عظمت علی رحمانی
اہلسنت و الجماعت کے کارکنان کی ٹارگٹ کلرز کا پولیس کو تاحال سراغ نہیں مل سکا۔ واقعے کے بعد کراچی میں ایک بار پھر فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ پھیلنے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔ پولیس مسلح افراد کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام دکائی دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پولیس اب تک حالیہ واقعہ کی فوٹیج بھی حاصل نہیں کر سکی ہے۔ تاہم محرم الحرام کے پیش نظر کیس اہمیت اختیار کر گیا۔ واضح رہے کہ سندھ پولیس نے تحقیقات کے بغیر ہی واقعہ کو ڈکیتی مزاحمت قرار دے دیا تھا۔ دو روز بعد بھی واقعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل نہیں کی جاسکی ہے۔ محرم الحرام سے قبل ایک بار پھر شہر میں مذہبی کارکنان کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ جمعہ کو اہلسنت والجماعت کے مرکز صدیق اکبر واقع ناگن چورنگی سے نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد اہلسنت والجماعت کے کارکنان محمد ارشد، محمد سلیم اور اعظم اپنی رہائش گاہ خواجہ اجمیر نگری جا رہے تھے کہ اس دوران یوپی نیو کراچی کے علاقے یوپی سوسائٹی موڑ کے قریب دو نامعلوم مسلح موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کردی، جس کے بعد تینوں نوجوانوں کو زخمی حالت میں عباسی شہید اسپتال لایا گیا جس میں سے اسپتال پہنچنے کے بعد 40 سالہ ارشد اور 41 سالہ محمد سلیم جاں بحق ہو گئے جبکہ تیسرا زخمی 25 سالہ اعظم تاحال اسپتال کے انتہائی نگہداشت وارڈ میں زیر علاج ہے۔
پولیس کی جانب سے عجلت میں واقعہ کو تحقیق کے بغیر ڈکیتی مزاحمت ظاہر کیا گیا، جبکہ مقتولین کو سر پر گولیاں ماری گئیں، جو شہر میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ سے مماثلت رکھتی ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ عید سے قبل جمعہ کو مرکز ناگن چورنگی پر ہالینڈ کے خلاف احتجاجی مظاہر ہ کیا گیا تھا جس میں ایک مشکوک شخص بعض نوجوانوں کی تصاویر بنا رہا تھا، جس کو اہلسنت و الجاعت کے کارکنان نے پکڑا اور اس کے بعد ان کو اہلسنت کے مرکزی رہنما علامہ اورنگزیب فاروقی نے مقامی پولیس کے حوالے کردیا تھا۔ تاہم پولیس نے معمولی پوچھ گچھ کے بعد اسے چھوڑ دیا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے مذکورہ تصاویر بنانے والے شخص کی ہی جانب سے ان نوجوان کارکنان کی دوبارہ ریکی کی گئی، جس کے بعد انہیں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ تاہم پولیس کی جانب سے اس حوالے سے تاحال تحقیقات نہیں کی گئی ہیں۔
اہلسنت والجماعت کے رہنما قاری عمر کا کہنا ہے کہ شہید اور زخمی ہونیوالے تینوں کارکنان آپس میں رشتہ دار تھے، جو صدیق اکبر مرکز میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد ایک ہی موٹر سائیکل پر اپنے گھر اجمیر نگر رشید آباد کالونی جا رہے تھے، تاہم یوپی موڑ پر موٹر سائیکل سوار مسلح افراد کی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ واقعہ کی اطلاع ملنے کے بعد ہم 7 منٹ میں جائے وقوعہ پر پہنچنے، جس کے بعد جائے وقوعہ کے قریب فروٹ چاٹ کے ٹھیلے سمیت دیگر دکانداروں نے بتایا کہ 25 سے 30 سالہ نامعلوم موٹر سائیکل سواروں کی جانب سے اندھا دھندے فائرنگ کی گئی اور ملزمان بھاگ گئے۔ قاری عمر کے مطابق مقتولین کا آبائی تعلق پنجاب کے شہر اوچ شریف سے ہے۔ وہ گزشتہ کئی برس سے کراچی میں حصول روزگار کیلئے آئے ہوئے تھے۔ زخمی ہونے والا اعظم اجمیر نگری تھانے کے قریب اپنی فیملی کے ساتھ رہائش پذیر تھا، جب کہ راشد اور سلیم گھروں میں بچوں کو قرآن کریم پڑھاتے تھے۔ ان کی فیملی اوچ شریف میں رہائش پذیر ہے۔ قاری ارشد کے پسماندگان میں 3 بیٹے اور 3 بیٹیاں ہیں۔ ارشد کی ہفتہ کے روز تدفین بستی عنایت نور اوچ شریف میں کی گئی ہے جبکہ قاری سلیم کے پسماندگان میں ان کی6 بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ جبکہ سب سے بڑی بیٹی کی شادی ایک ماہ بعد طے تھی، قاری شبیر کی تدفین کوٹلہ شیخ والا میں کردی گئی ہے۔ ایس ایس پی عرفان بلوچ نے واقعہ کے بعد میڈیا کو بتایا تھا کہ واقعہ ڈکیتی مزاحمت کا لگتا ہے جس کے بعد ان سے متعدد بار رابطے کی کوشش کی گئی۔ تاہم انہوں نے فون ریسیو نہیں کیا۔ جس کے بعد ایس پی نیو کراچی شبیر بلوچ سے رابطہ کیا گیا، جس پر شبیر بلو چ نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ فی الحال واقعہ کا مقدمہ درج نہیں ہوا ہے۔ مقتولین کا قریبی عزیز میت لے کر گاؤں گیا ہے جب وہ واپس آئے گا تو اس کے بعد ہی مقدمہ درج کیا جائے گا۔ شبیر بلوچ کا کہنا ہے کہ تحقیقات کی جائیں گی تاہم ابھی تک زخمی سے کوئی بیان لیا گیا ہے نہ ہی کسی بھی جگہ سے سی سی ٹی وی فوٹیج لی جاسکے ہیں۔
اس حوالے سے اہلسنت والجماعت کے ترجمان مولانا عمر معاویہ کا کہنا ہے کہ محرم الحرام سے قبل رینجرز و پولیس کی موجودگی میں دن دیہاڑے کارکنان کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا ہے جو انتطامیہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے کراچی میں امان وامان کی صورتحال بحال ہوئی ہے جس کے بعد اب دہشت گرد دوبارہ فعال ہورہے ہیں جب کہ دہشت گردوں کی جانب سے محرم الحرام سے قبل اس قسم کی دہشت گردی کرکے امن و امان کو داؤ پر لگانے کی کوشش کی جارہی ہے، جس کی ہم بھر پور مذمت کرتے ہیں اور ہمارا مطالبہ ہے کہ سندھ پولیس جلد از جلد قاتلوں کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دے۔
Next Post