سرفروش

0

قسط نمبر92
عباس ثاقب
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے نوجوانی کے امنگوں بھرے دور میں اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ صرف اس لئے کہ وطن عزیز پاکستان کو دشمنوں  سے محفوظ رکھا جا سکے۔ جمال صاحب کراچی کے قدیم رہائشی ہیں اور ان دنوں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں بصد اصرار اس بات پر آمادہ ہوئے کہ اپنی زندگی کے تہلکہ خیز گوشوں سے پردہ اٹھائیں۔ ان کا اصل نام کچھ اور ہے۔ بعض نا گزیر اسباب کی بنا پر انہیں ’’جمال‘‘ کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ اس کہانی کو ڈرامائی شکل دینے کیلئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔ کیونکہ یہ حقیقی ایڈوینچر کسی سنسنی خیز ناول سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جمال صاحب کی کہانی ان لوگوں کیلئے دعوتِ فکر ہے، جنہیں یہ ملک بغیر کسی جد و جہد اور محنت کے ملا اور انہوں نے اس کی قدر کرنے کے بجائے اسی سے شکایات شروع کر دیں۔ امید ہے کہ قسط وار پیش کی جانے والی یہ کہانی ’’امت‘‘ کے خوش نظر قارئین کی پذیرائی حاصل کرے گی۔ (ادارہ)
افتخار صاحب کی بریفنگ سن کر میں نے دریافت کیا کہ ’’اگر آپ اب تک کی کوششوں کے بارے میں بتاسکیں تو شاید مجھے اپنا لائحہ عمل طے کرنے میں آسانی ہوجائے۔‘‘
افتخار صاحب نے سر ہلا کر میری رائے کو سراہا ’’ہمارا پہلا ساتھی براہ راست  آئی این ایس وکرانت پر پہنچ گیا تھا۔ ہندوستانی حکومت نے بنیوں والی بچت کے چکر میں وکرانت کی صفائی ستھرائی اور رنگ روغن وغیرہ جیسے غیر تکنیکی کام وکرانت کے اپنے ملک پہنچنے پر کرانے کا فیصلہ کیا تھا۔ ہمیں اطلاع ملی تو اپنا بندہ ایک ٹھیکے دار کے بطور پینٹر بھرتی کرادیا۔ وکرانت پر بھیجے جانے والے ہر سویلین کے بیک گراؤنڈ کی چھان بین کی گئی تھی لیکن ہم نے پہلے ہی اس کا مناسب بندوبست کرلیا تھا۔ ہمارے اس شہید ساتھی کو،جس کا نام احمد فرض کرلیں، روغن کرنے کی اپنی ذمہ داری کے دوران ایک خاص کیمرا چھپا کر ساتھ لے جانا تھا۔ یہ کیمرا اس قدر چھوٹا تھا کہ ایک بڑے سے برش کے چھوڑے حصے کو کھوکھلا کرکے اس میں چھپا دیا گیا تھا۔‘‘
یہ سن کر میں چونکا۔ انہوں نے میری حیرانی نظر انداز کرتے ہوئے کہا ’’احمد کو ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ وہ روزانہ چھپ چھپا کر اس جدید ترین کیمرے کے ذریعے وکرانت کے زیادہ سے زیادہ حصوں کی تصویریں کھینچ کرلایا کرے۔ تاہم ہمیں اندازہ تھا کہ ابتدائی دنوں میں مزدوروں کے اوزاروں کی بھی باریک بینی سے جانچ پڑتال کی جائے گی، لہٰذا ابتدائی چار پانچ دن وہ اس کیمرے والے برش کے بجائے صرف سادہ برش ساتھ لے جاتا رہا۔ بالآخر جب گارڈز احمد سمیت روزانہ جہاز پر آنے والے مزدوروں سے مانوس ہوگئے اور ان کی طرف سے تلاشی رسمی حد تک رہ گئی تو احمد، اللہ کا نام لے کر وہ برش ساتھ لے گیا۔ رات کو وہ ہمارے پاس پہنچا تو اس کے کیمرے میں وکرانت کے مختلف حصوں کی ڈھیروں تصویریں موجود تھیں۔ دوسرے روز بھی وہ بہت سی تصویریں کھینچ کر لانے میں کامیاب رہا۔‘‘
اتنا کہہ کر وہ کسی گہری سوچ میں گم ہوگئے۔ پھر انہوں نے کہا ’’وہ تصویریں ڈیولپ کرکے پاکستان سے بلوائے گئے خصوصی ماہر کو دکھائی گئیں اور اس کے مشورے کی روشنی میں احمد کو وکرانت کے کچھ حصوں کی تصویریں بناکر لانے کی ہدایت کی گئی۔ احمد نے وہ مشن بھی کامیابی سے مکمل کیا۔ ہمار ے  مہمان ماہر نے ان تصویروں کو دیکھ کر کافی اطمینان کا مظاہرہ کیا اور احمد سے چند اور حصوں کی تصویرکشی کی فرمائش کی۔‘‘
افتخار صاحب ایک بار پھر کچھ لمحوں کے لیے خاموش ہوگئے۔ ان کی نظریں سنیما اسکرین کی طرف دوبارہ اٹھ گئیں جہاں انار کلی ایک مجسمے کی شکل میں کھڑی تھی اور شہزادہ سلیم تیر چلا کر اس کی نقاب کشائی کی تیاری کررہا تھا۔ تاہم اس وقت ان کی توجہ اس سنسنی خیز منظر پر مرکوز تھی اور نہ ہی مجھے ہوش تھا۔ انہوں نے بات آگے بڑھائی ’’اگلے روز احمد ہماری ہدایت کے مطابق چھپ  وکرانت کے ان حساس ترین گوشوں کی تصویریں کھینچ رہا تھا کہ گارڈزکی نظروں میں آگیا۔ وہ وہاں اپنی موجودگی کا کوئی بھی جواز پیش نہیں کرسکتا تھا اور کیمرے کے ساتھ گرفتار ہونے پر تو کچھ بھی پوشیدہ نہیں رہ سکتا تھا۔  پکڑے جانے کے نتیجے میں اپنے وطن کے لیے پیدا ہونے والی مشکلات کا بھی اسے بخوبی اندازہ تھا۔ چنانچہ مسلح گارڈز کے للکارنے پر خود کو ان کے حوالے کرنے کے بجائے وہ بھاگ نکلا۔ گارڈز نے اس پر گولیاں چلائیں لیکن اسے نشانہ بنانے میں ناکام رہے۔ احمد کسی نہ کسی طرح عرشے پر پہنچ گیا اور خاصی بلندی سے سمندر میں کود گیا۔‘‘
نیم تاریکی کے باوجود میں افتخار صاحب کے چہرے پر موجود تناؤ دیکھ سکتا تھا۔ انہوں نے دوبارہ بات شروع کی تو ان کے لہجے میں رنج نمایاں تھا ’’احمد نے سمندر میں غوطہ لگایا، لیکن بالآخر اسے سطح پر آنا پڑا جہاں درجن بھر گارڈز کی رائفلیں اسے نشانہ بنانے کے لیے تیار تھیں۔ چند لمحوں میں کئی گولیاں اس کے جسم میں اترگئیں اور اس نے اپنی جان وطن پر قربان کردی۔ لیکن اس سے پہلے وہ اپنے پاس موجود خفیہ کیمرا تلف کرنے میں کامیاب ہوچکا تھا،جوکبھی دشمنوں کے ہاتھ نہ لگ سکا۔‘‘
’’اللہ رب العزت ان پر خصوصی رحمتیں فراواں کرے۔‘‘ میں نے خلوص ِ دل سے دعا کی جس پر افتخار صاحب نے آمین کہا۔ فلم اتار چڑھائو کے ساتھ آگے بڑھ رہی تھی۔ لیکن مجھے اس معاملے کی بقیہ تفصیلات جاننے کی بے چینی تھی، البتہ میں نے افتخار صاحب کے خود بولنے کا انتظار کیا ’’ہم جانتے تھے کہ اس واقعے نے ہندوستانی خفیہ اداروں میں ہنگامہ برپا کردیا ہوگا اور اب وکرانت کی طرف جانے کا مطلب بھی خودکشی ہوگا۔ لہٰذا ہم نے اپنے اعلیٰ حکام کے مشورے پر اپنی حکمتِ عملی تبدیل کی اور وکرانت سے  متعلقہ اہم افراد سے براہ راست یا بالواسطہ معلومات حاصل کرنے کی جستجو شروع کی گئی۔ اس حوالے سے کوئی عملی کارروائی کرنے سے پہلے ایک طویل تحقیقی عمل تکمیل کو پہنچایا گیا اور پھر اہداف کا تعین کرکے اپنے سب سے ماہر اور مستعد ساتھی کو مشن سونپا گیا، جس نے خاصی عمدہ پیش رفت کا مظاہرہ کیا۔ لیکن بدقسمتی سے وہ وکرانت کی تکنیکی دیکھ بھال کے لیے تعینات کی جانے والی بحری انجنیئروں کی ٹیم کے ایک رکن کی زبان کھلوانے کی کوشش کے دوران ایک ہندوستانی خفیہ محکمے کے ہتھے چڑھ گیا۔اس کی زبان کھلوانے کے لیے غیر انسانی تشدد کیا گیا، جس کے نتیجے میں اس کے دماغ کی رگ پھٹ گئی اور وہ غالباً ہمیشہ کے لیے مفلوج ہوگیا۔ اس ناکامی کے بعد ہم نے کم ازکم عارضی طور پر اپنی کوششیں بندکردی تھیں۔ لیکن پھر دلّی سے ہمیں آپ کی حیرت انگیز کارکردگی کے بارے میں بتایا گیا تو سمجھیں، ہماری امنگیں نئے سرے سے جا گ اٹھی ہیں۔ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ اتنے پیچیدہ اور خطرناک مشن میں کامیابی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے  اور تم محاورتاً، بلکہ سچ مچ موت کے منہ میں جانے والے ہو۔ لیکن یوں سمجھ لو کہ تم ہماری آخری امید ہو۔‘‘  (جاری ہے)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More