اچھو اور چھیدی دشمن کو زندہ پکڑ کر ٹکڑے کرکے دریا برد کرتے

0

ابو واسع
حسینی عالم پوریا کی دونوں ٹانگوں پر گولیاں لگ چکی تھیں، لیکن ابھی اس میں اس قدر دم باقی تھا کہ وہ مسلسل فائرنگ کرکے باڑلا پارٹی کو خود سے دور رکھ سکتا تھا۔ اسے جو شخص اٹھا کر بھاگ رہا تھا، جب اسے گولی لگی تو حسینی نے اسے کہا کہ تم اپنی جان بچائو، میں انہیں جس حد تک روک سکا روکوں گا، کیونکہ میں بھاگ نہیں سکتا، تم تو ابھی بھاگ سکتے ہو۔ چنانچہ حسینی نے کسی حد تک مزاحمت کی، لیکن خون زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے جلد ہی بے ہوش ہوگیا۔ جبکہ دوسرا شخص جس نے حسینی کو اٹھایا ہوا تھا، وہ قریبی فصل میں جاکر چھپ گیا۔ لیکن چونکہ اسے گولی لگ چکی تھی، اس لیے اس نے بھی وہیں دم دے دیا۔ اچھو اور چھیدی پارٹی حسینی کے سر پر جا پہنچی۔ وہ بے ہوش پڑا ہوا تھا۔ اس لڑائی میں دو لوگ باڑلا پارٹی کے بھی کام آئے، لیکن وہ اہم لوگ نہ تھے۔ چنانچہ باڑلوں نے تینوں لاشوں کو وہیں دریا برد کیا اور حسینی عالم پوریا کو بے ہوشی کی حالت میں اسی ٹرالی میں ڈال کر اس جگہ سے دور دریا کے پاس لے گئے۔ وہاں انہوں نے حسینی عالم پوریا کے بے ہوشی کے عالم میں ٹکڑے کرنا شروع کر دئیے۔ انہوں نے حسینی عالم پوریا کو زندہ ہی کاٹ ڈالا اور اس کے ٹکڑے دریا میں پھینک دئیے۔ اس کی لاش پھر کبھی نہ مل سکی۔ اس لڑائی میں باڑلوں میں سے غلام حسین بھی قتل ہوا، جو اچھو اور چھیدی کا چچا تھا۔
اس واقعے نے اچھو اور چھیدی کی دہشت کو وہ مہمیز عطا کی کہ پورا لاہور ان کی دہشت سے گونج اٹھا۔ اب سیاسی نابغین جن کی دشمنیاں چل رہی تھیں، وہ ان دونوں بھائیوں سے مکمل رابطے میں آچکے تھے اور یہ دونوں ان کے لیے بھرپور کام کر رہے تھے۔ اسلحہ ان کے پاس وافر پہنچ چکا تھا۔ اس وقت جی تھری اور کلاشنکوف تو خیر آہی چکی تھی، مزید جدید اسلحہ گرنیڈ وغیرہ بھی حاصل کرچکے تھے۔ دوسری جانب یونس کا ایک اور بھتیجا جس کا نام بگن پچر تھا، اور وہ اسی انور کا بھائی تھا، جس کی ٹانگیں توڑی گئی تھیں۔ بگن کا اصل نام تو نہ جانے کیا تھا، لیکن چونکہ وہ گورا چٹا اور اونچا لمبا تھا، اس لیے اسے بگن یا بگو (سفید) کہا جاتا تھا۔ بگن محمد حسین عالم پوریا کے قتل کا شہادتی بن گیا کہ کوئی اور گواہی دینے کو تیار نہ تھا۔ اسی نے اس کیس کی پیروی بھی شروع کردی۔ بگن ایک جانب پولیس کی نوکری کر رہا تھا تو دوسری طرف مقدمہ بھی لڑ رہا تھا۔ تیسری جانب اس نے پچر پارٹی کو یونس پچر کے بیٹے طفیل پچر کے ساتھ مل کر دوبارہ اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔ بگن نے دوبارہ دس پندرہ لوگوں کی پارٹی تیار کرلی اور یوں یونس پچر کی عدم موجودگی میں پچر ایک بار پھر متحدہ ہونا شروع ہوگئے۔ اب انہوں نے اچھو، چھیدی اور بالا گاڈی کی تاک لگانا شروع کردی۔ لیکن باڑلا گینگ اب اس قدر طاقتور ہوچکا تھا کہ وہ پکڑائی نہیں دیتا تھا۔ ایک طرف انہوں نے پچروں کے ڈیرے اپنے قبضے میں کیا ہوا تھا تو دوسری جانب علاقے پر نظر رکھنے کے لیے انہوں نے لوگوں کو مخبر کے طور پر چھوڑ رکھا تھا، جو انہیں پچروںکی پل پل کی خبر دیتے تھے۔ اعوان ڈائیوالا کے ساتھ کے گائوں کے بیلدار باڑلا پارٹی کے ساتھ ملے ہوئے تھے۔ ایک روز وہ پچروں کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اچھو (بمبی) ٹیوب ویل پر اکیلا نہا رہا ہے۔ یہ بمبی اس ڈیرے اور اعوان ڈائیوالا کے درمیان میں واقع تھی۔ چنانچہ پچروں کے پندرہ سولہ لوگ اکٹھے ہوکر اس بمبی کی جانب بگن کی کمانڈ میں چل پڑے۔ انہوں نے اتنا تکلف نہ کیا کہ اس خبر کی تصدیق ہی کر لیتے۔ پچر گینگ میں خاص لوگ بگن، یونس کا بیٹا طفیل اور بھپ نامی شخص جو یونس پچر کی بیوی کا سگا بھانجا تھا، ببمی کی جانب چل پڑے۔ باقی لوگ جو ان کے ساتھ شامل تھے، وہ ادھر اُدھر سے شامل ہوئے۔ اچھو واقعی وہاں اکیلا تھا۔ لیکن اسے معلوم تھا کہ گیم کیا ہونے جارہی ہے۔ جیسے ہی پچر پارٹی بمبی کی جانب چلی، دوسری طرف سے چھیدی، بالاگاڈی، تائو، باسو آرائیں وغیرہ آٹھ دس لوگ جدید ترین اسلحے سے لیس ہوکر بمبی کی جانب نکل کھڑے ہوئے۔ جیسے ہی پچر پارٹی بمبی پر پہنچی، دوسری طرف سے باڑلے بھی پہنچ گئے اور انہوں نے پچروں پر فائرنگ کھول دی۔ پچر تو صرف اچھو کو اکیلا گھیرنے گئے تھے، لیکن وہاں تو پورا گینگ موجود تھا۔ چنانچہ بگن کے ساتھ آنے والے لوگ گھبرا کر پیچھے ہٹنا شروع ہوگئے۔ بگو کے ساتھ آنے والے اس غیر متوقع صورتحال کے لیے تیار نہیں تھے، یوں وہ بھاگ گھڑے ہوئے۔ جبکہ اسی اثنا میں بگن کو ٹانگ کی پنڈلی پر اسٹین گن کی گولی لگ گئی۔ اب پچروں کے صرف تین لوگ رہ گئے، جن میں بگن طفیل اور بھپ شامل تھے۔ باقی تمام لوگ جان بچا کر بھاگ گئے۔ یہ تینوں دلیری سے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنے لگے۔ بگن کو فائر لگا تو وہ مونجھی کی فصل میں بیٹھ گیا اور باقی دونوں کو کہا کہ تم نکلو، میں تمہیں کور دیتا ہوں۔ بگن اکثر اپنے گلے میں ڈبیوں والا مفلر ڈالتا تھا۔ یہ اس وقت نئے نئے آئے تھے، چنانچہ اس نے وہی مفلر اپنی پنڈلی پر باندھ لیا۔ باڑلا پارٹی کو معلوم نہ ہوسکا کہ ایک بندہ مونجھی میں بیٹھ گیا ہے۔ باقی دو لوگ ان پر اسی طرف فائرنگ کرتے ہوئے ایک گھاٹی میں اتر گئے۔ جبکہ بگن کی طرف سے فائرنگ وقتی طور پر ختم ہوگئی تھی اس لیے باڑلے سمجھے کہ سب لوگ گھاٹی میں اتر گئے ہیں۔ بگن کے پاس دو نالی بندوق تھی۔ باڑلوں کے ساتھ جو شخص آگے تھا، اسے اچانک خون کی ایک لکیر اس مونجھی کی جانب جاتی دکھائی دی تو اس نے باڑلوںکو روک لیا اور دیگر لوگوں کو اشارہ کیا کہ اس طرف زخمی بندہ موجود ہے، لہٰذا دھیان سے اس کے گرد گھیرا ڈالا جائے۔ اگر وہ بندہ اشارہ نہ کرتا تو یقینی بات تھی کہ باڑلا پارٹی آگے نکل جاتی اور پیچھے سے دو نالی بندوق سے بگن ان پر حملہ کرکے نقصان پہنچا سکتا تھا۔ لیکن اچھو اور چھیدی باڑلا گینگ کی قسمت نے ایک بار پھر یاوری کی اور انہیں بروقت زخمی شخص کے بارے میں پتہ چل گیا۔ دوسری طرف طفیل اور بھپ گھاٹی میں جاکر کھڑے ہوگئے کہ جیسے ہی اترائی سے کوئی نیچے آئے گا، ان کی گولیوں کی رینج میں آجائے گا اور وہ اسے مار ڈالیں گے۔ لیکن باڑلے بگن کے گرد گھیرا تنگ کرنے لگے۔ اسی اثنا میں کچھ لوگ گھاٹی میں اترنے کی کوشش کرنے لگے تو طفیل وغیرہ نے ان پر فائر کیا، لیکن ان کا فائر نہ چل سکا اور گولی مس ہوگئی۔ باڑلا پارٹی کے پاس جدید اسلحہ تھا۔ انہوں نے گھاٹی میں موجود دونوں پر اندھا دھند فائرنگ شروع کردی۔ طفیل اور بھپ نے جب دیکھا کہ معاملہ ان کے بس میں نہیں رہا تو وہ بھاگ کھڑے ہوئے اور اونچی فصل میں جاکر نکل گئے۔ اچھو اور چھیدی، بگن کے سر پر جا پہنچے۔ بگن شدید تکلیف میں تھا۔ کیونکہ گولی نے اپنا اثر دکھانا شروع کردیا تھا۔ وہ بندوق اٹھانے کے قابل بھی نہ تھا، چنانچہ باڑلوں نے اسے چاروںجانب سے گھیر لیا۔ اچھو اورچھیدی نے اس کے سر کے اوپر کلاشنکوف کی نالی رکھ کر گولی ماری اور اس کی لاش کو ٹریکٹر ٹرالی پر رکھ کر دریا کی جانب لے گئے اور اسے دریا برد کر دیا۔ یوں بگن جو یونس پچر کے بعد پچروں کو اکٹھا کر رہا تھا وہ بھی اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ اس طرح کے واقعات نے اچھو اور چھیدی کو جرائم کی دنیا میں مزید آگے بڑھانے میں مدد دی۔ اب وہ افسانوی کردار بنتے جارہے تھے۔ اچھو اور چھیدی کا نام ہی کسی کے لیے کافی تھا۔ انہوں نے ان دشمنیوں کے ساتھ ساتھ، ڈاکے ڈالنے اور بھتہ لینے کا کام بھی شروع کر دیا۔ وہ کسی کو بھی پیغام بھجواتے تو وہ بلا چوں و چرا جتنے پیسے مانگتے دے دیتا تھا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ لاہور کا کوئی ایسا کاروباری شخص نہ تھا جس سے وہ بھتہ نہ لیتے۔ جبکہ ڈاکے صرف لوگوں تک ہی محدود نہ تھے، بلکہ انہوں نے بینک بھی لوٹنے شروع کردئیے تھے۔ جن کا آگے چل کر ذکرکیا جائے گا۔
اس سوال پر کہ اس قدر قتل و غارت پر پولیس کیوں خاموش رہی؟ تو ان کے خاندانی ذرائع کا کہنا تھا ’’اعوان ڈھائیوالا اس وقت بہت زیادہ ویرانی کا منظر پیش کرتا تھا، جہاں یہ لوگ پناہ گزین تھے۔ پولیس آٹھ دس کلومیٹر دور سے دکھائی دے جاتی تھی اور یہ لوگ وہاں سے نکل جاتے تھے۔ دوسری طرف پولیس کے پاس نفری تو بہت تھی لیکن اسلحہ وہی پرانا تھری ناٹ تھری اور بارہ بور رائفل ہوتی۔ ان کے پاس جدید اسلحہ ہوتا، اس لیے پولیس بھی کارروائی ڈال کر واپس آجاتی کہ کون ان کے مقابل جائے۔ دوسری طرف شیخ راحیل اصغر اور صفدر ڈیال اس وقت کا ایم این اے، کا ان دونوں کے سر پر ہاتھ تھا۔ پولیس اس وجہ سے بھی کاغذی کارروائی تک محدود رہتی۔ اچھو اور چھیدی پر جب قتل کے مقدمات زیادہ ہونے لگے تو ان میں سے اکثر ایک بھائی سرنڈر کر دیتا۔ جیسے کہ چھیدی دو بار پولیس کے سامنے پیش ہوا، لیکن ثبوتوں اور شہادتوں کے نہ ہونے کے باعث وہ باعزت بری ہوجاتا۔ آپ خود سوچیں کہ اس وقت اس قدر طاقتور گینگ تھا کہ کسی کو ہمت ہی نہ ہوتی کہ ان کے خلاف گواہی دیتا۔ اگر چھیدی جیل جاتا تو اچھو باڑلا معاملات سنبھال لیتا۔ اپنے دشمنوں کو وہ پہلے ہی تتر بتر کر چکے تھے، لہٰذا جو مقدمہ بنتا، ان میں سے ایک پیش ہوکر خود کو عدالت سے عدم ثبوتوں کی بنیاد پر بری کرالیتا۔ اچھو صرف ایک بار ہی پیش ہوا اور اسی دوران اس کا انکائونٹر کردیا گیا۔ اس کی تفصیل بھی آگے بیان کی جائے گی۔ چھیدی کیمپ جیل میں رہا، جبکہ اچھو بھی کیمپ جیل رہا۔ جبکہ وہاں سے اسے سینٹرل جیل لے جایا گیا، جہاں سے نکال کر انکائونٹر کیا گیا تھا۔ ان کے زور کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک ایس ایس پی رانا مقبول تھا، جس نے ان کے گینگ کا ایک بندہ پکڑ لیا تھا۔ ان دونوں بھائیوں نے اگلی صبح رانا مقبول کے بچے اسکول سے اغوا کرلیے اور اسے مجبوراً وہ بندہ چھوڑنا پڑا۔ بھتہ لینے کے حوالے سے ایک مشہور واقعہ ہے جس کی گونج آج تک سنائی دیتی ہے۔ وہ ہے بتی چوک پر واقع شیزان فیکٹری کے مالک سے پانچ لاکھ بھتہ لینے کا۔ اس نے پیسے دینے سے انکار کردیا تھا، اور انہیں پہلی بار کہیں سے بھتہ دینے سے انکار ہوا تھا۔ دونوں بھائیوں کے لیے یہ انتہائی غیر متوقع صورتحال تھی‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More