سرفروش

0

عباس ثاقب
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے نوجوانی کے امنگوں بھرے دور میں اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ صرف اس لئے کہ وطن عزیز پاکستان کو دشمنوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ جمال صاحب کراچی کے قدیم رہائشی ہیں اور ان دنوں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں بصد اصرار اس بات پر آمادہ ہوئے کہ اپنی زندگی کے تہلکہ خیز گوشوں سے پردہ اٹھائیں۔ ان کا اصل نام کچھ اور ہے۔ بعض نا گزیر اسباب کی بنا پر انہیں ’’جمال‘‘ کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ اس کہانی کو ڈرامائی شکل دینے کیلئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔ کیونکہ یہ حقیقی ایڈوینچر کسی سنسنی خیز ناول سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جمال صاحب کی کہانی ان لوگوں کیلئے دعوتِ فکر ہے، جنہیں یہ ملک بغیر کسی جد و جہد اور محنت کے ملا اور انہوں نے اس کی قدر کرنے کے بجائے اسی سے شکایات شروع کر دیں۔ امید ہے کہ قسط وار پیش کی جانے والی یہ کہانی ’’امت‘‘ کے خوش نظر قارئین کی پذیرائی حاصل کرے گی۔ (ادارہ)
٭٭٭٭٭
میں کئی لمحوں کے لیے گم صم بیٹھا رہا۔ آپ چاہیں مانیں یا نہ مانیں، مجھے اپنی جان خطرے میں پڑنے کی ذرہ برابر پروا نہیں تھی۔ البتہ مشن کی سنگینی نے مجھے ضرور مرعوب کر دیا تھا۔ خصوصاً اس خیال نے کہ میرے جیسے ناتجربہ کار اور عملاً اناڑی انسان سے اتنی بڑی بڑی توقعات وابستہ کرلی گئی ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر مجھے یہ اندیشہ ہولائے دے رہا تھا کہ میں اور میرے ہی جیسے مزید ساتھی اپنی کوششوں میں ناکام رہے تو خدانخواستہ میرے وطن کی سلامتی کو کوئی ناقابلِ تلافی نقصان نہ پہنچ جائے۔
میں نے اپنی کیفیت پر قابو پاتے ہوئے کہا ’’اب آپ اپنے مشاہدات کی روشنی میں میرے لیے کون سا لائحہ عمل بہتر سمجھتے ہیں؟‘‘۔
میری بات افتخارصاحب نے غور سے سنی اور پھر کہا ’’میری ذاتی رائے میں اب براہ راست وکرانت پر جاکر کوئی کارروائی کرنے کا راستہ باقی نہیں بچا۔ دوسرے والا لائحہ عمل یعنی وکرانت سے کسی بھی حیثیت سے وابستہ اہم لوگوں سے معلومات اگلوانے کی کوشش بھی خطرناک ہے۔ لیکن اسے ناقابلِ عمل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ایسے لوگوں کی فہرست بہت طویل ہے اور ہندوستانی خفیہ اداروں کی طرف سے ان سب کی سرگرمیوں کی چوبیس گھنٹے نگرانی لگ بھگ ناممکن ہے۔ جبکہ ہمیں امید ہے کہ کسی بظاہر معمولی کارندے سے بھی بہت کام کی بات معلوم ہو سکتی ہے۔ میں ان تمام افراد کے بارے میں حتی الامکان زیادہ سے زیادہ معلومات پر مشتمل ایک تفصیلی دستاویز اسلم کے ذریعے آپ کے پاس بھجوادوں گا۔ آپ اس کا بغور مطالعہ کر کے اپنی صوابدید پر اپنے ہدف کے طور پر کسی فرد کا انتخاب کریں اور ہمیں اعتماد میں لے کر اپنے مشن کا آغاز کر دیں‘‘۔
افتخار صاحب کی بات سن کر میں گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ کراچی میں واقع ہندوستانی سفارت خانے میں ویزا کی قطار سے شروع ہونے والے اس معاملے میں مجھے پہلی مرتبہ کسی روایتی سیکرٹ ایجنٹ کے انداز میں ذمہ داریاں نبھانے کا چیلنج درپیش ہے، لہٰذا مجھے اسی انداز میں سوچنے کی ضرورت ہے، اور مجھے ویسے ہی خصوصی آلات کا مطالبہ کرنا چاہیے، جن سے کسی سیکرٹ ایجنٹ کو اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں مدد ملتی ہے۔ چنانچہ میں نے کہا ’’آپ نے شہید ساتھی احمد کے پاس ایک خفیہ منی کیمرے کی موجودگی کا ذکر کیا ہے۔ میں بھی ویسا ہی کیمرا حاصل کرنا چاہوں گا‘‘۔
میری بات سن کر افتخار صاحب نے اثبات میں سر ہلایا ’’مل جائے گا۔ اس کیمرے کی خاص بات یہ ہے کہ اس سے دستاویزات کی فوٹو گرافی بہت عمدگی سے کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ہم آپ کو ایک گن بھی دیں گے۔ یہ آپ کی مرضی پر منحصر ہے کہ اسے ہر وقت اپنے ساتھ رکھنا چاہیں گے یا کسی مناسب موقع پر استعمال کے لیے کسی محفوظ جگہ۔ اگر کچھ اور چاہیے تو ہم وہ بھی فراہم کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے‘‘۔
میں نے کچھ دیر سوچ کر کہا ’’خفیہ پولیس کے انسپکٹر نے مجھے پکڑ کر میری زبان کھلوانے کے لیے تشدد کے جو حربے استعمال کیے تھے، وہ اتنے اذیت ناک تھے کہ مجھے سچ مچ ڈر لگا تھا کہ کہیں میری قوتِ برداشت جواب نہ دے جائے اور میں سچ اگلنے پر مجبور نہ ہوجاؤں، جو مجھے کسی طرح بھی گوارا نہ تھا۔ میں چاہوں گا کہ میرے منہ میں سائنائیڈ والا دانت نصب کروادیا جائے، تاکہ آئندہ ایسی کسی صورتِ حال میں اپنی جان لے کر وطن سے غداری سے یقینی محفوظ رہ سکوں‘‘۔
افتخار محمود صاحب نے بغور باتیں سنتے سنتے اچانک ہلکا سا قہقہہ لگایا۔ ان کا یہ ردِ عمل میرے لیے غیر متوقع تھا۔ میں نے چونک کر ان کے باوقار چہرے کی طرف دیکھا۔ کیا واقعی میں نے کوئی انتہائی احمقانہ بات کر دی ہے؟ میری کیفیت کا ادراک کرتے ہوئے وہ سنجیدہ ہوگئے ’’ناراض نہ ہونا چھوٹے بھائی۔ دراصل یہ فرمائش اتنی فلمی قسم کی ہے کہ مجھے بے ساختہ ہنسی آگئی‘‘۔
میں نے کچھ کہنے کی بجائے سوالیہ انداز سے محض انہیں دیکھنے پر اکتفا کیا۔ انہوں نے سنجیدہ لہجے میں کہا ’’کھوکھلے دانت میں سائنائیڈ زہر کے چٹکلے پر بات کرنے سے پہلے میں وطن سے تمہاری محبت کو سلام پیش کرنا چاہوں گا۔ یہی وہ جذبہ ہے جو ہم جیسے اذکار رفتہ قسم کے لوگوں کو ہمت دیتا ہے کہ ہم سے کئی گنا بڑا اور عسکری و حربی اعتبار سے طاقت ور ہونے کے باوجود دشمن ہمارے وطن کو صفحہ ہستی سے مٹانے یا اپنا غلام بنانے میں کبھی کام یاب نہیں ہوسکتا۔ بلکہ…‘‘۔
ان کے لہجے میں موجود ستائش حقیقی تھی، لیکن مجھے خجالت محسوس ہوئی، لہٰذا میں نے ان کی بات کاٹ دی ’’وہ تو ٹھیک ہے۔ آپ کھوکھلے دانت میں سائنائیڈ کے استعمال کو چٹکلا کیوں کہہ رہے ہیں؟ کیا سیکرٹ ایجنٹس زبان کھولنے سے بچنے کے لیے سائنائیڈ سے خود کشی نہیں کرتے؟‘‘۔
انہوں نے کہا ’’تم بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو۔ انتہائی خطرناک زہر ہونے کی وجہ سے اس مقصد کے لیے سائنائیڈ کا استعمال برس ہا برس سے ہوتا رہا ہے۔ لیکن کھوکھلے دانت میں سائنائیڈ کی موجودگی محض ایک تخلیقی اُپچ ہے۔ کیونکہ پہلی بات تو یہ کہ کھوکھلے دانت میں سائنائیڈ کی موجودگی انتہائی خطرناک ہے اور ایسے کسی بھی سیکرٹ ایجنٹ کا بلا ارادہ موت کے منہ میں جانے کا امکان زیادہ ہوگا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ سائنائیڈ کی مہلک مقدار کے حامل دانت کا سائز بہت بڑا ہوگا، کیونکہ خود کشی کے لیے استعمال ہونے والے سائنائیڈ کی کارگر مقدار کم ازکم مٹر کے دانے جتنی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سائنائیڈ کے کیپسول ہی عموماً استعمال ہوتے رہے ہیں۔ ہمارے شعبے میں کھوکھلے دانت والا حربہ عموماً مائیکرو فلم وغیرہ چھپانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اللہ نہ کرے تمہیں کبھی سائنائیڈ کے کیپسول کی ضرورت پڑے۔ رب کریم نے چاہا تو دشمن تمہارے سائے کو بھی نہیں پہنچ سکے گا۔ ہمارا تعاون ہر وقت تمہیں دستیاب ہے۔ تمہیں دشمن سے بچانے کے لیے ہم کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کریں گے‘‘۔
میں نے اطمینان اور اعتبار کے اظہار کے لیے سر ہلایا۔ انہوں نے بات آگے بڑھائی ’’اور ہاں، کوئی بھی حکمتِ عملی طے کرتے ہوئے مالی مجبوریاں ذہن میں مت لانا۔ جس سطح پر چاہے کھیلو۔ اس کام کے لیے بجٹ کی کوئی قید نہیں!‘‘۔
میں نے ایک بار پھر اثبات میں سر ہلایا اور اگلا سوال کیا ’’اگر میری یہ بات بھی جاسوسی ناولوں والی نہ لگے، تو میں پوچھ سکتا ہوں کہ کیا ہمارے ساتھی آپس میں یا آپ سے رابطے کے لیے کوئی ٹرانسمیٹر وغیرہ استعما ل کرتے ہیں‘‘۔
اس پر انہوں نے سنجیدہ لہجے میں کہا ’’مخصوص حالات میں ہم چھوٹی بڑی فریکوینسی کے ریڈیو ٹرانسمیٹر استعمال کرتے رہتے ہیں۔ لیکن دشمن ملک میں ٹرانسمیٹر کا استعمال خطرناک ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ کسی بھی عام ریڈیو کی طرح ریڈیائی لہروں کے ذریعے پیغام رسانی کرتا ہے، جس کے پیغام اتفاقاً یا خصوصی آلات کے ذریعے سنے جا سکتے ہیں۔ جبکہ آپس میں پیغامات کا تبادلہ کرنے والوں کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی اور اکثر ان کے محل وقوع کا اندازہ لگاکر انہیں دبوچ لیا جاتا ہے۔ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ ناگزیر صورتِ حال میں ہی ٹرانسمیٹر کے استعمال کا خطرہ مول لیا جائے‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More