ابو واسع
لاہور اور اس کے گرد و نواح کو ستّر کی دہائی کے درمیان سے لے کر اسّی کی دہائی کے اواخر تک دو بھائیوں نے اپنی دہشت کی لپیٹ میں لیے رکھا۔ کم و بیش 35 قتل اور 45 کے قریب اقدام قتل کے مقدمات میں ملوث ان دونوں بھائیوں نے لاہور پر راج کیا اور 90ء کی دہائی میں فروغ پانے والے لاہور انڈر ورلڈ کے خدوخال مرتب کیے۔ یوں تو لاہور میں بہت سے نامی گرامی بدمعاش آتے جاتے رہے، لیکن یہ دونوں اس لحاظ سے انفرادیت کے حامل تھے کہ انہوں نے جسے چاہا مارڈالا، اور جسے چاہا اغوا کرکے تاوان وصول کیا۔ اس کے علاوہ جس بڑی سے بڑی شخصیت کو بھتے کا پیغام بھجوایا، اس نے بلاچوں و چرا ان کو بھتہ دے دیا۔ ستّر کی دہائی کے آخر میں یہ دونوں بھائی میاں شریف سے بھی بھتہ وصول کرتے رہے، جسے ادا کرنے کے لیے شریف برادران میں سے کسی ایک کو جانا پڑتا تھا۔ دونوں بھائی بارہا پولیس کے سامنے مختلف مقدمات میں پیش ہوتے رہے، لیکن ان کے خلاف گواہی دینے کی کسی کو جرأت نہیں ہوئی، جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ چھوٹ جاتے۔ یہ دونوں بھائی اچھو باڑلا (ملک اشرف اعوان) اور چھیدی باڑلا (ملک رشید اعوان) کے نام سے شہرت رکھتے تھے۔ چھ بہنوں کے یہ دو بھائی جرائم کے راستے پر کیسے چل نکلے اور ان کا انجام کیا ہوا؟ اس سے قبل یہ بتانا ضروری ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ یہ لوگ اتنی قتل و غارت کے باوجود دس برس تک پولیس سے بچتے رہے۔ ظاہر ہے اس کے پیچھے طاقتور سیاسی لوگوں کی آشیر باد کا عمل دخل رہا۔
لاہور میں گزشتہ چالیس برس سے نوری نت، میا ں معراج دین ماجھا سکھ، کالو شاہ پوریا، بھولا سنیارا، گوگی بٹ، طیفی بٹ، ریا ض گجر، اسلم ٹا نگے والا، بلا ٹرکاں والا، ٹیپو ٹرکاں والا، ارشد امین چودھری، عابد چودھری، عاطف چودھری، نواز جٹ، ہمایوں گجر، حنیفا بابا، راجپوت برادری، شیخ روحیل اصغر، میاں اخلاق گڈو، بھنڈر، رئیس ٹینکی اور ملک زاہد گروپ کے درمیان دشمنیاں ہوئیں، جن میں ایک ہزار سے زائد لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ ان بڑے گروپس کے پیچھے اچھو باڑلا اور شیدی باڑلا جیسے لوگ ہوتے تھے، جو اہم کردار ادا کرتے تھے۔ انہی دشمنیوں میں سب سے بڑی دشمنی اخلاق گڈو اور شیخ روحیل اصغر گروپ کی تھی، جن میں اخلاق گڈو کا گروپ ماجھا سکھ سنبھالتا اور روحیل اصغر کے گروپ میں اچھو باڑلا اور چھیدی باڑلا شامل تھے۔ دونوں جانب سے درجنوں افراد قتل ہوئے۔ شیخ روحیل اصغر بعد ازاں نواز لیگ کے اہم لیڈر اور ایم این اے ہوئے، جن کے والد شیخ اصغر اور ایک بھائی شیخ شکیل ارشد شادمان چوک میں اس دشمنی کی نذر ہوگئے تھے، جبکہ اخلاق گڈو آج کل تحریک انصاف کی حمایت کر رہے ہیں۔ اچھو باڑلا اور چھیدی باڑلا شیخ روحیل اصغر کے لیے کام کرتے تھے، اور ان کے خاندانی ذرائع کے مطابق وہ اتنے طاقتور ہو گئے تھے کہ روحیل اصغر کے لیے بھی مشکلات پیدا کرنے لگے تھے۔ ان سے کیا کام لیا جاتا تھا؟ اس بارے میں اور ان کی ذاتی زندگی کے بارے میں ان کے خاندانی ذرائع نے ’’امت‘‘ کو جو کچھ بتایا، قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔ ناگزیر وجوہات کی بنیاد پر ان ذرائع کی شناخت ظاہر نہیں کی جارہی۔
’’مناواں لاہور سے قریباً چالیس کلومیڑ کی دوری پر واقع ہے اور آج بھی یہ جرائم پیشہ افراد کی آماجگاہ کہلاتا ہے۔ مناواں کے ساتھ بی آر بی نہر بہتی ہے، جس کے بعد بھارت کا بارڈر شروع ہوجاتا ہے۔ اسی مناواں کے علاقے میں ’اعوان ڈھائیوالا‘ گائوں لاہور کے شمال کی جانب راوی کنارے ایک ایسا علاقہ تھا، جہاں 1960ء اور 70ء کی دہائیوں میں اس قدر آبادی نہیں تھی، اور ویرانے کا راج تھا۔ آج بھی یہاں زیادہ تر علاقہ ویرانے پر مشتمل ہے۔ اس وقت کیا عالم ہوگا، اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اسی لیے لاہور میں رہنے والے اس علاقے کے اعوانوں کو ’’باڑلے‘‘ (یعنی باہر والے) کہتے ہیں۔ دراصل یہ دیہات اعوان برادری پر مشتمل ہے اور یہاں پہچان کے لیے ہر گھرانے کو الگ نام سے جانا جاتا ہے۔ جیسے باڑلے، پچّر اور ذیل دار وغیرہ۔ سرکل مناواں کے اسی علاقے میں علم دین باڑلے کے گھر میں پہلے ملک اشرف اور بعد میں ملک رشید پیدا ہوا۔ اس کے بعد ان کی چھ بہنیں پیدا ہوئیں۔ ساٹھ کی دہائی کے آخری برسوں میں پاکستان سے بھارت میں نمک کی اسمگلنگ عروج پر تھی۔ علم دین کا ایک چچا زاد بھائی جو علم دین کا قریبی دوست بھی تھا، اور جس کا نام مشتاق تھا، وہ بھی اس اسمگلنگ کے دھندے میں ملوث ہوگیا۔ علم دین اپنے اس چچا زاد دوست مشتاق پر جان چھڑکتا تھا۔ مشتاق کو یونس عرف جونا اور ارشد گجر وغیرہ نے اسمگلنگ کے دھندے پر لگایا تھا۔ علم دین کا رجحان زمینداری کی جانب تھا، لیکن مشتاق کی وجہ سے وہ بھی ان ڈائریکٹ اس دھندے میں ملوث ہوتا چلا گیا۔ پھر اس برے کام کا برا نتیجہ بھی سامنے آنے لگا۔ یونس اور ارشد گجر وغیرہ سے مشتاق کے اختلافات شروع ہوگئے۔ لامحالہ علم دین مشتاق کی حمایت کرتا، جس کی وجہ سے دوسرے فریق کا پلڑا ہلکا پڑنے لگا۔ یہیں سے علم دین دوسرے گروپ کی نگاہوں میں کھٹکنے لگا، کیونکہ مشتاق تو ان کے ساتھ اسمگلنگ میں ملوث تھا، لیکن علم دین اسی حد تک شامل تھا کہ وہ مشتاق کی پشت پناہی کر رہا ہوتا۔ یہ تمام واقعات ساٹھ کی دہائی کے آخر میں رونما ہو رہے تھے۔ ستّر کی دہائی میں مشتاق نے مغل پورہ تھانے کے تھانیدار حیدر شاہ کو اپنے ڈیرے پر بلوایا، اور وہاں ان کا کسی بات پر تنازعہ ہوگیا۔ گمان یہی ہے کہ لین دین کے معاملے پر جھگڑا ہوا، کیونکہ جو غیر قانونی کام مشتاق کر رہا تھا، اس کے لیے پولیس کی آشیر باد ضروری تھی۔ اس جھگڑے میں مشتاق نے حیدر تھانے دار کو قتل کر دیا۔ تھانے دار کا قتل کوئی چھوٹا واقعہ نہ تھا۔ پولیس حرکت میں آئی اور مشتاق کے ساتھ اس قتل میں علم دین کا نام بھی شامل کردیا گیا۔ گرفتاری کے خوف سے علم دین اپنے خاندا ن کو لے کر مناواں سے بھاگ نکلا۔ یہ شیخوپورہ ہرن مینار کے پاس پناہ گزین رہے اور اعوان ڈھائیوالا چھوڑ دیا۔ بعد ازاں مشتاق اور علم دین پولیس کے سامنے پیش ہوگئے۔ کیس چلتا رہا اور اس کیس سے علم دین بری ہوگیا۔ مشتاق بھی جیل سے کسی نہ کسی طرح باہر آگیا۔ مشتاق نے باہرآکر پھر اسمگلنگ شروع کردی۔ اس کی مخالفت تو پہلے ہی کی جا رہی تھی، اب وہ قتل بھی کرچکا تھا، اور قتل بھی ایک تھانے دار کا۔ اس وجہ سے اس کی دہشت بڑھنے لگی اور وہ اسمگلنگ کے دھندے کا بلاشرکت غیرے ڈان کہلانے کے خواب دیکھنا شروع ہوگیا۔ دوسرے گروپ سے اختلاف بھی بڑھتے چلے گئے اور اسی بنیاد پر اس کے بعض با اعتماد دوستوں نے دوسرے گروپ کی ایما پر اسے قتل کر دیا۔ مشتاق کو قتل کرنے والا اصل کردار یوسف چکڑ تھا۔ مشتاق کا قتل علم دین کے لیے دردناک تھا، کیونکہ اس کی زندگی کا زیادہ تر حصہ مشتاق کی معیت میں گزرا تھا۔ چنانچہ بدلے کی آگ میں جلتے علم دین نے اس قتل کا بدلہ لینے کی ٹھانی اور موقع ملتے ہی یوسف چکڑ کو قتل کر ڈالا۔ یوں ستّر کی دہائی کے اوائل میں یہ دشمنی پروان چڑھنا شروع ہوگئی۔ گاہے بگاہے دونوں اطراف سے اکا دکا لوگ قتل ہوتے رہے۔ اس دشمنی نے اس وقت ایک ایسا موڑ لیا، جس نے اشرف اور رشید کو جرائم کی دلدل میں لا پھینکا۔ جب اس دشمنی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا تو یونس اور ارشد گجر وغیرہ نے سوچا کہ دوسری پارٹی کے اہم بندے کو ٹھکانے لگا دیا جائے۔ اس سے دو فوائد حاصل ہوں گے۔ ایک تو وہ کھل کر اپنا کام (اسمگلنگ) کرسکیں گے اور کوئی روک ٹوک نہیں ہوگی۔ دوسری جانب اس دشمنی کا بھی خاتمہ ہوجائے گا، کیونکہ علم دین ہی اس دشمنی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا تھا۔ چنانچہ ایک روز علم دین بجلی گھر کی جانب بجلی کا بل جمع کرانے جارہا تھا، اس کے ساتھ اس کے دونوں بیٹے ارشد اور رشید بھی تھے، جن کی عمریں اس وقت لگ بھگ پندرہ اور تیرہ برس کے درمیان تھیں۔ اس موقع پر یوسف چکڑ کے بیٹوں اور ارشد گجر وغیرہ نے برقعے پہن کر عورتوں کا روپ دھار لیا اور بجلی گھر کے سامنے علم دین کو اس کے دونوں بیٹوں ارشد عرف اچھو اور رشید عرف چھیدی کے سامنے بے دردی سے قتل کر ڈالا۔ یہ دونوں چونکہ چھوٹے تھے، اور بعض عینی شاہدین کے مطابق چونکہ یہ دونوں باپ سے دور ایک جانب کھڑے تھے، اس وجہ سے بچ گئے‘‘۔
یہاں سے اس دشمنی نے ایک نیا رخ اختیار کیا۔ علم دین کے وہ کچے ذہن کے بیٹے جنہوں نے اپنے باپ کو بے دردی سے اپنے سامنے قتل ہوتے ہوئے دیکھا، ان پر ایک قیامت گزر گئی، اور وہ بدلے کی ایک ایسی آگ میں جلنے لگے جس نے دونوں کو فقط 24 اور 22 برس کی عمر میں جلا کر راکھ کر ڈالا۔ صرف دس برس تک جرائم کی دنیا میں رہنے والے ان دونوں بھائیوں نے قتل وغارت کی ایسی داستان لکھی، جس کی گونج ابھی تک سنائی دے رہی ہے۔ آج ان دونوںکو قتل ہوئے تین دہائیاں بیت گئی ہیں، لیکن اس کے باوجود پانچ چھ برس قبل ان کی ایک بہن اور دوسری بہن کا خاوند اس دشمنی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ جس کا بدلہ اچھو اور چھیدی باڑلے کے پڑھے لکھے بھانجے (گونا) نے لیا، جو گزشتہ دو برس سے مفروری کی زندگی گزار رہا ہے۔ اگرچہ خاندانی ذرائع نے بہت ساری باتوں پر پردہ رہنے دیا، اس کے باوجود جو کچھ سننے کوملا وہ افسوسناک اور دردناک ہے۔ ان ذرائع کا بتانا تھا کہ ’’جب علم دین قتل ہوا توگھر میں بڑا ملک ارشد اعوان عرف اچھو باڑلا تھا۔ وہ پندرہ سولہ برس کی عمر کا تھا کہ اس کے پاس ایک جرگہ آیا، جس نے ایک پگڑی اٹھائی ہوئی تھی، جو اس کے باپ علم دین نے ایک جرگے میں ایک قتل کی معافی کے موقع پر فریق دوم کے سر پر رکھی تھی۔ چنانچہ اس جرگے نے جس کی قیادت کوئی ڈوگر کر رہا تھا، ارشد باڑلے کو وہ پگڑی آکر دی اور کہا کہ تمہارے باپ نے ہمارے ایک بندے کے قتل کے بدلے یہ پگڑی ہمیں پہنائی تھی اور ہم نے وہ خون معاف کردیا تھا۔ چنانچہ تم بھی اس پگڑی کی عزت رکھو اور اپنے باپ کا خون معاف کردو۔ یوں ارشد اعوان جو کہ اس وقت کم عمر تھا، اس نے یوسف چکڑ کے دونوں بیٹوں کو معاف کر دیا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭