عمران خان
جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کے مرکزی کردار انور مجید کی اکڑفوں دوران حراست بھی ختم نہیں ہوئی۔ وہ اکثر ایف آئی اے اہکاروں کو ڈانٹ دیتے ہیں اور اپنی چھڑی کا اشارہ کرکے انہیں کمرے سے باہر جانے کو بھی کہتے ہیں۔ ملزم کو پروٹوکول دیتے ہوئے ایئر کنڈیشن اور آرام دہ بستر اور تکیہ فراہم کیا گیا ہے۔ جبکہ ان کیلئے ناشتہ اور کھانا گھر سے لایا جاتا ہے۔
35 ارب روپے منی لانڈرنگ اور جعلی بینک اکائونٹس کیس کے مرکزی ملزمان اومنی گروپ کے انور مجید اور ان کے بیٹے اے جی مجید کو گرفتاری کے بعد ایف آئی اے کمرشل بینکنگ سرکل میں انسپکٹر سی بی سی سرکل کے کمرے میں رکھا گیا ہے، جہاں ان سے جے آئی ٹی کے اراکین اور انکوائریوں کے تفتیشی افسران کی جانب سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔ زیر حراست انور مجید کیلئے ناشتہ، دوپہر اور رات کا کھانا ان کے گھر سے ہی لایا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ باپ بیٹے کو وی آئی پی پروٹوکول دینے کیلئے مختلف سہولتیں فراہم کی گئی ہیں۔ لاک کے قریب ہی قائم جس ایئر کنڈیشنڈ کمرے میں انہیں رکھا گیا ہے اس میں ان کے لئے بستر اور تکیے بھی گھر سے لاکر کر فراہم کئے گئے ہیں، جبکہ ایف آئی اے کے بعض افسران سخت باز پرس اور تفتیش پر زور دینے کے بجائے ان کی خوشامد میں مصروف ہیں۔ جن میں ایف آئی اے کارپوریٹ کرائم سرکل کے ایک انسپکٹر بھی شامل ہیں۔ موصوف کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ ان کے انور مجید سے پرانے تعلقات ہیں اور وہ یہی پرانے تعلقات کے حوالے دے کر اپنی پوزیشن بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور ساتھ ہی انہیں بچنے کے طریقے بھی بتائے جا رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق انور مجید اور ان کے بیٹے سے تفتیش جس سرکل میں کی جا رہی ہے اس کے اطراف میں سیکورٹی سخت کردی گئی ہے چونکہ یہ سرکل ویسے بھی دو سرکاری دفاتر کی عمارتوں کے عقب میں واقع ہونے کے باعث عمومی طور پر پاکستان سیکریٹریٹ کی مرکزی سڑک پر آنے جانے والوں کو دکھائی نہیں دیتا۔ اس کے باجود اس کی جانب جانے والے دونوں راستوں پر ایف سی اہلکار تعینات ہیں۔ جبکہ گزشتہ چار روز سے اس سرکل میں غیر متعلقہ افراد کا داخلہ ممنوع ہے اور ایف آئی اے اہلکار صرف انکوائریوں اور مقدمات میں طلب کئے گئے افراد کو ہی اندر جانے کی اجازت دے رہے ہیں۔ اس سرکل میں کائونٹر کے ساتھ ہی موبائل فون اور دیگر سامان رکھنے کیلئے لکڑی کے ریک بنا کر لگائے گئے ہیں تاکہ سرکل میں داخل ہونے والے افراد کے موبائل اور سامان کو ان لکڑی کے درازوں پر رکھ کر بند کرکے چابی انہیں دی جاسکے۔ واپس جاتے ہوئے یہ افراد اپنا سامان نکال لیں۔ یہ انتظام ایف آئی اے کے کراچی میں موجود باقی کسی بھی سرکل میں نہیں کئے گئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق انور مجید کا رویہ ایف آئی اے اہلکاروں کے ساتھ انتہائی سرد مہری پر مبنی ہے اور وہ اپنی طبیعت کے خلاف ہونے والی کسی بھی بات پر اہلکاروں کو ڈانٹ ڈپٹ کرنے اور سخت الفاظ کہنے سے گریز نہیں کر رہے ہیں اور کئی بار انہوں نے اہلکاروں کو اپنی چھڑی سے مخصوص اشارہ کرکے انگریزی میں انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنے کے بعد کمرے سے باہر جانے کا بھی کہا ہے۔
ذرائع کے بقول اسلام آباد میں سپریم کورٹ سے گرفتار کئے جانے کے بعد انور مجید کو جب جمعرات کے روز کراچی منتقل کیا گیا تو انہیں کراچی ایئر پورٹ سے سیدھا ایف آئی اے کمرشل بینکنگ سرکل میں لایا گیا تھا، جو صدر میں پاکستان سیکریٹریٹ میں واقع ہے۔ یہاں پہلے انہیں لاک اپ میں رکھنے کے بجائے ایڈیشنل ڈائریکٹر سی بی سی سرکل کے کمرے میں بیٹھایا گیا تھا، جہاں انہیں ائیر کنڈیشن اور آرام دے بستر بھی فراہم کئے گئے۔ واضح رہے کہ کمرشل بینکنگ سرکل کے ڈپٹی ڈائریکٹر فیض اللہ کوریجو حج کی سعادت حاصل کرنے کیلئے 12 اگست کو سعودی عرب روانہ ہوچکے ہیں اور ان کی غیر موجودگی میں کارپوریٹ کرائم سرکل کے ایڈیشنل ڈائریکٹر سلام شیخ کو کمرشل بینکنگ سرکل کا اضافی چارج سونپا گیا ہے۔ تاہم بعد ازاں انور مجید اور ان کے بیٹے کو انسپکٹر کے کمرے میں منتقل کردیا گیا۔ ذرائع کے بقول انور مجید کی سخت طبیعت کے سبب ایف آئی اے سی بی سی سرکل میں تعینات ماتحت اہلکار ان سے سہمے ہوئے رہتے ہیں اور بلا ضرورت ان کے کمرے میں کسی کو جانے کی اجازت نہیں ہے۔ صرف سب انسپکٹرز اور انسپکٹرز کے علاوہ جے آئی ٹی کے دیگر افسران ہی ان کے کمرے میں آتے جاتے ہیں، کیونکہ گرفتاری کے بعد جب انہیں سی بی سی سرکل منتقل کیا جا رہا تھا تو اس وقت ایک واقعہ ایسا پیش آیا جس کے باعث ایف آئی اے اہلکار پہلے سے ہی ان سے مرعوب ہوگئے ہیں۔ عینی شاہدین کے مطابق کراچی ائیرپورٹ پر ڈومیسٹک لاونج سے باہر نکلنے سے قبل مقدمے کے تفتیشی افسر اسسٹنٹ ڈائریکٹر علی ابڑونے ملزم عبدالغنی مجید کو ہتھکڑی پہنانے کی کوشش کی جس پر انور مجید نے تفتیشی افسر علی ابڑو کے ہاتھ میں موجود ہتھکڑی پر اپنی چھڑی ماری اور تفتیشی افسر کو مغلظات بکیں اور کہا کہ ہم کرمنل نہیں جو ہتھکڑی پہنیں گے، جس کے بعد تفتیشی افسر نے ہتھکڑی پہنانے کا فیصلہ فورا واپس لے لیا اور دونوں ملزمان کو لاونج سے باہر لے کر گاڑیوں میں ایف آئی اے کمرشل بینکنگ سرکل منتقل کردیا۔
Prev Post