احمد نجیب زادے
میدان عرفات کا اجتماع دیکھ کر فلپائن کی 60 سالہ مسیحی خاتون مسلمان ہوگئیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ فلپائنی خاتون بیٹے کے قبول اسلام سے ناراض تھیں۔ مکہ مکرمہ میں عرب جریدے الشروق سے بات کرتے ہوئے نو مسلم دائود نے بتایا کہ وہ 2005ء میں ایمان لایا تھا۔ اس کے قبول اسلام کی بات سن کر والدہ سخت ناراض ہوئیں اور انہوں نے اس سے گفتگو بند کردی اور پھر گھر سے نکال دیا۔ وہ بہت زیادہ پریشان اور ملول تھا، لیکن اس کی والدہ نے اسے ملاقات کرنے سے بھی منع کر دیا تھا۔ وہ ہر وقت اپنی والدہ کے قبول اسلام کیلئے دعائیں کرتا تھا۔ لیکن یہ علم نہیں تھا کہ اس کی دعائیں اور التجائیں میدان عرفات میں قبول ہوں گی۔ بہرکیف کچھ سال بعد اس کی والدہ کا دل تھوڑا نرم ہوا۔ لیکن اس حد تک کہ انہوں نے اس سے گھر سے باہر ملاقاتیں کیں اور ٹیلی فونک اور سوشل سائٹس پر خیالات کا تبادلہ شروع کیا، جس کے دوران وہ ان کو مسلسل اسلام کے بارے میں معلومات دیتا رہا کہ وہ اس کے ساتھ بھلے جتنی چاہیں سختیاں فرمائیں، لیکن اسے اسلام نے والدین سے اخلاق، حسن سلوک اور نرمی کے احکامات دیئے ہیں۔ تین برس قبل اس نے والدہ کو دینی مواد بھیجا، جس میں قرآنی رسائل، دعا اور دیگر مضامین شامل تھے۔ لیکن والدہ نے ان دینی تبلیغی مواد کو کوئی اہمیت نہ دی، جس پر وہ رو پڑا۔ دائود کہتا ہے کہ ’’میں نے گریہ وزاری کے عالم میں والدہ کیلئے ہدایت اور قبول اسلام کی دعائیں کیں اور دل مضبوط کرکے ان سے ملاقات کیلئے منیلا کے مضافاتی علاقے میں جا پہنچا۔ میری صورت دیکھ کر والدہ خوش ہوئیں، لیکن انہوں نے مجھے اسلام ترک کر دینے کیلئے دبائو ڈالا، جس کو میں نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ ٹال دیا اور کھانے وغیرہ سے فارغ ہو کر والدہ کو جنت، دوزخ اور اسلام کے متعلق درس دینا شروع کردیا۔ وہ سنتی رہیں اور کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا اور آرام سے فون اٹھا کر انہوں نے میرے بڑے بھائی اور ماموں کو جو فلپائنی پولیس ڈپارٹمنٹ میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں، سے رابطہ کیا اور ان کو فوری طور پر گھر بلا لیا۔ والدہ نے میرے ماموں اور بڑے بھائی سے شکایات کیں کہ میں ان کو تنگ کر رہا ہوں اور زبردستی قبول اسلام کیلئے دبائو ڈال رہا ہوں۔ یہ سن کر انہوں نے مقامی پولیس اسٹیشن سے مسلح اہلکار بلوا کر مجھے گرفتار کرا دیا۔ اس موقع پر میری آنکھوں میں آنسو تھے اور میں اس موقع پر بھی دعائیں کر رہا تھا کہ اے رب العزت، مجھے جس طرح ہدایت دی ہے، اسی طرح میری والدہ کو اسلام لانے کی ہدایت عطا فرما۔ پولیس اسٹیشن میں مجھے وارننگ دی گئی کہ میں اپنی والدہ پر اسلام قبول کیلئے دبائو نہ ڈالوں اور ان کیلئے مسائل پیدا نہ کروں۔ میرے خلاف مقدمہ بنایا گیا اور تین ماہ کیلئے جیل بھجوا دیا گیا۔ سزا کی مدت پوری ہونے کے بعد بھی میں والدہ کیلئے ہدایات کی دعا مانگتا رہا۔ امسال مجھ کو خالق کائنات نے حج کی سعادت عطا فرمائی، جس کی ادائیگی کے لئے میں نے فلپائن سے جدہ اور پھر مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ کا رُخ کیا اور حج ادا کیا۔ جب میں وقوف عرفات کیلئے میدان عرفات میں موجود تھا تو والدہ کیلئے اسلام لانے کی دعا کی اور اسی وقت میرے دل میں ایک انوکھا خیال سوجھا کہ کیوں نہ میں اپنی والدہ کو میدان عرفات میں موجود لاکھوں عازمین حج کی تصاویر بھیجوں۔ اس آئیڈیا پر میں نے اسی وقت عمل درآمد کیا اور میدان عرفات میں جبل رحمت سمیت یہاں موجود دنیا بھر سے آنے والے لاکھوں حجاج کرام کی تصاویر اسمارٹ فون سے فلپائن میں اپنی والدہ کو بھیجیں، جنہوں نے یہ تصاویر دیکھیں تو چونک گئیں۔ انہوں نے مجھے پیغام بھیجا کہ تم ا س وقت کہاں ہو؟ میں نے جواب دیا میدان عرفات میں ہوں اور حج کی سعادت کے حصول کیلئے مکہ آیا ہوا ہوں۔ انہوں نے حجاج کرام کی تصاویر دیکھ کر استفسار کیا کہ یہ کون لوگ ہیں اور ایک ہی قسم کے لباس (احرام) میں ملبوس ہوکر یہاں کیا کر رہے ہیں؟ میں نے جواب دیا کہ یہ حجاج کرام ہیں، جو ایک ہی لباس اور ایک ہی وقت میں ایک ہی جگہ موجود ہوکر حج ادا کر رہے ہیں اور وہ رب کے وعدے کے مطابق گناہوں سے ایسے پاک ہوجائیں گے جیسے ان کی مائوں نے انہیں آج ہی جنم دیا ہے۔ والدہ اس قدر حیران ہوئیں کہ حج اور اسلام کے متعلق انہوں نے متعدد سوالات کئے، جن کے جوابات میں نے ان کو دیئے اورحضرت آدم سے نبی آخر الزماںؐ کے بارے میں مکمل تفصیلات فراہم کیں۔ جس پر والدہ نے متاثر ہوکر کہا کہ وہ اسلام قبول کرنا چاہتی ہیں۔ والدہ کی ہدایت کی اس عظیم نعمت کا سن کر میں انتہائی خوش ہوا اور سجدہ شکر ادا کیا۔ پھر میں نے والدہ کو بتایاکہ آپ فلاں فلاں مقام پر مسجد میں جاکر اسلام قبول کر لیں۔ والدہ نے ہدایات کے عین مطابق متعلقہ اسلامک سینٹر میں جاکر اسلام قبول کیا اور کہا کہ اگلے برس خود مکہ جاکر حج ادا کرنے کا ارادہ اور نیت کرتی ہوں‘‘۔
٭٭٭٭٭