کراچی ( رپورٹ :عمران خان )منی لانڈرنگ اور بے نامی اکائونٹس ایف آئی کی تاریخ کا سب سے بڑا کیس بن گیا ،اس اسکینڈل پر تحقیقات سابقہ ایگزیکٹ جعلی ڈگری اسکینڈل ،این ایل سی اسکینڈل اور این آئی سی ایل اسکینڈل کے علاوہ ای او بی آئی اسکینڈل کے اربوں روپے کے کیسز سے بھی آگے نکلتی جا رہی ہیں ،جس کے سبب ایک ہی اسکینڈل پر 2 صوبوں اور اسلام آباد کے ایف آئی اے حکام کو تحقیقات میں شامل کرلیا گیا ہے۔ذرائع کے مطابق سابق صدر آصف علی زرداری کے قریبی دوست اور اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید کی گرفتاری کے ساتھ ہی بے نامی اکاؤنٹس کے اس کیس کا دائرہ بھی مزید وسیع کردیا گیا ہے۔ 29جعلی اکاؤنٹس کے علاوہ تحقیقات میں سامنے آنے والے 100سے زائد بے نامی اکاؤنٹس سے اربوں کی منی لانڈرنگ کی تفتیش ایف آئی اے پنجاب کے فیصل آباد اور گجرانوالہ ریجن کے ایڈیشنل ڈائریکٹر کو سونپ دی گئی ہے ۔مزید سنسنی خیز انکشافات اور حقائق جلد سامنے آنے کا امکان ہے،ذرائع کے مطابق 36ارب روپے منی لانڈرنگ کے اس کیس میں 29بے نامی بینک اکاؤنٹس کی چھان بین شروع کی تو کئی اور بے نامی اکاؤنٹس بھی سامنے آنا شروع ہوگئے ،جن سے مزید کئی ارب روپے منتقل کئے گئے ،جس کے بعد جے آئی ٹی کے سربراہ ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے سائوتھ نجف قلی مرزا نے ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے بشیر میمن کو رپورٹ ارسال کرنے کے بعد ایف آئی اے کراچی کے تمام سرکلز کو اس تفتیش میں شامل کرلیا ہے ۔ذرائع کے مطابق چونکہ اب تک 36ارب روپے منی لانڈرنگ کیس میں سمٹ بینک میں کھلنے والے صرف ایک بے نامی اکاؤنٹ پر مقدمہ درج کیا گیا تھا اور باقی 28اکاؤنٹس پر مقدمات درج کرنے کے بجائے انہیں انکوائری اسٹیج پر رکھا گیا ،تاکہ ایک ایک اکاؤنٹ پر علیحدہ علیحدہ مقدمات درج کئے جائیں ۔اس کے لئے ایف آئی اے کراچی کے 4سرکلز کے 10تفتیشی افسران کو ذمے داریاں سونپی گئی ہیں ،جن میں ایف آئی اے اینٹی کرپشن اینڈ کرائم سرکل کے 2 تفتیشی افسران جن میں منصور مومن اور شفیع آرائیں ،ایف آئی اے کمر شل بینکنگ سرکل سے ظہور باچکانی اور غلام فرید ،ایف آئی اے اسٹیٹ بینک سرکل سے محمد علی ابڑو ،محمد اقبال اور سراج پہنور ،حبیب الرحمن آرائیں کے علاوہ ایف آئی اے کارپوریٹ کرائم سرکل سے گل شیر مغیری اور عدنان دلاور کو ان تحقیقات میں شامل کرکے انہیں دو دو اورتین تین بینک اکاؤنٹس کی انکوائریاں دی گئیں ہیں ،تاکہ ایک ہی وقت میں جلد از جلد تمام بے نامی اکاؤنٹس پر انکوائریاں مکمل کرنے کے بعد انہیں مقدمات میں تبدیل کرنے کی اسٹیج پر پہنچایا جاسکے ،اس ضمن میں’’ امت‘‘ کو 36ارب روپے منی لانڈرنگ کیس میں درج ہونے والے پہلے مقدمہ الزام نمبر 04/2018کے تفتیشی افسر محمد علی ابڑو نے بتایا کہ منی لانڈرنگ اور بے نامی اکاؤنٹس کیس میں اہم پیش رفت ہونے کے بعد اس کیس کو 2 حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے ،انور مجید اور زرداری کے حوالے سے سامنے آنے والے اسکینڈل کے 29بے نامی اکاؤنٹس کی تحقیقات جے آئی ٹی کے ماتحت ایف آئی اے کراچی کے تمام سرکلز میں موجود تفتیشی افسران کر رہے ہیں تاہم اس اسکینڈل کے علاوہ جو بے نامی اکاؤنٹس سامنے آنے لگے ہیں ان کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے اب تک 15ایسے اکاؤنٹس سامنے آچکے ہیں جن کی رپورٹ جے آئی ٹی کے ذریعے سپریم کورٹ کو دی جاچکی ہے اس لئے فیصلہ کیا گیا ہے کہ ان 29اکاؤنٹس کے علاوہ جو بھی بے نامی اکاؤنٹس سامنے آرہے ہیں ان کی تحقیقات ایف آئی اے پنجاب کو منتقل کردی جائے ۔ذرائع کے بقول اس مقصد کے لئے جے آئی ٹی کے سربراہ نے ڈی جی کو رپورٹ پیش کرکے ان کی ہدایات پر ایڈیشنل ڈائریکٹر فیصل آباد ریجن اور ایڈیشنل ڈائریکٹر گجرانوالہ ریجن کو کراچی طلب کیا جہاں ان افسران نے کراچی کے تمام سرکلز کے ایڈیشنل ڈائریکٹرز اور ڈپٹی ڈائریکٹرز کے ساتھ جے آئی ٹی کے سربراہ نجف مرزا کی سربراہی میں ہونے والی میٹنگ میں شرکت کی جس میں ایف آئی اے پنجاب کے افسران کو بھی بے نامی اکاؤنٹس کی تفتیش کے لئے جے آئی ٹی میں شامل کرلیا گیا ۔تفتیشی افسر سے جب سوال کیا گیا کہ مقدمہ میں نامزد 32ملزمان میں سے اب تک 4ملزمان گرفتار کئے جاچکے ہیں جبکہ دیگر کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری ہوچکے ہیں اس لئے آیا کہ اب انور مجید اور ا ن کے بیٹے کی گرفتاری کے بعد دیگر ملزمان بشمول سابق صدر اور ان کی ہمشیرہ کی گرفتاری کے لئے ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں اوریہ کے ان کی گرفتاری اگر متوقع یا ممکن ہے تو کب تک ممکن ہوسکتی ہے؟ اس پر محمد علی ابڑو کا کہنا تھا کہ اس بات کا فیصلہ جے آئی ٹی کے سربراہ کو کرنا ہے کیونکہ مقدمے اور انکوائریوں کی تفتیش اور تحقیقات میں نہ صرف جے آئی ٹی شامل ہے بلکہ انہیں کی ہدایات پر معاملات کو آگے بڑھایا جا رہا ہے،ایف آئی اے کے ایک سینئر افسر نے امت کو نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ اس وقت پورے ایف آئی اے کراچی کے سرکلز میں صرف منی لانڈرنگ اسکینڈل کی تحقیقات پر ہی کام ہورہا ہے اور دیگر تمام انکوائریوں اور مقدمات کی تحقیقات اس وقت پس پشت ڈال دی گئی ہیں جن افسران کو منی لانڈرنگ اسکینڈل پر تحقیقات کی ذمے داریاں دی گئی ہیں یہ تمام 10تفتیشی افسر ایف آئی اے کراچی کے فنانشل کرائمز کے ماہر افسر سمجھے جاتے ہیں اور ان کے پا س پہلے سے بھی مختلف وفاقی اداروں کسٹم ،ایف بی آر ،کے پی ٹی ،این ایس سی ،یوٹیلٹی اسٹور کارپوریشن ،ای او بی آئی ،پی آئی اے ،سول ایوی ایشن سمیت دیگر اداروں اور ان کے افسران کے حوالے سے کرپشن اور خرد برد کی انکوائریاں چل رہی تھیں تاہم اس وقت پہلی ترجیح پر منی لانڈرنگ کی تحقیقات کو حتمی شکل دینے کے لئے کام کیا جا رہا ہے ۔