنے والی ٹیموں میں آکسفرڈ یونیورسٹی، یارک ہونیورسٹی اور واروک یونیورسٹی کے سائنسدان شامل تھے، جن کا کہنا ہے کہ یہ بات بڑی حیرت انگیز ہے کہ مصری ممیاں تیار کرنے والے ماہرین چار ہزار برس سے ممیاں حنوط کرنے کا کام بڑی مہارت سے کررہے تھے۔ حالانکہ سابقہ تحقیق میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ فراعین مصر کے دور میں یہ کام شاید ڈھائی ہزار سال سے کیا جاتا تھا، لیکن در حقیقت یہ کام چار ہزار سال سے کیا جارہا تھا۔ اس حنوطی مادے کی تحقیق کے بارے میں اطالوی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے اطالوی شہر ٹیورین میں موجود ایک قدیم مصری ممی کا کیمیائی اور فرانزک تجزیہ کیا تھا، جس کے جسم پر موجود کپڑوں یا قدیم پٹیو ں کا کیمیکل ٹیسٹ کیا گیا تو اس کی بناوٹ میں نباتی مادوں کا علم ہوا۔ ایک اطالوی سائنسدان جو روگز کا دعویٰ ہے کہ یہ ترکیب اور مادے قدیم مصری معاشرے میں لاشوں کو حنوط کرنے کیلئے باقاعدہ اور بڑے پیمانے پر تیار کرکے استعمال کیا جاتا تھا، لیکن عوام الناس کو اس بارے میں کوئی علم نہیں تھا کیونکہ مصری فراعین کی حکومتی لیبارٹریز میں اس قسم کے کاموں کو صیغہ راز میں رکھا جاتا تھا لیکن اس وقت یہ راز کوئی راز نہیں ہے، کئی مصری اور امریکی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ سادے نباتی مادوں اور تیل کی مدد سے اس قسم کی ٹیکنالوجی کا عمل میں لایا جانا اور ہزاروں سال تک انسانی اجسام کو محفوظ کیا جانا حیران کن ہے، جس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ دور جدید کے کیمیکلز کی نسبت اس قدیم زمانے کے سادے مادے کس قدر اہمیت کے حامل تھے۔ اس تازہ تحقیق کے حوالہ سے یونیورسٹی آف یارک کے ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر اسٹیون باکلے کا استدلال ہے کہ وہ اور دیگر سائنسدان دہائیوں سے اس فارمولے کی جانچ میں مصروف تھے کہ ان کو اٹلی میں موجود ایک مصری ممی کے کیمیائی تجزیہ کا موقع ملا، جہاں لیبارٹری میں اس حقیقت کو جانچنے کی کوشش کی گئی اور لاش کے اور اس پر موجود کپڑے کی قدیم پٹیوں اور اس کی ہر ہر تہہ پر موجود کیمیائی مادوں اور لاش کے جز کا مطالعہ باریک بینی سے کیا گیا۔ کیمیائی مادوں کو مختلف جگہوں سے اُتار اُتار کر اس کا کیمیکل فنگر پرنٹس ٹیسٹ کیا گیا، جس کے نتیجہ میں وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ اس مادے میں تل کا تیل یا اسی قبیل کا کوئی اور نامیاتی بیجوں کا تیل ایک اہم عنصر کے بطور موجود تھا۔ بلسان کے پودے کا عرق یا اسی علاقہ میں موجود ایک خاص قسم کی گھاس کا عرق اس میں ملایا جاتا تھا اور صحرائی کیکر کے درختوں سے حاصل کیا جانے والا گوند اس میں ملایا جاتا ہے اور بعد میں اس آمیزے کو ایک اور درخت جو مثل صنوبر ہے کے گوند میں گوندھ دیا جاتا تھا، جس کی وجہ سے یہ آمیزہ ایک ایسے ملیدہ نما ملغوبہ کا روپ دھار لیتا تھا جو جراثیم کش تھا اور کسی بھی لاش پر یا زخم پر اس کو لگایا جاتا تھا، تو یہ مقام سڑنے سے محفوظ ہوجاتا تھا۔ ڈاکٹر اسٹیون باکلے نے ایک انٹرویو میں بتایا ہے کہ انہوں نے کئی برس قبل اس نسخہ کی تلاش شروع کردی تھی اور ان کو یقین تھا کہ وہ اس آمیزے کو ڈھونڈ نکالیں گے، جو اس قسم کا لیپ بنانے اورلاشوں کو حنوط کرنے کے کام آتا ہے۔ ڈاکٹر باکلے کا کہنا ہے کہ انہوں نے ممیوں پر سے موجود تمام کپڑوں کا تجزیہ کیا ہے اور لاشوں پر موجود کیمیائی مواد کو اس مادے سے میچ کیا ہے، جس سے وہ اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ یہ کیمیائی مادے جن کپڑوں پر لیپ کرکے لگائے گئے ہیں، وہ بولٹن، لندن میں مصری کلیکشن میں موجود ہیں اور اٹلی میں موجود ممی پر موجود پٹیاں بھی اسی کپڑے کی بنی ہوئی ہیں، جس کا مطلب یہی ہے کہ چار ہزار سال قبل انہی کیمیائی اور نباتاتی مادوں کا چلن تھا۔ ان سے مصری لاشوں کو حنوط کیا جاتا تھا لیکن یہ چلن عام نہیں تھا۔ ڈاکٹر اسٹیون باکلے کا دعویٰ ہے کہ حنوط کرنے کا ابتدائی کام 2600 قبل مسیح شروع کیا گیا تھا اور یہ وہی موقع تھا کہ جب فراعین مصر کی نگرانی میں اہرام مصر کی تعمیرات کا کام شروع کیا جا چکا تھا۔
٭٭٭٭٭