اقبال اعوان
کراچی میں 15 ہزار سے زائد قصابوں نے سیزن کمانے کی تیاری کرلی۔ عید الاضحی کے تین دنوں کے دوران شہر میں 18 لاکھ سے زائد چھوڑے بڑے جانوروں کی قربانی متوقع ہے۔ پوش علاقوں میں جانور کاٹنے کے ریٹ زیادہ ہیں۔ جبکہ شہر میں قصاب کی خدمات لینے کیلئے سوشل میڈیا پر بھی بکنگ کی جارہی ہے۔ علاقے کی پوزیشن کے حساب سے گائے، بیل کاٹنے کے6 سے 10 ہزار، اونٹ کے 12 ہزار سے 20 ہزار، بکرے دنبے کے3 سے 7 ہزار اور چھوٹے بڑے فینسی جانور کاٹنے کے ریٹ 20 ہزار سے 50 ہزار روپے تک مقرر کئے گئے ہیں۔
قصائیوں کی مانگ بڑھتے ہی ان کے نخرے بھی بڑھ گئے۔ جبکہ قصابوں کی کمی کے باعث موسمی قصائی بھی میدان میں آگئے ہیں۔ شہر کے سلاٹر ہاؤسز کے نان مسلم ملازمین کے ساتھ ساتھ شہر کے دیگر نان مسلم افراد بھی قصائیوں کے ساتھ بطور ہیپلرز کام کریں گے۔ غیر مسلم اور موسمی قصائیوں سے جانور کٹوانے پر جہاں سنت ابراہیمی کا اہم فریضہ متاثر ہو سکتا ہے، وہیں کھال بھی خراب ہو سکتی ہے۔ کے ایم سی اور ٹینری کے اداروں کے مطابق اس بار کراچی میں 18 لاکھ سے زائد جانوروں کی قربانی متوقع ہے۔ جانور خریدنے کے بعد شہریوں کے لئے دوسرا بڑا چیلنج قصائی کا ہوتا ہے۔ جو شہری قربانی کرتے ہیں، ان کی خواہش ہوتی ہے کہ بقرعید کی نماز پڑھ کر گھر آتے ہی قصائی آجائے اور ان کا جانور ذبح ہوجائے۔ خاص طور پر بچوں کو یہ شوق زیادہ ہوتا ہے کہ فلاں فلاں پڑوسی کے یہاں جانور کٹ گیا ہے اور ہمارا قصائی اب تک نہیں آیا۔ کراچی میں عام دنوں میں قصاب طبقہ سرکاری سلاٹر ہاؤسز اور گوشت کی دکانوں پر نظر آتا ہے۔ ان میں مرغی کا گوشت فروخت کرنے والے بھی ہوتے ہیں۔ کراچی میں لگ بھگ 15 ہزار قصائی باقاعدہ پیشہ ور ہیں۔ جبکہ ہیپلرز کی تعداد 50 ہزار سے زائد ہے۔ قصائیوں کے نخرے اس دوران سامنے آتے ہیں، جب بقرعید سے دو چار روز قبل انہیں جانور کاٹنے کیلئے بک کرانا ہوتا ہے۔ اس دوران وہ سال بھر کے تعلقات پس پردہ رکھ کر من مانے ریٹ مانگتے ہیں۔ قصائی اور اس کے ہیپلرز مہنگائی کا دکھڑا روتے ہیں کہ ان تین دنوں (عید کے) کیلئے سال بھر انتظار کرتے ہیں کہ چار پیسے ہاتھ آجائیں گے۔ ہر سال پچھلی مرتبہ کی نسبت قصائی 20 سے 30 فیصد معاوضہ زیادہ طلب کرتے ہیں۔ کراچی میں پوش علاقوں، متوسط طبقے اور کچی آبادیوں میں الگ الگ ریٹ طلب کئے جاتے ہیں۔ پیشہ ور قصائی زیادہ تر پہلے روز ان لوگوں کے جانور کاٹتے ہیں جو من مانے ریٹ دیتے ہیں۔ پہلے روز بقرعید کی نماز کے بعد ریٹ زیادہ ہوتے ہیں۔ دوپہر کے بعد کچھ کم ہوتے ہیں۔ اجتماعی قربانی کرنے والے مدارس، مساجد اور رفاہی ادارے عید کے تینوں روز قربانی کرتے ہیں۔ ان کے قصاب پہلے سے لگے بندھے ہوتے ہیں۔ کراچی میں عید کے پہلے روز کی بکنگ تقریباً مکمل ہوچکی ہے۔ اس حوالے سے جو پیشہ ور قصائی اپنے ساتھ ہیپلرز اچھے رکھتا ہے وہ ریٹ زیادہ لیتا ہے۔ ورنہ عام قصائی موٹرسائیکل یا دیگر گاڑیوں پر ہوتا ہے جو ایک جانور ذبح کرکے دوسرے کی جانب چلا جاتا ہے۔ کھال اتارنے والے الگ چلتے ہیں اور گوشت کے ٹکڑے کرنے والے الگ ہوتے ہیں۔ عید پر کراچی میں موسمی قصائی بھی سرگرم ہوجاتے ہیں جو عام دنوں میں گوشت کی دکانوں پر کام کرتے ہیں یا اور مرغی کی دکانیں چلاتے ہیں۔ یہ الگ ٹیمیں لے کر چلتے ہیں اور ان کے ریٹ کم ہوتے ہیں۔ تیسرا طبقہ نان مسلم قصابوں یا ہیپلرز کا ہوتا ہے۔ سرکاری سلاٹر ہائوسز میں کام کرنے والے غیر مسلم ملازم جانور کاٹنے، کھال اتارنے اور گوشت کے ٹکڑے کرنے کا تجربہ حاصل کرلیتے ہیں۔ ان کے ساتھ شہر کی مسیحی آبادیوں کے نوجوان بھی مل جاتے ہیں۔ یہ چھری، ٹوکے، مڈیاں اٹھائے ڈیفنس، کلفٹن اور شہر کے چوراہوں اور سڑکوں کے کنارے نظر آتے ہیں اور اجرت بہت کم لیتے ہیں۔ لیکن انہیں جانور گرانے، کاٹنے، کھال اتارنے اور گوشت کے ٹکڑے کرنے کا زیادہ تجربہ نہیں ہوتا ۔
’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے صدر ایمپریس مارکیٹ کی گوشت مارکیٹ میں کام کرنے والے جاوید قریشی کا کہنا تھا کہ قربانی کے ریٹ علاقوں اور جانور کے وزن کے حساب سے وصول کرتے ہیں۔ فرحان قریشی کا کہنا تھا کہ شہریوں پر منحصر ہے کہ سستے قصائی کے چکر میں نان پروفیشنل یا نان مسلم قصائی بک نہ کرائیں۔ جہاں مہنگے داموں جانور خریدے ہیں، وہاں قصائی کو اچھی اجرت دے کر صاف، ستھرا، گوشت حاصل کریں اور کھال مرضی سے کسی ادارے کو دیں۔‘‘ قصاب شاہد کا کہنا تھا کہ ان کے پاس بکرے، دنبے، گائے اور بیل سے لے کر اونٹ تک کی بکنگ آتی ہیں۔ سعادت قریشی کا کہنا تھا کہ کچی آبادیوں والے لوگ تیسرے دن کی بکنگ زیادہ کرا رہے ہیں کہ اس کی اجرت پہلے روز کے مقابلے میں 40 فیصد کم ریٹ پر ہوتی ہے۔ ڈیفنس مارکیٹ کے قصاب جبار قریشی کا کہنا تھا کہ ڈیفنس والے ہر سال پرانے آنے والے قصائیوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ کام صاف ستھرا کراتے ہیں اور مرضی کے ریٹ دیتے ہیں۔ لانڈھی نمبر 4 کے قصائی راحیل کا کہنا تھا کہ قصائی اجرت کے علاوہ چربی اور گوشت بھی لے کر جاتے ہیں۔ قصائی اکرم کا کہنا تھا کہ پہلے روز درمیانی طبقے کے علاقوں میں ریٹ دوگنے اور ڈیفنس میں تین یا چار گنا زیادہ وصول کرتے ہیں۔
٭٭٭٭٭