نجم الحسن عارف
ملتان کے وکیل بلال شہباز خان کے خلاف اقدام خود کشی کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ بلال شہباز خان نے ہفتے کے روز سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری کے باہر خودکشی کی کوشش کی تھی۔ اس کوشش کو پولیس نے اسے دبوچ کر ناکام بنا دیا اور بعد ازاں تھانہ پرانی انار کلی میں مقدمہ درج کر لیا۔ ایف آئی آر نمبر 400/2018 میں بلال شہباز نامی ایڈووکیٹ کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 325 اور 511 کے تحت مقدمہ کا اندراج کرنے کے بعد تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔ تاہم وکلا برادری سے تعلق رکھنے والے دوستوں کے فوری طور پر تھانے پہنچ جانے کے باعث اسی روز بلال شہباز خان کی ضمانت منظور کرالی گئی۔ بلال شہباز ایڈووکیٹ کے مطابق اس نے اقدام خودکشی میرٹ پر ہونے کے باوجود سرکاری ملازمت سے محروم رکھے جانے کے خلاف عدالت عظمیٰ کی جانب سے از خود نوٹس نہ لینے پر اٹھایا۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ لاہور رجسٹری کے باہر رواں ہفتے خودکشی کی یہ دوسری کوشش ہے۔ عید الاضحیٰ سے قبل شکیلہ بٹ نامی خاتون اس امر پر دلبرداشتہ تھی کہ اس کے ایک جاننے والے کامران قریشی نے پولیس کی مدد سے اس کے مکان پر قبضہ کر رکھا ہے۔ اس قبضے کے خلاف اس نے ہر متعلقہ دروازہ کھٹکھٹایا لیکن کہیں شنوائی نہ ہوئی۔ شکیلہ بٹ کو پولیس نے خود کشی میں کامیاب نہ ہونے دیا۔ بعد ازاں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے متعلقہ پولیس کو اس معاملے میں دلبرداشتہ خاتون کی مدد کا حکم دے دیا۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ شکیلہ بٹ کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ ایک مطلقہ خاتون ہے جس نے حسن ٹائون میں کامران قریشی سے 30 لاکھ روپے کے عوض ایک مکان خریدا، لیکن کامران قریشی نے رقم کی وصولی کے باوجود مقامی پولیس کے تعاون سے مطلقہ خاتون کے مکان کا قبضہ نہیں چھوڑا، اس پر دلبرداشتہ خاتون اپنے دو بچوں اور ایک لے پالک شیر خوار بچی کے ساتھ سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری پہنچ گئی۔ جہاں کئی گھنٹے تک انتظار کے باوجود اس کی عدالت میں رسائی ممکن نہ ہوئی تو اس نے اپنے اوپر پیٹرول ڈال لیا تاکہ خودکشی کر سکے۔ تاہم پولیس اور موقع پر موجود حفاظتی گارڈز نے خاتون کے اقدام خود کشی کو ناکام بنا دیا۔
’’امت‘‘ نے بلال شہباز خان ایڈووکیٹ سے رابطہ کیا تو وہ لاہور کے تھانہ پرانی انار کلی سے ضمانت کے بعد رہائی پانے کے بعد اپنے آبائی شہر ملتان کی جانب رواں دواں تھے۔ ان سے ہونے والی بات چیت سوال جواب کی شکل میں نذر قارئین ہے۔
س: کیا وجہ بنی کہ ایک قانون کو سمجھنے والے اور وکالت کرنے والے آپ جیسے فرد کو اقدام خود کشی کرنا پڑا؟
ج: اصل میں یہ واقعہ میری دلبرداشتگی کے سبب پیش آیا۔ 20 اگست 2018ء کو پنجاب پبلک سروس کمیشن نے اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ پراسیکیوٹرز کے امتحان کے نتائج کا اعلان کیا۔ میں نے تحریری ٹیسٹ میں کامیابی کے علاوہ انٹرویو اور نفسیاتی ٹیسٹ بھی پاس کر لیا۔ لیکن اس کے باوجود کہ میں میرٹ پر تھا اور ٹیسٹ انٹرویو میں پاس تھا، مجھے ملازمت نہ دی گئی بلکہ نظر انداز کر دیا گیا۔ صرف وجہ یہ تھی کہ میرا تعلق اپر پنجاب سے نہیں تھا۔ میرے علاوہ ملتان سے امتحان میں پاس ہونے والے 36 دوسرے امیدوار بھی تھے۔ لیکن ان میں سے بھی کسی کو ملازمت نہ دی گئی۔ یہ امتیازی سلوک اس کے باوجود کیا گیا کہ 25 مئی 2018ء کو ایک باضابطہ نوٹیفکیشن بھی جاری ہو چکا تھا کہ جس میں کہا گیا تھا کہ ہر شعبے کی 17 گریڈ اور اس سے اوپر کی ملازمتوں میں 20 فیصد کوٹہ جنوبی پنجاب کے امیدواروں کیلئے مختص ہوگا۔ اس کے باوجود کہ ہم نے امتحان پاس کر لیا تھا، ہمیں ملازمت سے محروم رکھا گیا۔
س: یہ مجموعی طور پر کتنی نشستیں تھیں؟
ج: مجموعی طور پر 146 نشستیں تھیں، جن میں سے 123 افراد کو ملازمت دی گئی ہے۔ اہم بات ہے کہ 23 نشستیں خالی رکھی گئیں اور میرٹ پر آنے والوں کو نظر انداز کر دیا گیا۔ ان میں ایک میں بھی شامل ہوں۔ یہ بھی قابل غور ہے کہ معذوروں اور اقلیتی امیدواروں کیلئے مختص نشستوں کو بھی خالی رکھا گیا۔
س: آپ کا اقدام خودکشی کا معاملہ کیسے پیش آیا ؟
ج: میں جمعرات کی رات سفر کر کے ملتان سے لاہور پہنچا تھا۔ لاہور میں سپریم کورٹ رجسٹری آیا تو کئی گھنٹے انتظار کیا۔ میں نے سپریم کورٹ کے متعلقہ عملے کو اپنی درخواست پیش کرنے کی کوشش کی۔ لیکن عملے نے میری درخواست بھی وصول کرنے سے انکار کردیا۔ میرا موقف یہ تھا کہ میرٹ پر جو ملازمت میرا حق بنتی تھی وہ مجھے نہ دے کر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ سپریم کورٹ کے اہلکاروں کا موقف تھا کہ اس طرح کی درخواستوں کو ڈیل کرنے کیلئے اسلام آباد میں انسانی حقوق سیل قائم ہے۔ یہ درخواست وہیں جمع ہو گی۔ اس لئے آپ اسلام آباد جائیں۔ میرا اصرار تھا کہ میں رات طویل سفر کر کے لاہور آیا ہوں۔ اب سارا دن میں یہاں رجسٹری میں کھڑا رہا ہوں۔ مجھے اسلام آباد کی راہ نہ دکھائو۔ لیکن میری ایک نہ سنی گئی۔ جب چیف جسٹس عدالت سے باہر نکلے تو میں نے ان سے استدعا کی میرے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ چیف جسٹس نے میری درخواست سنی لیکن فرمایا کہ یہ معاملہ انسانی حقوق کا نہیں۔ قواعد اور میرٹ کی مبینہ خلاف ورزی کا ہے۔ اس لئے آپ اس کے خلاف باضابطہ طور پر عدالت میں رٹ دائر کریں۔ یہ سن کر میں دکھی ہوا اور رات کو ایک ہاسٹل میں ٹھہرا۔ اگلے روز میں نے صبح سویرے پیٹرول کی ایک بوتل لی اور سپریم کورٹ رجسٹری پہنچ گیا۔
س: کیا آپ کے ساتھ کوئی اور امیدوار بھی تھا جس کو میرٹ پر ملازمت نہ ملی تھی؟
ج: نہیں میں اکیلا ہی تھا۔
س: کیا آپ اپنے اہل خانہ کو اپنے اس ارادے سے آگاہ کر کے آئے تھے۔
ج: نہیں، یہ اچانک سوچا تھا۔
س: کیا آپ شادی شدہ ہیں ؟
ج: نہیں ابھی شادی نہیں ہوئی۔ میرے والدین حیات ہیں پانچ بھائیوں سے سب سے چھوٹا ہوں۔
س: کیا آپ وکالت کی پریکٹس کرتے ہیں ؟
ج: جی ہاں میں ملتان کی ڈسٹرکٹ بار کا ممبر ہوں۔
س: اگر اپ خود وکالت کرتے ہیں پھر بطور وکیل اور بطور ایک مسلمان وکیل آپ نے سوچا تو ہو گا کہ خودکشی کرنا کیسا ہوتا ہے؟
ج: جی ہاں میں نے غلط کیا۔ ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔ مگر آپ خود کو میری جگہ پر رکھ کر دیکھیں۔ میرے ساتھ امتیازی سلوک کرتے ہوئے مجھے ملازمت سے محروم رکھا گیا تھا۔ اس لئے میں دکھی ہو کر اس پر مجبور ہوگیا۔
س: آپ کی خودکشی کی کوشش ناکام کیسے ہوگئی ؟
ج: میں نے اپنے کپڑوں پر پیٹرول ڈال لیا تھا۔ اسی دوران تھوڑی دیر میں ایک میڈیا مین میرے پاس آیا۔ اس نے کہا آپ کے کپڑوں سے پیٹرول کی بو آ رہی ہے۔ میں نے کہا یہ جو دستاویزات ہیں ان سے آ رہی ہے۔ اس پر میڈیا والا شاید مطمئن نہیں ہوا اور شاید اسی نے پولیس کو بتا دیا کہ میرا ارادہ خودکشی کا ہے، اس پر مجھے گرفتار کر لیا گیا۔ میں کہتا ہوں قانون سب کیلئے ایک جیسا ہونا چاہئے۔
س: عثمان بزدار کے وزیراعلیٰ پنجاب بننے سے جنوبی پنجاب کا احساس محرومی کچھ کم ہو سکے گا ؟
ج: اس سے صرف یہ ہوا ہے کہ موروثی سیاست کے خاتمے کا آغاز ہوا ہے۔ امتیازی برتائو ختم کرنے کیلئے ابھی اور بہت کچھ کرنا ہوگا۔
٭٭٭٭٭