عمران کا وسل بلور ایکٹ 2 برس سے کاغذوں تک محدود
اسلام آباد(امت نیوز)نئے پاکستان کےوزیراعظم عمران خان نے کرپشن کی روک تھام کیلئے اپنے مشہور زمانہ ‘‘وسل بلور ایکٹ’’ کو پورے ملک میں نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ جسے ان کی اپنی خیبرپختون حکومت 2 برس سے کاغذوں تک محدود رکھے ہوئے ہے۔ صوبائی اسمبلی سے منظوری کے باوجوداس پر عملدرآمد تو دور کی بات ایک مقدمہ بھی درج نہ ہوسکا۔ واضح رہے کہ اس قانون کے لیے بل 2015 میں خیبر پختون کی اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا، جس کو بعد میں سیلیکٹ کمیٹی بھیجا گیا تھا اور پھر ستمبر 2016 کو اس قانون کو اسمبلی نے پاس کرلیا۔قانون کے تحت ہر شہری کو یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ کسی بھی محکمے میں کرپشن کو دیکھ کر وسل بلور کمیشن کو اس کی نشاندہی کر سکتا ہے۔ تاہم اس قانون کی شق 3 کے میں یہ بتایا گیا تھا کہ اس قانون کے تحت ایک کمیشن بنایا جائے گا جو شہریوں کی جانب سے کرپشن کے کیسز کی چانچ پڑتال کرکے اس پر کارروائی کریں گے۔ تقریبًا 2 سال گزرنے کے باوجود یہ کمیشن نہیں بنا، جس کی وجہ سے اس قانون کے تحت ایک کیس بھی رجسٹر نہیں کیا جاسکا۔ سینیر صحافی وسیم احمد شاہ نے بی بی سی سےبات کرتے ہوئے بتایا کہ عمران خان نے پہلے خطاب میں اس کا حوالہ تو دے دیا ،لیکن ان کو شاید اس بات کا علم نہیں تھا کہ انہی کی حکومت کا بنایا ہوا قانون ابھی تک نافذ نہیں ہوا ہے۔ وسیم شاہ کے مطابق جونہی قانون اسمبلی سے پاس ہوجائے تو اس کا نوٹیفیکیشن گزٹ میں کردیا جاتا ہے اورپھر عمل شروع ہوجاتا ہے۔ وسل بلور ایکٹ تقریباً 2 سال پہلےپاس ہوا ،تاہم اس کانوٹیفیکیشن جاری کرنے میں ہی 9 ماہ لگ گئے ،جو گزشتہ سال جون میں گزٹ ہوالیکن قانون کے تحت جو کمیشن بننا تھا وہ تاحال نہیں بنا۔ اسی طرح خیبر پختون حکومت نے 2016 میں ایک اور قانون پریوینشن آف کانفلکٹ آف انٹرسٹ ایکٹ اسمبلی سے پاس کرایا تھا ،لیکن اس پر بھی ابھی تک عمل درآمد شروع نہ ہوسکا۔ ایکٹ کے مطابق اس قانون کو بنانے کا مطلب یہ تھا کہ کسی سرکاری ملازم کے نجی معاملات کا سرکاری معاملات پر اثر نہ ہو۔ تاہم اسی قانون کے تحت بھی ایک کمیشن بنانا تھا اور اس کے رولز آف بزنس بننے تھے جو ابھی تک نہیں بنے اور یہی وجہ ہے کہ یہ قانون بھی صرف کاغذوں تک ہی محدود ہے۔مبصرین کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی سربراہ کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ کیونکہ ان کے بنائے ہوئے قوانین نافذ نہیں ہورہے۔کون ہے جو قوانین پر عملدرآمد میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں ،کیونکہ قوانین صرف بنانے کے لیے نہیں اس پر عمل درآمد بھی ضروری ہے۔