کراچی (رپورٹ: ارشاد کھوکھر) پیپلزپارٹی کی قیادت نے صادق سنجرانی فارمولے کے تحت صدر مملکت کے منصب پر اپنا امیدوار کامیاب کرانے کیلئے سرگرمیاں شروع کر دیں ۔وزیراعظم کے چناؤ میں ن لیگ کو دھوکہ دینے والے سابق صدر آصف علی زرداری صدارتی انتخاب کی نمبر گیم سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ اس لئے انہوں نے شہباز شریف کو قومی اسمبلی میں مشترکہ قائد حزب اختلاف بنانے کا دانہ پھینکتے ہوئے صدارت کیلئے مشترکہ امیدوار کے طور پر اعتزاز احسن کا نام پیش کر دیا ہے۔اس مرتبہ صدارتی الیکشن جلد ہونے کی وجہ سے 706 کے بجائے صرف 693 ووٹ گنے جائیں گے۔ کیونکہ قومی اسمبلی کی 11 نشستوں سمیت 2 درجن سے زائد صوبائی نشستوں پر ضمنی انتخابات ہونے ہیں۔اس صورت میں بلوچستان کے اراکین صوبائی اسمبلی زیادہ اہمیت اختیار کر گئے ہیں، جن پر تحریک انصاف کا بھی انحصار ہے۔واضح رہے کہ صدارتی انتخابات کیلئے پیپلزپارٹی کے پاس 114 ووٹ ہیں جبکہ نواز لیگ کے پاس 146، ایم ایم اے کے پاس 38 جبکہ تحریک انصاف کے پاس صرف اپنے تقریباً 252 ووٹ ہیں۔ پی پی نے اس حوالے سے نواز لیگ کے ساتھ حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں سے بھی رابطے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس ضمن میں باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ 4 ستمبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات نمبر گیم کے حوالے سے بڑی اہمیت اختیار کرگئے ہیں۔ صدارتی انتخابات کیلئے الیکٹرول کالج ایک ہزار 174 اراکین پر مشتمل ہوتا ہے، جن میں 728 چاروں صوبائی اسمبلی کے اراکین، 342 قومی اور 104 سینیٹ کے اراکین شامل ہوتے ہیں۔ تاہم ان کے ووٹ 706 شمار کیے جاتے ہیں، جن میں سے قومی اسمبلی اور سینیٹ اور بلوچستان اسمبلی کے ہر رکن کا ایک ایک ووٹ شمار کیا جاتا ہے۔ بلوچستان اسمبلی کے اراکین کی تعداد 65 ہونے کے باعث باقی چاروں صوبائی اسمبلی کے اراکین کے بھی اسی تناسب سے 65، 65 ہی شمار ہوتے ہیں۔ اس طرح صدارتی انتخابات میں چاروں صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کے 260 ووٹ شمار ہوتے ہیں۔ تاہم اس مرتبہ عام انتخابات کے تقریباً 40 دن کے بعد صدارتی انتخابات ہو رہے ہیں۔ اس لیے بعض ایسے اراکین کی اہمیت بھی بڑھ گئی ہے، جن کے انتخابات کے نتائج الیکشن ٹربیونلز اور عدالتی احکامات پر نتائج رکے ہوئے ہیں۔ اور 4 ستمبر تک ان میں سے کتنے ووٹ کاسٹ کرنے کے اہل ہوسکیں۔ واضح رہے کہ ایک سے زائد نشستوں پر کامیاب ہونے والے قومی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان کی جو نشستیں خالی ہوتی ہیں۔ ان پر 4 ستمبر سے قبل ضمنی انتخابات ممکن نہیں ہیں۔ اس لیے جس کے باعث اس مرتبہ 706 کے بجائے 693 ووٹ شمار ہوں گے کیونکہ قومی اسمبلی کی 11 نشستیں خالی ہیں۔ پی ٹی آئی کے سینیٹر چوہدری سرور گورنر پنجاب بننے جا رہے ہیں، اگر سینیٹ انتخابات سے قبل وہ گورنر پنجاب بنے تو انہیں سینیٹر شپ سے مستعفی ہونا پڑے گا۔ جبکہ اسحاق ڈار کی عدالتی احکامات پر سینیٹر شپ معطل ہے۔ جس کے باعث سینیٹ کے ووٹ 104، 102 اور قومی اسمبلی کے ووٹ 342 کے بجائے 331 ہوجائیں گے۔ سینیٹ میں اپوزیشن جماعتوں کے ووٹ 68 اور حکومتی اتحاد کے ووٹ 34 ہوجائیں گے۔ اس طرح قومی اسمبلی اور سینیٹ کو ملا کر حکومتی اتحاد کے ووٹ 211 اور تمام اپوزیشن جماعتوں کے ووٹ 222 ہو رہے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ منی لانڈرنگ کیس سمیت مختلف حوالوں سے دباوٴ کا شکار پی پی کی اعلیٰ قیادت نے صدارتی انتخابات کی نمبر گیم کو بھانپتے ہوئے اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کیلئے سرگرمیاں تیز کردی ہیں اور پی پی کی قیادت نے دیگر جماعتوں سے مشاورت کیے بغیر پارٹی کے سینئر رہنما بیرسٹر اعتزاز احسن کے صدارتی امیدوار کا اعلان کر دیا ہے۔ اس حوالے سے دیگر جماعتوں سے رابطے کرنے کیلئے خورشید شاہ کی سربراہی میں ایک کمیٹی بھی بنادی گئی، جس میں رضا ربانی، شیری رحمان، قمر زمان کائرہ، نوید قمر اور چوہدری منظور شامل ہیں ۔ مسلم لیگ ن کے سینیٹ، قومی اسمبلی، پنجاب ، کے پی کے اور بلوچستان اسمبلی کے جو اراکین ہیں۔ اس حساب سے نواز لیگ کے صدارتی انتخابات کیلئے تقریباً 146 ووٹ بنتے ہیں۔ وزیراعظم کے انتخاب میں نواز لیگ کا ساتھ نہ دینے والی پی پی نے اب نواز لیگ سے بھی رابطے شروع کردیئے کیونکہ اس کے بغیر پی پی کی سرگرمیاں بے سود ہیں۔ذرائع کے مطابق پی پی نے اس ضمن میں قدم آگے بڑھاتے ہوئے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، خورشید شاہ اور راجہ پرویز اشرف کے دستخط کے ساتھ اسپیکر قومی اسمبلی کو خط جمع کروایا ہے،جس میں کہا گیا ہے کہ اپوزیشن کی بڑی جماعت کی حیثیت میں قائدِ حزب اختلاف کے عہدے پر ن لیگ کا حق ہے، پیپلز پارٹی قائدِ حزب اختلاف کی نامزدگی پر شہباز شریف کی حمایت کرتی ہے۔ادھر آصف علی زرداری نے ایک بیان میں کہا کہ وزیراعظم کے انتخاب میں پیپلز پارٹی نے اپنی حکمت عملی اختیار کی،لیکن ہم شہباز شریف کو اپوزیشن لیڈر تسلیم کر تے ہیں ۔ میرے نزدیک اعتزاز احسن جیسا قابل شخص ہی ملک کا صدر ہونا چاہئے ،ان سے بہتر امیدوار کسی اور جماعت کے پاس نہیں ہے ہم اعتزاز احسن کے ووٹ کے لئے دوسری جماعتوں سے بھی بات کریں گے ۔ذرائع کے مطابق خورشید شاہ کی سربراہی میں پیپلز پارٹی کے وفد نے ایاز صادق سے ملاقات کر لی ہے۔ پیپلزپارٹی کی قیادت نے اس حوالے سے جو حکمت عملی تیار کی ہے۔ اس سے تحریک انصاف کی نمبر گیم پوری نہ ہونے کی صورت میں تحریک انصاف کے ساتھ مل جانے کا بھی آپشن رکھا ہے اور یہ آپشن بھی پی پی کے پاس ہے کہ نواز لیگ وغیرہ اگر اعتزاز احسن کے بجائے سینیٹر رضا ربانی کے نام کو اہمیت دی تو پھر پی پی اس پر بھی غور کرسکتی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ تحریک انصاف صدارتی انتخابات کا سب سے زیادہ انحصار بلوچستان اسمبلی کے اراکین پر کر رہے ہیں جن کی اس وقت تعداد 65 کے بجائے 61 ہے کیونکہ بلوچستان اسمبلی کے 2 حلقوں کے نتائج رکے ہوئے ہیں۔ ایک پر انتخاب ملتوی ہوگیا تھا اور خواتین کی ایک مخصوص نشست کیلئے فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔ اس طرح بلوچستان کے 65 ووٹ شمار ہوں گے۔ اس لیے بلوچستان کے ہر رکن کا صدارتی انتخاب ایک سے بھی زیادہ یعنی 1.066 ووٹ شمار ہوسکتا ہے۔ اپوزیشن میں شامل اے این پی بلوچستان کے اندر حکومتی حصہ ہے۔ ان کے اراکین کی تعداد 4 ہے۔ اس طرح وزیراعظم کے لیے عمران خان کو ووٹ دینے والی بی این پی مینگل بلوچستان میں اپوزیشن بنچوں پر ہیں۔ ان کے اراکین کی تعداد 10 ہے اور قومی اسمبلی میں ان کے اراکین کی 4 ہے۔ اس طرح صدارتی انتخابات کیلئے بی این پی مینگل کے پاس تقریباً 16 ووٹ ہیں کیونکہ ان کا ایک سینیٹر بھی ہے۔ بلوچستان اسمبلی میں بلوچستان عوامی پارٹی کے جام کمال 39 ووٹ لیکر وزیراعلیٰ منتخب ہوئے ہیں اور ان کے مخالف امیدوار کو 22 ووٹ ملے ہیں۔ اس حساب سے بلوچستان کے 65 صدارتی ووٹوں میں حکومتی جماعت تقریباً 41.57اور اپوزیشن کے 23.45 ووٹ بنتے ہیں۔ تاہم جام کمال کو جو 39 ووٹ ملے ہیں۔ ان میں اے این پی کے 4 ووٹ بھی شامل ہیں، جبکہ بی این پی عوامی کے 2 ووٹ بھی اس میں شامل ہیں۔ اس طرح سندھ میں 2 نشستیں خالی ہیں۔ باقی 166 میں سے پیپلزپارٹی کے97 اراکین ہیں اس لئے سندھ میں صدارتی انتخاب کے لئے فی ووٹ کی شرح 21552 بنی ہے، جس کے حساب سے پی پی کے 38 ووٹ بنے ہیں اور اس صورتحال میں سندھ اسمبلی میں پی ٹی ایل اور ایم ایم اے کے 4 اراکین کی اہمیت بڑھ گئی ہے جبکہ سندھ اسمبلی میں پی ٹی آئی متحدہ اور جی ڈی اے اراکین کی تعداد 65ہے جس کے صدارتی انتخابات کے لئے ملا کر بھی 25.47ووٹ بنے ہیں اس حوالے سے پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی اور ان کی اتحادیوں 186ہونے کے بنیاد پر فی ووٹ 5.508 شرح سے پی ٹی آئی کے صدارتی ووٹ تقریباً 33.76 اور نوازلیگ پی پی اور آزاد اراکین کو ملا کر صداتی ووٹ 31.22بنتے ہیں پنجاب اسمبلی کی 7نشستیں خالی ہوئی ہیں ۔2 ، 3میں پہلے انتخابات ملتوی ہوگئے تھے اور 3کے نتائج آئے ہوئے ہیں کے پی کے میں2 حلقوں میں انتخابات ملتوی ہوگئے تھے ۔ایک کے نتائج رکے ہوئے ہیں اور قومی کے ساتھ صوبائی اسمبلی کے حلقوں سے کامیاب ہونے کے باعث 7 نشستیں خالی ہیں ۔کے پی کے میں تحریک انصاف کے اراکین کی تعداد 79 ہے مسلم لیگ ق بھی ایک رکن جبکہ ایک آزاد رکن کی بھی حمایت حاصل ہے اس لئے کے پی کے میں 124میں سے 117 اراکین کی حساب سے فی صدارتی ووٹ کی شرح 1.8 ہونے کے باعث کے پی کے صدارتی ووٹ 45اور اپوزیشین جماعتوں کے 20بنتے ہیں اس طرح اے این پی ، بی این پی کے تحریک انصاف کے دیگر اتحادیوں کے سا تھ یہ مطالبہ 348.55اور نواز لیگ، پی پی اور ایم ایم اور دیگر جماعتوں کے صدارتی 344.52 بن رہے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی کی خواہش ہے کہ سینیٹ انتخابات میں جس طرح نواز لیگ کا کھیل خراب کیا گیا، اس طرح صدارتی انتخابات میں پی ٹی آئی کو روکا جائے۔ دیگر ذرائع کا کہنا ہے کہ اس میں چمک بھی کام دکھا سکتی ہے ۔ کیونکہ صدارتی انتخابات کی حوالے سے خفیہ رائے شماری ہوتی ہے تاہم اس حوالے سے جلد بات واضح ہوجائے گی کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ۔ پیپلزپارٹی صدارتی انتخابات میں اپنا امیدوار کامیاب کروانے میں سنجیدہ ہے یا محض بارگیننگ کرنا چاہتی ہے اور کسی ڈیل کے تحت حکومتی امیدوار کے لئے راہ ہموار کررہی ہے، کیونکہ اگر صدارتی انتخابات میں 3امیدوارسامنے آئے تو حکومتی امیدوار کے لئے آسانی پیدا ہوگی واضح رہے صدارتی انتخابات میں 50 فیصد سے زائد ووٹ حاصل کرنا ضروری ہوتی ہیں پہلے اگر دو سے زائد امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوا اور کوئی بھی امیدوار 50فیصد سے زائد ووٹ حاصل نہیں کرسکتا تو بھی تو پھر پہلے اور دوسری نمبر آنے والے امیدواروں کے درمیان بھی مقابلہ ہوگا۔ جن میں سے جو زیادہ ووٹ حاصل کرے گا وہ ہی کامیاب ہوگا ۔