نوازلیگ صدارتی امیدوار کےلئے رضا ربانی کی حمایت کرسکتی ہے

0

امت رپورٹ
پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری نے فیصلہ کیا ہے کہ اعتزاز احسن کو اپوزیشن کی جانب سے متفقہ صدارتی امیدوار نامزد کیا جائے۔ لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اس فیصلے کو تسلیم نہیں کرے گی۔ کیونکہ وہ وزیراعظم کے انتخاب میں پیپلز پارٹی کی جانب سے ووٹ نہ دیئے جانے کا زخم کھا چکی ہے۔ ان لیگی ذرائع کے مطابق پہلے بھی پیپلز پارٹی نے چیئرمین سینٹ کے لیے رضاربانی کو نواز لیگ اور پی پی کے متفقہ امیدوار کے طور پر منظور نہیں کیا تھا اور اپنا ووٹ اسٹیبلشمنٹ کے پلڑے میں ڈال دیا تھا۔ اس لیے دودھ کی جلی نون لیگ اب چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پئے گی۔ اب بھی اگر پیپلز پارٹی رضا ربانی کو صدارتی امیدوار نامزد کرتی ہے تو نون لیگ ان کی غیر مشروط حمایت کرے گی۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے شہباز شریف اپوزیشن کے متفقہ امیدوار تھے، لیکن پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی نے وعدے کی خلاف ورزی کی اور شہبازشریف کو ووٹ نہیں دیا۔ اپوزیشن کی جانب سے الیکشن میں دھاندلی کے حوالے سے وہ احتجاج میں بھی شریک نہیں ہوئے۔ ان اپوزیشن پارٹیوں نے عمران خان کو وزیر اعظم تسلیم کرلیا ہے۔ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان دھاندلی سے وزیر اعظم بنے ہیں تو نون لیگ کے ساتھ سڑکوں اور پارلیمنٹ دونوں جگہ احتجاج کریں۔ ذرائع کے مطابق اعتزاز احسن اپوزیشن کے متفقہ امیدوار نہیں۔ اگر پیپلز پارٹی چاہتی کہ کوئی متفقہ صدارتی امید وار آئے تو وہ امیدوار کے اعلان سے پہلے مسلم لیگ (ن) اور دیگر اپوزیشن جماعتوںسے مشاورت کرتی۔ صدارتی امیدوار کا نام اور اعلان کا طریقہ اتحاد و اتفاق کے منافی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہباز شریف نے پیپلز پارٹی کے وفد سے ملاقات نہیں کی، بلکہ ان کی جگہ سردار ایاز صادق سے خورشید شاہ اور شیری رحمن نے ملاقات کی۔ جس میں پیپلز پارٹی نے اعتزاز احسن کو صدارت کے عہدے کے لئے ووٹ دینے کے بدلے سینیٹ میں نون لیگ کے ساتھ تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ اس ملاقات کے بعد ذرائع کے مطابق سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے مشاورت کے لئے وقت مانگ لیا ہے۔ ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی کہ نواز لیگ کی جانب سے پیپلز پارٹی کو یہ تجویز بھیجی جا رہی ہے کہ وہ اسی صورت میں پیپلز پارٹی کے صدارتی امیدوار کی حمایت کرے گی جب پیپلز پارٹی چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی جگہ اپوزیشن کا کوئی متفقہ چیئرمین لانے میں نون لیگ کا ساتھ دے۔ واضح رہے کہ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کی نشست اب پیپلز پارٹی کے ہاتھ سے نکل کر نون لیگ کے ہاتھ میں جارہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے پاس صرف سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین کا عہدہ رہ جائے گا۔ سینیٹ میں تحریک انصاف اور حکومتی اتحاد کے 31 سینیٹرز ہیں اور اپوزیشن کے سینیٹرز کی تعداد 63 ہے۔ اگر پیپلز پارٹی کو یہ شرط منظور ہے تو اس کی جانب سے سینیٹ سیکریٹریٹ میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی قراردا جمع کرائی جائے۔ اس کے بعد ہی نون لیگ کے صدر شہباز شریف پی پی کے کسی وفد سے ملاقات کریں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی اس تجویز پر جواب دینے سے قبل شہباز شریف عید کے دن نواز شریف سے ملاقات میں اس تجویز پر بات کریں گے۔ ممکن ہے کہ میاں نواز شریف پیپلز پارٹی کو صدارتی امیدوار کے لیے رضا ربانی کا نام دینے کی تجویز دیں اور میر حاصل بزنجو کا نام ایک بار پھر چیئرمین سینیٹ کے لیے تجویز کردیں۔ ایک سوال پر ذرائع کا کہنا تھا کہ صدارتی امیدوار کے سلسلے میں پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن) کی ساتھ ڈبل گیم کھیلنا شروع کر دیا ہے۔ پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کو بطور امیدوار وزیر اعظم اور حمزہ شہباز کو بطور وزیر اعلیٰ ووٹ نہیں دیا، لیکن پیپلز پارٹی نے نون لیگ کے صدر شہباز شریف کو اپوزیشن لیڈربنانے کیلئے اسپیکر قومی اسمبلی کو خط لکھ دیاہے، جس میں جتایا گیا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف کیلئے شہباز شریف کی باضابطہ طور پر حمایت کر دی ہے۔ ایم ایم اے کی جانب سے بھی یہ تجویز سامنے آئی ہے کہ اپوزیشن مولانا فضل الرحمن کو صدارتی امیدوار کے طور پر سامنے لائے۔ لیکن پیپلز پارٹی اس کے لیے تیار نہیں ہے اور نہ اس کی جانب سے گرین سگنل نہیں ملا ہے۔ پیپلز پارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اعتزاز احسن کی بطور صدارتی امیدوار نامزدگی کا اعلان اتحادی جماعتوں سے مشاوت کے بعد ہی کیا جائے گا۔ البتہ پیپلز پارٹی نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کو اعتزاز احسن کے نام پر اعتماد میں لے لیا ہے۔ وہ بھی اس حق میں ہیں کہ بیرسٹر اعتزاز احسن کو صدارتی امیداور نامزد کیا جائے۔ مولانا فضل الرحمٰن کو سابق صدرِ مملکت اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے خود مشاورت کرکے اعتماد میں لیا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن نے مسلم لیگ (ن) کو راضی کرنے کی ذمہ داری لے لی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس مشن میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔ تاہم یہ بات طے ہے کہ اگر صدارتی امیدوار کے معاملے پر اپوزیشن متحد ہو گئی تو وہ تحریک انصاف کیلئے مشکلات کھڑی کر سکتی ہے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More