متحدہ رہنما کی بحریہ ٹائون میں 50 پراپرٹیز نکل آئیں

0

عمران خان
متحدہ کے سابق ایم این اے خواجہ سہیل منصور کی بحریہ ٹائون میں پچاس پراپرٹیز نکل آئیں۔ ذرائع کے مطابق ایف آئی اے نے خواجہ سہیل منصور کے دیگر اثاثوں کی چھان بین بھی شروع کردی ہے۔ ایف آئی اے کائونٹر ٹیررازم ونگ کی جانب سے ایم کیو ایم لندن منی لانڈرنگ کیس کے مقدمے میں نامزد متحدہ رہنمائوں کے خلاف علیحدہ انکوائریاں شروع کردی گئی ہیں جن میں خواجہ سہیل منصور، بابر غوری، ارشد ووہرا، خواجہ سہیل منصور کے بھائی خواجہ ریحان منصور اور سابق سینٹر احمد علی بھی شامل ہیں۔ ان انکوائریوں میں ایف آئی اے انسداد دہشت گردی ونگ کے افسران مذکورہ رہنمائوں کے کاروبار، آمدنی اور ان کی جانب سے بنائے گئے اثاثوں کی چھان بین کر رہے ہیں۔ تحقیقات میں خواجہ سہیل منصور کی صرف بحریہ ٹائون میں 50 سے زائد جائیدادیں سامنے آچکی ہیں۔ دوسری جانب متحدہ کے بانی الطاف حسین اور دیگر رہنمائوں کے بیرون ملک قائم 69 بینک اکائونٹس کے حوالے سے ایف آئی اے کی درخواست پر وفاقی وزارت خارجہ کے حکام نے متحدہ عرب امارات اور برطانیہ سے ریکارڈ طلب کرنے کیلئے پروسس شروع کردیا ہے۔ ذرائع کے بقول متحدہ عرب امارات سے ستمبر کے آغاز تک متحدہ رہنمائوں کے غیر ملکی اکائونٹس کا ریکارڈ ملنے کی توقع ظاہر کی گئی ہے۔ جبکہ برطانیہ سے بینک اکائونٹس کا ریکارڈ اکتوبر کے آخر تک ملنے جانے کا امکان ہے، جس کے بعد تحقیقات میں اہم پیش رفت سامنے آئے گی۔
واضح رہے کہ اکتوبر 2017ء میں پاکستانی نژاد برطانوی تاجر سرفراز مرچنٹ کی تفصیلی درخواست پر متحدہ قائد الطاف حسین کے خلاف منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں ڈپٹی میئر ارشد ووہرا، سابق وفاقی وزیر بابر غوری، سابق وفاقی رکن اسمبلی خواجہ سہیل منصور اور ان کے بھائی خواجہ ریحان کے علاوہ سینٹر احمد علی کو نامزد کیا گیا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ خدمت خلق فائونڈیشن میں فطرہ، زکواۃ ، خیرات اور کھالوں سے جمع ہونے والی رقم ان کے بینک اکائونٹس میں منتقل ہونے کے بعد بیرون ملک ایم کیو ایم اور الطاف حسین کے کائونٹس میں منتقل کردی جاتی تھی۔ بعد ازاں اس مقدمے میں متحدہ لندن کے رہنمائوں طارق میر اور محمد انور کو بھی شامل کرلیا گیا تھا۔
ایف آئی اے ذرائع کے بقول گزشتہ ایک برس کے دوران اس مقدمے کی تفتیش بعض نامعلوم وجوہات کی بنا پر سست رفتاری سے چلتی رہی ہے۔ تاہم ذرائع کا دعویٰ ہے کہ حالیہ الیکشن سے قبل اس کیس کے حوالے سے اہم فیصلے کئے گئے ہیں جن میں اس کی تفتیش کو تیز کرکے جلد سے جلد مکمل کرنے اور ملوث افراد کے خلاف گرفتاریوں سے لے کر کیس کی پیروی تک کے معاملات شامل ہیں۔ ذرائع کے بقول ستمبر 2018ء اور اکتوبر 2018ء کے دوران اس کیس میں بڑی پیش رفت سامنے آسکتی ہے کیونکہ کیس کو ثابت کرنے کیلئے کراچی میں خدمت خلق فائونڈیشن اور کئی ایم کیو ایم رہنمائوں کے بینک اکائونٹس کا تمام تر ڈیٹا جمع کرکے منی ٹریل حاصل کرلی گئی ہے۔ تاہم غیر ملکی اکائونٹس کی منی ٹریل باقی ہے جس کے حصول کے بعد حتمی چالان پیش کردیا جائے گا۔
ایف آئی اے کائونٹر ٹیررازم ونگ کے ذرائع کے بقول منی لانڈرنگ کے مقدمے کو تحقیقات کے لحاظ سے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک حصے میں وہ لوگ ہیں جن کی جانب سے خدمت خلق فائونڈیشن کے بینک اکائونٹس میں کروڑوں روپے کے فنڈز جمع کرائے گئے جبکہ دوسرے حصے میں ان افراد کو شامل کیا گیا ہے جن کے بینک اکائونٹس میں خدمت خلق فائونڈیشن کے اکائونٹس سے رقم ٹرانسفر ہونے کے بعد بیرون ملک بھجوائی گئی۔ ایف آئی اے ذرائع کے بقول اب تک ایم کیو ایم کے 47 رہنمائوں اور عہدیداروں کے بیانات قلمبند کئے جاچکے ہیں جنہیں خدمت خلق فائونڈیشن کے اکائونٹس میں کروڑوں روپے جمع کروانے کے حوالے سے تحقیقا ت کیلئے ایف آئی اے کی جانب سے نوٹس بھیجے گئے تھے۔ تاہم ایسے 63 رہنما اور عہدیدار جن میں سیکٹر اور یونٹ سطح کے کارکن بھی شامل تھے، اب تک تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش نہیں ہوئے ہیں۔ بلکہ کئی نے پاک سرزمین پارٹی میں شمولیت اختیار کرکے خود کو تحقیقات سے بچانے کی کوشش کی جس کی وجہ سے منی لانڈرنگ کیس کی تحقیقات گزشتہ دو مہینوں سے سست ترین سطح پر پہنچ چکی تھی۔ تاہم اب ان افراد کو پیش نہ ہونے کی صورت میں ریمائنڈر نوٹس ارسال کرنے کے بعد سخت قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس میں گرفتاری بھی ہوسکتی ہے ۔
ایف آئی اے ذرائع کے بقول تحقیقات کے دوسرے مرحلے میں شامل ڈپٹی میئر ارشد ووہرا، سابق رکن اسمبلی بابر غوری، خواجہ سہیل منصور، سینیٹر احمد علی اور ریحان منصور کے خلاف منی لانڈرنگ کیس میں علیحدہ سے انکوائریاں شروع کرنے کا فیصلہ بھی حال ہی میں کیا گیا ہے۔ جس کے بعد ایف آئی اے کائونٹر ٹیررازم ونگ میں قائم ٹیم نے پانچوں افراد کے کراچی سمیت ملک بھر میں موجود اثاثوں، جائیدادوں اور بینک اکائونٹس کا ریکارڈ حاصل کرکے اس کی چھان بین شروع کردی ہے۔ اسی تحقیقات کے حوالے سے ایف آئی اے ذرائع نے بتایا ہے کہ اب تک خواجہ سہیل منصور کی سب سے زیادہ جائیدادیں سامنے آچکی ہیں جن میں بحریہ ٹائون میں خریدی گئی 50 جائیدادیں شامل ہیں ان میں ہر سائز کے پلاٹ، بنگلے اور فلیٹ وغیرہ شامل ہیں۔ واضح رہے کہ الیکشن سے 15روز قبل خواجہ سہیل منصور نے جو اس وقت قومی اسبلی کے رکن تھے، انہوں نے ایف آئی اے کی جانب سے انہیں اور ان کی اہلیہ کو ملنے والے نوٹس پر احتجاج کیا تھا اور اسمبلی میں ان نوٹسز کو غلط قرار دے کر اپیل کی تھی کہ انہیں ایف آئی اے سے تحفظ فراہم کیا جائے۔ اس وقت سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی جانب سے بھی خواجہ سہیل منصور کی حمایت کی گئی تھی اور ایف آئی اے حکا م سے کہا گیا تھا کہ ان پر ہاتھ ہلکا رکھا جائے۔ تاہم قائم مقام حکومت کے آتے ہی ایف آئی اے حکام ان تحقیقات میں مزید تیزی لے کر آئے جس سے متحدہ رہنمائوں کی پریشانی میں اضافہ ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ الیکشن میں قومی اسمبلی کے حلقہ 239شاہ فیصل کالونی سے پی ٹی آئی کے امیدوار محمد اکرم سے شکست کے بعد خواجہ سہیل منصور کی جانب سے اس فیصلے کو کالعدم قرار دے کر دوبارہ گنتی کے لئے الیکشن کمیشن سے رجوع کیا تھا۔ ایف آئی اے کائونٹر ٹیررازم ونگ کے تفتیش سے جڑے ذرائع کے بقول مقدمہ ایف آئی اے اسٹیٹ بینک سرکل کراچی میں درج کیا گیا تھا جس کے تفتیشی افسر اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد علی ابڑو تھے۔ اس دوران خدمت خلق فائونڈیشن کا تمام ریکارڈ ضبط کرلیا گیا تھا جس سے معلوم ہوا تھا کہ خدمت خلق فائونڈیشن سے کٹنے والی رسید بکس کے ذریعے 2013ء سے 2015ء تک 32 کروڑ روپے فنڈز جمع کئے گئے تھے۔ یہ فنڈز خدمت خلق فائونڈیشن کے الفلاح بینک، الائیڈ بینک اور ایم سی بی بینک کے اکائونٹس سے خواجہ سہیل منصور، ارشد ووہرا، خواجہ ریحان، احمد علی اور بابر غوری کے اکائونٹس میں منتقل ہوئے جہاں سے یہ رقم لندن میں قائم اطاف حسین اور ایم کیو ایم کے دیگر رہنمائوں کے نام پر قائم کمپنیوں میں منتقل ہوتے رہے جبکہ خواجہ سہیل منصور کے بھائی خواجہ ریحان نے کراچی کے بینک سے 50 لاکھ روپے ٹرانزیکشن کی اہلیت رکھنے والا اے ٹی ایم کارڈ حاصل کیا جسے لندن میں الطاف حسین استعمال کرتے رہے جبکہ اس کے مساوی رقم انہیں کے کے ایف کے فنڈز سے ملتی رہی تھی۔ ذرائع کے بقول بعد ازاں تحقیقات کو ٹیررازم فنڈنگ اور اینٹی اسٹیٹ عنصر رکھنے کی وجہ سے ایف آئی اے اسٹیٹ بینک سرکل سے ایف آئی اے کائونٹر ٹیررازم ونگ اسلام آباد منتقل کردیا گیا۔ تاہم اس کیس میں ہونے والی پیش رفت کی رپورٹیں کراچی کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نمبر دو میں ہی ہوتی رہیں جس کے لئے اسلام آباد سے دو ایف آئی اے افسران پر مشتمل ٹیم ہر پیشی پر کراچی آتی ہے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More