کراچی(رپورٹ:نواز بھٹو)چیف سیکریٹری کی ہدایت پرسیکریٹری بلدیات دورے کے نتیجے میں الہ دین پارک اراضی کی الاٹمنٹ، لیز کی مدت،معاہدے میں ترامیم سمیت متعدد سنگین بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ سیکریٹری بلدیات نے الہ دین پارک کو الاٹ زمین کےسروے،لیز میں معاہدے میں غیر قانونی تبدیلیوں،پارک کے بڑے حصے کے کمرشل مقاصد کیلئے استعمال ،لیز کی مدت ختم ہونے تک محصولات وصولی کا از سر نو جائزہ لینے کی سفارش کر دی۔ با خبر ذرائع کا کہنا ہے کہ الہ دین پارک انتظامیہ کے قبضے میں75ایکڑ سے زائد اراضی ہے جس کے65تا75فی صد حصے پر غیر قانونی کمرشل سرگرمیاں جاری ہیں۔25سال لیز پر زمین حاصل کرنے والی کمپنی نے الہ دین پارک کی اراضی دیگر نجی کمپنیوں کو کمرشل مقاصد کیلئے99سالہ لیز پر دیدی ۔ تفصیلات کے مطابق چیف سیکریٹری سندھ کی سربراہی میں اینٹی کرپشن کمیٹی ون کی ہدایت پر سیکریٹری بلدیات خالد حیدر شاہ نے گزشتہ روز ڈپٹی کمشنر امجد علی صدیقی،سینئر ڈائریکٹر لینڈ و دیگر حکام کے ہمراہ الہ دین پارک کا تفصیلی دورہ کیا اور اس ضمن میں چیف سیکریٹری کو اپنی رپورٹ پیش کر دی ہے جس میں اینٹی کرپشن کو موصولہ شکایت میں الزامات کو درست قرار دیا گیا۔نجی کمپنی نے اپنے طور پر پارک کی لیز ایک اور کمپنی کو منتقل کر دی ۔سیکریٹری بلدیات کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ الہ دین پارک کو زمین کی الاٹمنٹ کے سال کا تعین ضروری ہے ۔ اینٹی کرپشن کو موصولہ شکایت کے مطابق نجی کمپنی کمپنی کو 45ایکڑ اراضی 1992میں25سالہ لیز پر دی گئی جس کی مدت2017 میں ختم ہو گئی ہے جبکہ بلدیہ عظمیٰ کے ریکارڈ کے مطابق نجی کمپنی کو1995 میں52 ایکڑ زمین الاٹ کی اور لیز کی مدت اگست2021میں ختم ہو گی۔چیف سیکریٹری کو پیش کرہ رپورٹ کے مطابق الہ دین پارک کو تجارتی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کیلئے2004 میں لیز میں تبدیلی کی گئی۔ 2014 میں18ایکڑ اراضی پر پویلین اینڈ بنایا اور 2 شادی ہال تعمیر کئے گئے۔ لیز معاہدہ کے مطابق نجی کمپنی کو پارک کی5فیصد زمین پر کمرشل سرگرمیوں کی اجازت دی گئی جبکہ 34 فیصد اراضی کمرشل مقاصد کیلئے استعمال کی جا رہی ہے۔رپورٹ میں چیف سیکریٹری سندھ سے الہ دین پارک کو الاٹ اراضی کا مکمل سروے کرنے،لیز میں ترامیم اور لیز کی منتقلی کی تحقیقات کیلئے اعلیٰ اختیارات کی حامل کمیٹی بنانے،شادی ہالوں و پویلین اینڈ کی تعمیر سے اب تک کی آمدنی پرٹیکس وصولی کے اقدامات کرنے،لیز کی مدت کے اختتام تک ٹیکس معاملات کا از سر نو جائزہ لینے کی سفارش کی گئی ہے ۔ رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ اس بات کی تحقیقات بھی کی جائے کہ نجی کمپنی نے کس معاہدے کے تحت دیگر نجی کمپنیوں کو زمین 99 سالہ لیز پر کمرشل مقاصد کیلئے دی۔’’امت‘‘ کے رابطے پر سیکریٹری بلدیات خالد حیدر شاہ کا کہنا تھا کہ یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ الہ دین پارک میں تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ کس کی اجازت سے کیا گیا۔پارک میں جھیل ختم کر دی گئی ہے جبکہ واٹر پارک کا کوئی وجود نہیں ہے۔لیز کی مدت اور اس میں ترامیم،شادی ہالوں کی تعمیر،جھیل و واٹر پارک کے خاتمے سمیت کئی معاملات کی تحقیقات ہونی چاہئے۔سروے کے دوران کئی متنازع معاملات سامنے آئے ہیں ،جن سے چیف سیکریٹری کو آگاہ کر دیا ہے۔الہ دین پارک99 سالہ لیز پر دینے کا تاثر غلط ہے۔محکمہ اینٹی کرپشن کو ملنے والی شکایت درست ہے۔لیز میں تبدیلیوں کی چھان بین ضروری ہے کہ ان کی اجازت کس سے لے گئی۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ معاہدے کے مطابق الہ دین پارک کی ڈزنی لینڈ جیسے تفریحی مقام بنانے کی شرط پر ایک فیصد بھی عمل نہیں ہوا۔یہاں تو تفریحی مقامات کم کر کے اسے تجارتی مقاصد کے استعمال کیا جا رہا ہے۔یہ سب کس کی اجازت سے ہوا اس کی تحقیقات ہونی چاہئے۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ترجمان علی حسن ساجد کا کہنا ہے کہ الہ دین پارک میں کمرشل سرگرمیوں پر کے ایم سی کارروائی کر رہی ہے ۔ پارک انتطامیہ کو لیٹر لکھ دیا گیا ہے۔الہ دین پارک کے اندر کلب قائم کر کے لائیو ممبرشپ کی جا رہی ہے جس کا انتظامیہ کے پاس کوئی اختیار نہیں۔پارک کے اندرغیر قانونی انسٹی ٹیوٹ و کالج بنائے گئے ہیں ۔معاہدے سے کہیں زیادہ دکانیں تعمیر کی گئیں ۔ سینئر ڈائریکٹر پارکس منصور قاضی کا کہنا ہے کہ پارک انتظامیہ سے معاہدہ میرے آنے سے پہلے ہوا۔میرے پاس عہد5 ماہ سے ہے ۔ سیکریٹری بلدیات کے ساتھ پارک کا دورہ کیاتھا ۔انہوں نے چیف سیکریٹری کو دی گئی رپورٹ کے حوالے سے کسی بھی سوال کا جواب دینے سے انکار کردیا۔میونسپل کمشنر سیف عباس کو درجنوں بار فون کر کہ موقف لینے کی کوشش کی گئی لیکن انہوں نے کال موصول نہیں کی۔