ایران کی شاہراہوں کو 7 گریڈوں میں تقسیم کیا گیا ہے

0

دوسرے روز یعنی تین مارچ 2002ء کو میں ہاسٹل میں ناشتے کے بعد اپنا کیمرہ لے کر چہار باغ کے خوب صورت علاقے کی آخری سیر کو نکل گیا۔ زیادہ وقت بہرحال چہار باغ پارک ہی میں گزارا اور مزید تصویرکشی کی۔ واپس آیا، سامان باندھا، ہاسٹل کی ادائیگی کی اور بذریعہ ٹیکسی اصفہان کے جنرل بس اسٹینڈ پر جاپہنچا اور ’’شرکت مسافر بری ایران خطوط اصفہان‘‘ کی خوب صورت اور آرام دہ ایئر کنڈیشنڈ بس کا تہران کا ٹکٹ صرف تیرہ ہزار ریال میں خرید کر اس میں سوار ہو گیا۔ اغلباً یہ بس کمپنی حکومت ایران کی ملکیت تھی۔ بس سوا بارہ بجے دوپہر اصفہان سے روانہ ہوئی اور ایران کی نہایت شاندار اور ہماری اسلام آباد لاہور موٹر وے جیسی شاہراہ پر دوڑتی ہوئی ساڑھے چھ بجے شام تہران کے جنرل بس اسٹینڈ پر پہنچ گئی۔ بس نے درمیان میں صرف ایک پڑائو ایک بڑے ریستوران پر کیا، جہاں واش روم اور نماز کی آسانی مہیا تھی، مگر کھانا بہت مہنگا اور غیر معیاری تھا۔ ایران کی یہ شاہراہ جس کے کچھ حصے پر میں نے سفر کیا، شیراز سے شروع ہوتی ہے اور اصفہان، قم اور تہران ہوتی ہوئی صوبہ خراسان کے مشہور تاریخی شہر سبزوار پر ختم ہوتی ہے۔ اس طرح یہ شاہراہ تقریباً 1690 کلو میٹر طویل ہے۔ یہاں یہ عرض کر دینا مناسب ہو گا کہ راقم الحروف نے ایران کی جس شاہراہ کو نہایت شاندار کے لقب سے یاد کیا ہے اور جس کو پاکستان کی اسلام آباد لاہور موٹروے جیسی شاہراہ لکھا ہے وہ شاہراہوں کی ایرانی گریڈنگ کے لحاظ سے کہیں دوسرے اور کہیں تیسرے گریڈ کی شاہراہ ہے۔ ایران میں سڑکوں کو سات گریڈوں میں تقسیم کیا گیا ہے جو حسب ذیل ہیں۔
گریڈ 1: آزاد راہ۔ گریڈ 2: بزرگ راہ۔ گریڈ 3: راہ آسفالتہ اصلی۔ گریڈ 4: راہ آسفالتہ فرعی۔ گریڈ 5: راہ شنی۔ گریڈ 6: راہ خاکی۔ اور گریڈ 7: سایرراہ ہا۔
اپنی روداد کی طرف واپس پلٹتے ہوئے یہ بات قارئین کے گوش گزار کرنا غیر ضروری نہ ہو گا کہ وہ بس جس سے راقم الحروف اصفہان سے تہران پہنچا تھا، اس روز کچھ جلدی ہی اپنی منزل پر پہنچ گئی تھی۔ وجہ تھی عید غدیر، جو ایران میں چھٹی کا دن ہوتا ہے اور لوگ اس مذہبی تہوار کو اپنے خاندان کے ساتھ اپنے گھر میں ہی منانا پسند کرتے ہیں۔ ایران میں سڑک سے سفر میں تاخیر کی ایک بڑی وجہ وہاں جگہ جگہ پولیس کی تفصیلی چیکنگ ہے۔ سو عید غدیر کے طفیل اس سے بھی جان چھوٹ گئی تھی کہ پولیس والوں کو بھی تو اپنی فیملی کے ساتھ عید غدیر منانی تھی۔
تہران ٹرمینل پر میں نے ایک شریف النفس ٹیکسی ڈرائیور سے حسب معمول عرض کیا کہ میں ایک پاکستانی سیاح ہوں اور پہلی دفعہ تہران میں وارد ہوا ہوں، برائے مہربانی مجھے کسی مناسب مہمان خانے میں پہنچا دیں جو صاف ستھرا ہو اور کرایہ بھی مناسب ہو۔ اس شریف آدمی نے کہا کہ بالکل فکر مت کیجئے، میں آپ کو ایک اچھے مہمان پذیر میں پہنچا دوں گا، آپ وہاں کے کمرے سے اور وہاں کے کھانے سے انشاء اللہ مطمئن ہوں گے۔ اور ایسا ہی ہوا۔ اس نیک بخت نے مجھے ریلوے اسٹیشن کے قریب واقع مہمان پذیر زنجان فیروزکوہ کی ملحقہ عمارت میں چالیس ہزار ریال فی یوم کرایہ پر پہلی منزل پر واقع دو بیڈ والا کمرہ دلا دیا۔ یہ کمرہ مہمان پذیر کے مرکزی حرارتی نظام سے جڑا ہوا تھا۔ اس میں ٹیلی فون کی آسانی بھی تھی۔ مگر کمرے میں نہ واش ہینڈ بیسن تھا نہ ملحقہ غسل خانہ۔ اس کے باوجود مجھے کمرہ اور اس کا محل وقوع پسند آیا۔
یہ مہمان پذیر آذربائیجانی لوگوں کا تھا۔ یہاں اطلاعاً عرض کرتا چلوں کہ ایک تو آذربائیجان ایک ملک ہے، جو ایران کے شمال مغربی کونے کے شمال میں واقع ہے۔ دوسرے اسی ملک سے ملحق بجانب جنوب ایران کے اپنے دو عدد صوبے بھی اسی نام سے اپنا وجود رکھتے ہیں، یعنی آذربائیجان شرقی اور آذربائیجان غربی۔ اور یہ دونوں صوبے صرف نام کے ہی آذربائیجان نہیں ہیں، بلکہ ان میں رہنے والے بھی اپنی تمام رسوم و رواج اور لباس کے ساتھ آذربائیجان قوم کے لوگ ہی ہیں اور بڑے اچھے لوگ ہیں۔ یہ عام ایرانیوں سے خاصے مختلف ہیں۔ ہمارے پٹھان بھائیوں کی طرح قمیض شلوار اور واسکٹ پہنتے ہیں۔ مگر سر پر چترالی ٹوپی یا پٹھانوں کے روایتی کلاہ و صافحے کی جگہ قراقلی ٹوپی (ہماری جناح کیپ) پہنتے ہیں۔ عام طور پر نرم گو، نرم خو اور خوش مزاج لوگ ہیں۔ کھانے پینے کے شوقین ہیں۔ ان کے ہوٹلوں اور ریستورانوں میں صفائی، قرینے اور اشیائے خوردنی کی تازگی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آذربائیجان شرقی اور آذربائیجانی غربی پہلے دراصل آذربائیجان ملک کے ہی حصے تھے۔ ماضی میں ایران کی عظیم الشان سلطنت کے کسی طاقتور بادشاہ نے انہیں ملک آذربائیجان سے بزور شمشیر چھین کر مملکت ایران کے ’’اٹوٹ انگ‘‘ بنا لیے، مگر اتنی مہربانی کی کہ وہاں کے لوگوں کے اصرار پر ان کے علاقوں کے نام آذربائیجان ہی رہنے دیا۔
مہمان پذیر زنجان فیروزکوہ کے ریستوران میں آذربائیجانی ناشتے میں آپ کو جو کچھ مختلف اشیا مل سکتی ہیں وہ شیشے کے خاصے لمبے شوکیس میں صاف شفاف چینی یا شیشے کے پیالوں اور پلیٹوں میں قرینے سے رکھی ہوئی ہیں اور آپ کو ہوٹل کے سروس بوائے سے پوچھنے کی ضرورت نہیں کہ ناشتے میں کیا کیا مل سکتا ہے؟ سب سے نمایاں اور میری دل پسند اشیا دو اقسام کے شہد تھے۔ ایک چھتے سے نکال کر صاف کیا ہوا اور دوسرا چھتے کے ساتھ ہی۔ ملائی کا پیالہ آذربائیجانی نان اور سبز چائے۔ میں نے آذربائیجانی نان، ملائی، چھتے کے ساتھ شہد اور سبز چائے کی درخواست کی اور پھر آذربائیجانی ناشتے سے بے حد لطف اندوز ہوا۔ ابھی تک ایران کے کئے گئے ناشتوں میں یہ میرا سب سے اچھا ناشتہ تھا۔ ریستوران میں ایک دو صاحبان نے مجھے آذربائیجانی سمجھ کر بے تکلف بات چیت شروع کر دی۔ میں نے انہیں بتایا کہ بھائی میں ایک پاکستانی ہوں اور آپ کی بات پوری طرح سے سمجھ نہیں پایا۔ اس پر انہوں نے پہلے تعجب کا اظہار کیا پھر معذرت کی۔
ناشتے کے بعد میں نے مہمان پذیر کے منیجر کے دفتر میں آویزاں تہران کے تفصیلی نقشے کا معائنہ کیا اور پھر منیجر صاحب سے مختلف جگہوں اور وہاں پہنچنے کے ذرائع کے بارے میں بات چیت کی۔ مجھے یہ جان کر بڑی خوشی ہوئی کہ میرے مہمان پذیر کا جائے وقوع بہت ہی اچھا تھا اور میں وہاں سے اپنے تمام اہداف پر بہ آسانی جا سکتا تھا۔ بس یوں سمجھئے کہ میں لاہور ریلوے اسٹیشن پر واقع ہوٹل کلفٹن یا پارک وے ہوٹل میں (آسٹریلیا مسجد کے سامنے) ٹھہرا ہوا تھا اور میرے اہداف تھے انارکلی بازار، مال روڈ، فیروز پور روڈ اور گلبرگ۔ میرے مہمان پذیر کے آس پاس بہت سے ٹھنڈے مشروبات بشمول آئسکریم، ملک شیک، فاسٹ فوڈ کی دکانیں و کھوکھے تھے، جہاں گاہکوں کا ہجوم رہتا اور خوب رونق لگی ہوتی تھی۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More