امت رپورٹ
ایف ٹی سی پر لگنے والی مویشی منڈی میں بکرے اور دنبے بھی فروخت کے لئے لائے گئے ہیں، جن کے لئے منڈی میں الگ سے جگہ مختص کی گئی ہے۔ اس عوامی مویشی منڈی میں جہاں اندرون و بیرون شہر سے بیوپاری اپنے جانوروں کی فروخت کیلئے پہنچے ہیں، وہیں بکروں اور دنبوں کی فروخت کے لئے آئے کئی بیوپاریوں سے بات چیت کے دوران معلوم ہوا کہ وہ محض شوق کی وجہ سے گزشتہ کئی سال سے ہر عید قرباں پر جانور فروخت کرتے آرہے ہیں۔ ایف ٹی سی مویشی منڈی میں 25 ہزار سے ڈیڑھ لاکھ روپے مالیت تک کے بکرے اور دنبے موجود ہیں، جن کی قیمتیں ان کی نسل، خوبصورتی اور وزن کے حساب سے مقرر کی گئی ہیں۔
سروے کے دوران ایف ٹی سی مویشی منڈی میں فروخت کے لئے لائے گئے بکروں کے دام اور ان کی نسلوں کے متعلق جاننا چاہا تو ایک بیوپاری صلاح الدین نے بتایا کہ وہ پہلی بار خیر پور میرس سے 55 بکرے فروخت کیلئے منڈی میں لائے ہیں۔ اس سے قبل وہ قربانی کے بکروں کے ساتھ سیالکوٹ کا رخ کرتے تھے اور گزشتہ 3 سال سیالکوٹ کی مویشی منڈی میں بکرے فروخت کرتے رہے ہیں۔ بکروں کی قیمتوں کے متعلق انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس 40 ہزار سے ایک لاکھ 20 ہزار روپے مالیت کے بکرے موجود ہیں۔ ان میں ہرنی ٹیڈی اور ٹاپرا نسل، کراس کاموری اور گلابی نسل کے بکرے شامل ہیں۔ ڈھائی فٹ کے ہرنی ٹیڈی کے متعلق دریافت کرنے پر انہوں نے بتایا کہ یہ بکرا 15 کلو وزنی ہے اور اس کی قیمت 50 ہزار مقرر کی گئی ہے۔ صلاح الدین کے مطابق وہ ہر سال دیگر نسل کے بکروں کے ساتھ ایک سے دو خوبصورت ٹیڈی بکرے بھی منڈی میں فروخت کے لئے لاتے ہیں۔ ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے بکرے عام شہری تو نہیں خریدتے، کیونکہ یہ بکرے چھوٹے اور کم وزن ہونے کے ساتھ مہنگے بھی ہوتے ہیں۔ تاہم صرف شوقین افراد انہیں ان کی خوبصورتی کی وجہ سے خریدتے ہیں۔ ایک سفید بکرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ یہ گلابی نسل کا بکرا ہے، جس کی قیمت 95 ہزار روپے ہے۔ جبکہ ساتھ ہی موجود ایک دوسرے بکرے کے بارے میں کہا کہ یہ کاموری کراس نسل کا بکرا ہے اور اس کے وہ ایک لاکھ 20 ہزار روپے طلب کر رہے ہیں۔ صلاح الدین سے کاموری اور کاموری کراس نسل کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ عام طور پر مویشی منڈیوں میں جو بکرے کاموری نسل کا بول کر فروخت کئے جاتے ہیں وہ اصل کاموری نہیں ہوتے، بلکہ یہ کراس نسل کے بکرے ہوتے ہیں۔ اصل کاموری نسل کے بکرے بہت مہنگے ہوتے ہیں اور ایک بکرا 10 سے 15 لاکھ روپے میں فروخت ہوتا ہے۔ اس نسل کا ایک بچہ جس کی عمر محض چند دن ہی ہوتی ہے، وہ بھی ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے میں فروخت ہوتا ہے۔ کاموری کی اصل نسل محض چند لوگوں کے پاس ہی موجود ہے اور زیادہ تر میر پور خاص، نواب شاہ اور سانگھڑ میں لوگوں نے پالے ہوئے ہیں۔ صلاح الدین نے بتایا کہ چند سال قبل انہوں نے بھی اس نسل کا ایک بچا خریدا تھا اور اس کی قیمت انہوں نے ایک لاکھ 20 ہزار روپے ادا کی تھی۔ اب اس بکرے کی قیمت لاکھوں روپے ہے، تاہم انہوں نے اسے افزائش نسل کے لئے پالا ہوا ہے۔
منڈی میں موجود بیوپاری شمس اللہ خان سے بات چیت ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ وہ کوئٹہ سے بکرے فروخت کرنے کیلئے کراچی آئے ہیں اور ایف ٹی سی مویشی منڈی میں یہ ان کا پہلا سال ہے۔ شمس اللہ خان 7 دنبے اور 21 بکرے فروخت کیلئے ساتھ لائے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ مویشی منڈی میں فی جانور داخلہ فیس ایک ہزار روپے ادا کی گئی ہے۔ وہ 25 ہزار سے ڈیڑھ لاکھ روپے مالیت کے بکرے اور دنبے فروخت کیلئے لائے تھے، جن میں سے بیشتر بکرے وہ فروخت کر چکے ہیں اور اب بھی ان کے پاس 50 ہزار سے 80 ہزار روپے مالیت کے بکرے اور دنبے موجود ہیں۔ ترک نسل کے ایک دنبے کے متعلق انہوں نے بتایا کہ اس چکتی والے دنبے کے وہ 75 ہزار روپے طلب کر رہے ہیں۔
مویشی منڈی میں مرکزی گزرگاہ کے ایک طرف دنبوں کے درمیان موجود بیوپاری سے بات ہوئی تو انہوں نے اپنا تعارف ڈاکٹر شیر محمد کے نام سے کروایا۔ ڈاکٹر شیر محمد نے بتایا کہ ان کا تعلق کوئٹہ سے ہے، تاہم رہتے وہ کراچی میں ہی ہیں اور سال بھر گاڑیوں کی خرید و فروخت کا کام کرتے ہیں۔ وہ اپنے شوق کی وجہ سے گزشتہ 10 سال سے ہر بقرعید پر شہر کی مختلف مویشی منڈیوں میں دنبے فروخت کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ گزشتہ تین سال سے ایف ٹی سی مویشی منڈی آرہے ہیں اور اس بار وہ ایف ٹی سی کے ساتھ قیوم آباد پر لگی منڈی میں بھی دنبے فروخت کے لئے لائے ہیں۔ جبکہ اس سے قبل وہ سہراب گوٹھ منڈی کا رخ کرتے تھے۔ ڈاکٹر شیر محمد اس بار 83 دنبے لائے ہیں، جن میں ترکی اور افغان نسل کے دنبے شامل ہیں۔ یہ تمام جانور کوئٹہ سے منگوائے گئے ہیں اور 2 گاڑیوں میں لوڈ کر کے کراچی لایا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ فی گاڑی 40 ہزار روپے کرایہ ادا کیا گیا ہے۔ دنبوں کی قیمتوں کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس اس وقت 40 ہزار سے 80 ہزار روپے مالیت کے دنبے موجود ہیں۔ ان کے بقول دنبے دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ان میں چکتی والے اور دم والے دنبے شامل ہیں۔ چکتی والے دنبے ترکی اور افغان نسل کے ہوتے ہیں، جبکہ دم والے دنبے مکران میں پائے جاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کراچی میں بکروں کی نسبت دنبوں کی قربانی کا رجحان بہت کم ہے۔ اس لئے ہر سال بکروں کے مقابلے میں بہت کم دنبے فروخت کے لئے شہر میں لائے جاتے ہیں۔ کراچی میں جو لوگ دنبوں کی قربانی کرتے ہیں، ان میں سے زیادہ تر چکتی والے دنبوں کے بجائے دم والے دنبوں کو ترجیح دیتے ہیں، جبکہ بہت سے لوگ چکتی والے دنبے بھی پسند کرتے ہیں۔ ڈاکٹر شیر محمد نے اپنے سامنے ہی کھڑے ایک چکتی والے دنبے کے متعلق بتایا کہ یہ ترک نسل کا دنبہ ہے اور اس کی قیمت وہ 80 ہزار روپے طلب کر رہے ہیں۔ انہوں نے دعوی کیا کہ اس دو دانت کے دنبے کا وزن 2 من تک ہے۔ ڈاکٹر شیر محمد کے بقول ایف ٹی سی مویشی منڈی میں انہوں نے فی دنبہ داخلہ فیس ایک ہزار روپے کے حساب سے ادا کی ہے، جبکہ دنبے کھڑے کرنے کیلئے 60 ہزار روپے میں جگہ کرائے پر حاصل کی ہے اور 10 ہزار روپے ٹینٹ کا کرایہ دیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک دنبہ دن میں قریباً 30 لیٹر پانی پیتا ہے۔ جبکہ دنبوں کو ایک وقت میں 5 کلو تک چارا دیتے ہیں، جن میں کھلی، سوکھی روٹی اور گندم شامل ہے۔
ایف ٹی سی پر لگی مویشی منڈی کے باہر خوبصورت دنبے کے ساتھ موجود ایک بچے سے بھی ملاقات ہوئی، جس نے اپنا نام انس بتایا۔ انس نے بتایا کہ وہ اپنا دنبہ فروخت کرنے آیا ہے اور گھر کا پلا ہوا ہے۔ ساتویں جماعت کے طالبعلم انس کے مطابق اس کے بھائی نے دو دنبے ایک سال قبل خریدے تھے۔ سال بھر کھلائی پلائی کے بعد انہیں تیار کیا اور اب ان میں سے ایک دنبہ وہ فروخت کے لئے لایا ہے، جس کی قیمت 45 ہزار روپے مقرر کی گئی ہے۔
٭٭٭٭٭