13 ہزار جعلی بلدیاتی ملازمین کی نشاندہی کیلئے اقدامات شروع
کراچی (رپورٹ:نواز بھٹو) محکمہ بلدیات میں 2011 سے 2017 تک جعلی بھرتی کئے جانے والے 13 ہزار سے زائد ملازمین اور افسران کے لئے خطرے کی گھنٹی بج گئی ۔ چیف سیکریٹری کے بعد واٹر کمیشن نے بھی جعلی ملازمین اور افسران کی نشاندہی کے لئے اقدامات کی منظوری دے دی ۔ محکمہ بلدیات نے واٹر کمیشن کی تحریری ہدایات ملنے کے بعد جعلی ملازمین کی نشاندہی کے لئے سرٹیفکیٹ کے ساتھ 14نکاتی پروفارما جاری کر دیا۔ محکمہ بلدیات اور اس کے تمام ذیلی شعبوں، محکموں اور اتھارٹیز کے ملازمین کے لئے پروفارما کے تحت اپنی ملازمت سے متعلق تفصیلات اور دستاویزات فراہم کرنا لازمی ہوگا۔ سیکریٹری بلدیات کا کہنا ہے کہ وقت آ گیا ہے کے محکمہ بلدیات کو کالی بھیڑوں اور گھوسٹ افسران اور ملازمین سے پاک کیا جائے ،تاکہ محکمے کی کارکردگی بہتر ہو سکے۔ تفصیلات کے مطابق محکمہ بلدیات میں 2011سے جعلی بھرتی کئے جانے والے ملازمین اور افسران کی اصل تعداد بہت بڑا سوال بنی ہوئی ہے۔ جعلی ملازمین کی شناخت کے لئے اس سلسلے میں چیف منسٹرانسپکشن ٹیم کو بھی تحقیقات کے لئے کہا گیا ،جس نے اپنی رپورٹ میں 13ہزار سے زائد جعلی ملازمین کی شناخت کی جو بعد میں متنازعہ ہو گئی اور کسی بھی قسم کی کارروائی عمل میں نہ لائی جا سکی۔ جعلی بھرتیوں کے معاملے کو لیکر جب نیب نے تحقیقات شروع کی اور محکمہ بلدیات پر چھاپے مار کر ریکارڈ تحویل میں لیا گیا تو معلوم ہوا کے محکمہ میں 9ہزار 500سے زائد افسران اور ملازمین ایسے ہیں جن کا کوئی ریکارڈ ہی نہیں ۔ جعلی ملازمین کی بھرتیوں ، ان کو جاری ہونے والی تنخواہوں اور ترقیاتی بجٹ میں سنگین بے قاعدگیوں کے باعث ایک سیکریٹری محمد رمضان اعوان سمیت متعدد اعلیٰ افسران کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا گیا ۔کافی گرفتاریاں عمل میں آئیں اور سیکریٹری بلدیات کو ہٹا دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق محکمہ بلدیات میں جعلی افسران اور ملازمین کی اصل تعداد 15ہزار سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ حیدرآباد، لاڑکانہ، کراچی اور ٹھٹھہ میں ہونے والے حالیہ اجلاسوں میں واٹر کمیشن کے روبرو یہ معاملہ بھی آیا کہ خلاف ضابطہ کم گریڈ کے سیکڑوں ملازمین کو ترقیاں دے کر اہم عہدوں پر فائز کر دیا گیا ،جس کے لئے واٹر کمیشن نے تحقیقات کی ابتدا حیدرآباد سے کی گئی ۔ اجلاس میں اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا گیا کہ محکمہ بلدیات میں ایسے ہزاروں ملازمین خزانے سے تنخواہ وصول کر رہے ہیں ،جن کا محکمے کے پاس ریکارڈ بھی موجود نہیں ہے۔ اجلاس میں اس معاملے پر تفصیلی غور کرنے کے بعد محکمہ بلدیات کے تمام ذیلی شعبوں، محکموں اور اتھارٹیز کو سرٹیفکیٹ کے ساتھ ایک پروفارما جاری کرنے کی منظوری دی گئی۔ پروفارما میں 2011کے بعد بھرتی ہونے والے تمام افسران اور ملازمین سے 14سوالوں کے تحت ملازمت کے تفصیلات اور دستاویزی ثبوت طلب کئے گئے ہیں۔ ‘‘امت’’ کوپروفارما کے مطابق ان 14سوالوں کے علاوہ ملازم کا نام، ولدیت، قومی شناختی کارڈ نمبر، جس پوسٹ کے لئے درخواست دی، گریڈ،تعلیمی قابلیت، تقرری آرڈر نمبر اور جوائننگ کی تاریخ سے متعلق بھی پوچھا گیا ہے۔ پروفارما کے ساتھ ایک حلف نامہ بھی دیا گیا ہے جس پر ملازم اور اس کے شعبے کے سربراہ کے دستخط لازمی قرار دئیے گئے ہیں۔اس سلسلے میں رابطہ کرنے پر سیکریٹری بلدیات خالد حیدر شاہ نے واٹر کمیشن کی طرف سے پروفارما کی منظوری اور فوری طور پر جاری کرنے کی تصدیق کی ۔ انہوں نے کہا کہ عید الضحی ٰکی تعطیلات کے بعد ایک اجلاس ہوگا جس میں مطلوبہ معلومات اور دستاویزات کی فراہمی کے لئے مدت کا تعین کیا جائے گا اور تمام ذیلی محکموں ، شعبوں اور اتھارٹیز کو معلومات کی فراہمی کے لئے پابند بنایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ وقت آ گیا ہے کہ محکمہ بلدیات کو کالی بھیڑوں اور گھوسٹ افسران اور ملازمین سے پاک کیا جائے ،تاکہ محکمے کی کارکردگی بہتر ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ نیب سمیت جب کوئی ادارہ ، عدالت اور محکمہ اینٹی کرپشن کی طرف سے جعلی ملازمین سے متعلق ریکارڈ یا تعداد دریافت کی جاتی ہے تو محکمہ اور اس کا فوکل پرسن لا جواب ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا سی ایم آئی ٹی کی رپورٹ کا بھی جائزہ لے رہے ہیں اور نیب نے جو معلومات فراہم کی ہے اس پر بھی غور کیا جا رہا ہے اور آئندہ چند ماہ میں اصل تعداد کا پتہ لگ جائے گا۔