افغان طالبان نے روس میں بڑاوفد بھیجنے کی تیاری کرلی

0

امت رپورٹ
افغانستان کے حوالے سے ماسکو میں ہونے والی کانفرنس میں کابل حکومت نے شرکت سے انکار کردیا ہے۔ دوسری جانب افغان طالبان نے ایک بڑے وفد کو آئندہ ماہ ماسکو میں ہونے والی کانفرنس میں بھیجنے کی تیاری کرلی ہے۔ روس نے افغانستان میں داعش کے بڑھتے ہوئے اثر و نفوذ پر قابو پانے اور افغان طالبان اور امریکا کے درمیان امن مذاکرات کی کامیابی کیلئے بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام کیا ہے جس میں کابل حکومت، افغان طالبان، وسطی ایشیا کے ممالک، چین، پاکستان، ایران اور دیگر ممالک کو شرکت کی دعوت دی ہے۔ ذرائع کے مطابق افغان طالبان نے اس کانفرنس میں کئی ممالک کے ساتھ سفارتی روابط بحال کرنے پر غور شروع کر دیا ہے اور کانفرنس میں بڑا وفد کی تیاری شروع کر دی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق افغان طالبان ان ممالک کو یقین دہانی کرانا چاہتے ہیں کہ وہ افغانستان سے باہر کوئی اہداف نہیں رکھتے۔ افغان طالبان اور داعش میں دنیا کو فرق کرنا ہوگا بلکہ افغان طالبان اس کانفرنس میں جوزجان میں طالبان اور داعش کے درمیان ہونے والی لڑائی اور اس کے نتیجے میں داعش کو وہاں سے حکومتی امداد ملنے پر بھی بات کریں گے۔ ماسکو میں افغان سفیر عزیز کوچی کا کہنا ہے کہ روس نے افغان طالبان کو براہ راست دعوت دے کر غلطی کی ہے۔ اس لئے افغان حکومت مذاکرات میں شریک نہیں ہوگی۔ روس نے اب تک امریکا کو کانفرنس میں شرکت کی دعوت نہیں دی ہے اور امریکا چاہتا ہے کہ روس میں ہونے والی کانفرنس کو ناکام بنایا جائے۔ امریکی صدر کی جانب سے یمن سے اپنی تمام افواج کو نکالنے کے بعد افغان حکومت کو بھی خدشہ پیدا ہوا ہے کہ افغانستان سے بھی اچانک اور رات کی تاریکی میں امریکی فوج بتائے جا سکتی ہے جس کے بعد افغانستان میں خون ریزی شروع ہو سکتی ہے اور داعش اور افغان طالبان کے درمیان شدید لڑائی کا خدشہ ہے۔ جبکہ افغانستان سے لاکھوں مہاجرین ایران، پاکستان اور وسط ایشیائی ممالک کا رخ کر سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان سے امریکی انخلا سے قبل روس ایک ایسا مکینزم چاہتا ہے کہ اگر امریکا اچانک انخلا کا اعلان کرتا ہے تو اس کے ہمسایہ ممالک پر منفی اثرات مرتب نہ ہوں، اسی وجہ سے یہ کانفرنس ہو رہی ہے۔ جبکہ افغان حکام کا کہنا ہے کہ روس نے افغان طالبان کو سرکاری طور پر دعوت دے کر انہیں اہم فریق تسلیم کرلیا ہے۔ جبکہ یہ دعوت انہیں افغان حکومت کے ذریعے دینی چاہیے تھی۔ تاہم افغان طالبان کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر انہیں افغان حکومت کے ذریعے ماضی کی طرح دعوت دی جاتی تو وہ اسے مسترد کر دیتے۔ اس لئے افغان طالبان نے روس کی براہ راست دعوت کو قبول کیا ہے کہ روس، افغان مسئلے کو جس تناظر میں دیکھ رہا ہے اس سے مسئلے کا حل ممکن ہے۔ کیونکہ افغان طالبان اور امریکا ہی دو ایسے فریق ہیں جو اگر معاہدے پر متفق ہوئے تو افغان مسئلے کا حل نکل سکتا ہے۔ دوسری جانب افغان طالبان اور حکومت کے درمیان افغانستان کے مختلف صوبوں میں مذاکرات کیلئے قبائلی مشران نے عید کے روز بھی مذاکرات کئے اور دو سو کے قریب سیکورٹی اہلکاروں کو رہا کرایا۔ قبائلی سرداروں نے غزنی، فاریاب اور قندوز پر افغان طالبان کو قبضہ کرنے سے روکنے کی کوششیں شروع کر دی ہیں اور ان سے کہا ہے کہ افغانستان میں پارلیمانی انتخابات تک کوشش کریں کہ لڑائی نہ ہو اور انتخابات ہونے چاہئیں۔ کیونکہ اگر پختون علاقوں میں انتخابات نہ ہوئے تو شمالی اتحاد کو اس کا بڑا فائدہ پہنچے گا۔ یہی وجہ ہے کہ افغان طالبان نے غزنی شہر کا محاصرہ چھوڑ دیا ہے۔ تاہم غزنی کے کئی اضلاع اب بھی افغان طالبان کے قبضے میں ہیں۔
ذرائع کے مطابق ہر قسم کی پالیسی کی ناکامی کے بعد امریکا افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے۔ تاہم ا س وقت افغانستان میں خانہ جنگی کے خوف سے امریکا افغانستان کے مسئلے کا کوئی حل چاہتا ہے۔ امریکا کی جدید تاریخ میں افغانستان کی جنگ سب سے طویل جنگ مانی جارہی ہے اور یہ طویل جنگ امریکا کی معیشت اور سیاست دونوں کیلئے نقصان دہ ہے۔ جبکہ اس جنگ نے افغانستان اور پاکستان کے لاکھوں لوگوں کو بھی متاثر کیا ہے جس کی وجہ سے جتنی یہ جنگ طویل ہوتی رہے گی اتنا ہی یہ کاروبار کی شکل اختیار کر ے گی۔ کیونکہ روس کے نکل جانے کے بعد بھی افغان خانہ جنگی نے اس خطے کے ہزاروں افراد کو تباہی کے دہانے پہنچانے کے ساتھ ساتھ پاکستان اور افغانستان کی معیشت پر بھی برے اثرات مرتب کئے تھے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More