عمران خان
ایران کے شہر چاہ بہار سے ہونے والی 9 ارب روپے کی اسمگلنگ میں حوالہ ہنڈی، ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ میں مسلم کمرشل بینک کے ’’روپیز ٹریولر چیک‘‘ استعمال ہونے کا انکشاف ہوا ہے، جن کے ذریعے کئی برسوں تک جاری رہنے والی اس غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث مافیا نے ایران سے لاکھوں لیٹرز تیل اور ڈیزل منگوا کر کراچی سمیت ملک بھر میں فروخت کیا اور اس کے بدلے پاکستان سے چاول اور مویشی ایران اسمگل کئے جاتے رہے۔ تاہم اس کیس کو نامعلوم وجوہات کی بنا پر ٹھپ کردیا گیا، جس کی وجہ سے منی لانڈررز اور اسمگلر مافیا بے نقاب ہونے سے بچ گئی۔ ذرائع کے مطابق پاکستان سے غیر قانونی طور پر اربوں روپے مالیت کے چاول بغیر ٹیکس ادائیگی کے ایران اسمگل کئے جانے کے اسکینڈل پر ایف آئی اے اسٹیٹ بینک سرکل میں ایک برس قبل تحقیقات شروع کی گئی تھیں، جس میں ایک گرفتاری عمل میں لائی گئی تھی۔ تحقیقات میں انکشاف ہوا تھا کہ کراچی کے علاقے ملیر کے ایک رہائشی کے اکائونٹ میں 9 ارب روپے کی ٹرانزیکشن ہوئی ہے۔ اس مافیا نے پاکستان اور ایران سے رقم کے لین دین کیلئے مسلم کمرشل بینک کے ’’RUPEE TRAVELLER CHEQUES (RTC)‘‘ استعمال کئے تھے۔ گرفتار شخص کے اکائونٹ میں جو رقم آتی رہی، وہ در اصل اسمگلنگ کے ذریعے حاصل ہونے والا منافع تھا، جو بعد ازاں ان افراد کو تقسیم کیا جاتا رہا جو اس دھندے میں ملوث تھے۔ ان میں پنجاب میں قائم 25 سے زائد چاولوں کے کارخانوں کے مالکان بھی شامل ہیں۔ ذرائع کے بقول اس کیس کی تحقیقات کا دائرہ جب پنجاب میں قائم فیکٹری مالکان اور ایم سی بی بینک کے اعلیٰ حکام تک پھیلایا گیا اور انہیں تحقیقات کے لئے طلبی کے نوٹس بھیجنا شروع کئے گئے تو ایف آئی اے افسران کو مختلف ذرائع استعمال کرکے ڈرایا دھمکایا جانے لگا۔ ذرائع کے بقول رقم کی لین کیلئے ایم سی بی بینک کے جو ’’روپیز ٹریولر چیکس‘‘ استعمال کئے جاتے رہے، یہ خصوصی طور پر چھپوائے جاتے ہیں اور ان پر براہ راست گروپ ہیڈ یعنی میاں منشا کے دستخط ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے تحقیقات میں ممکنہ طور پر ان سے براہ راست پوچھ گچھ کی جانی تھی۔ تاہم اس وقت مسلم لیگ ن کی حکومت تھی اور ایف آئی اے حکام کو ملنے والی ہدایات کے بعد تحقیقات کو ادھورا چھوڑنے اور بے ضرر رخ دے کر کیس کو ڈسپوز کرنے کی کارروائی شروع کی گئی۔
ذرائع کے مطابق ایم سی بینک کے روپیز ٹریولر چیکس کی سہولت 1993ء میں شروع کی گئی تھی، جس میں شہریوں کو سہولت دی گئی کہ وہ بینک کی مقررہ شاخوں میں جاکر نقد رقم دے کر آر ٹی سی حاصل کرسکتے ہیں، جو ابتدائی طور پر 10 ہزار سے 50 ہزار مالیت کے رکھے گئے۔ یہ چیک خصوصی پرنٹنگ اور فیچرز کے حامل ہوتے ہیں اور ان کی نقل نہیں ہوسکتی۔ اس کے علاوہ یہ دس برسوں تک کسی بھی منتخب کردہ برانچوں سے کیش ہو سکتے ہیں۔ ایم سی بی بینک کی 900 برانچیں یہ سہولت فراہم کرتی ہیں۔ اس ضمن میں اسٹیٹ بینک کی جانب سے ایک تنبیہی لیٹر بھی جاری کیا گیا کہ روپیز ٹریولر چیک کی سہولت ایسے شہریوں کیلئے ہونی چاہئے جو سفر کرتے ہیں اور اس دوران نقد کیش رکھنا محفوظ نہیں سمجھتے۔ تاہم چونکہ یہ سہولت بغیر دستاویز رقم کی منتقلی کا ذریعہ بن رہی ہے، اس لئے مذکورہ سہولت منی لانڈرنگ کیلئے استعمال ہونے کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ اس حوالے سے اسٹیٹ بینک کی جانب سے خصوصی ہدایات بھی جاری کی گئیں کہ جنہیں یہ آر ٹی سی جاری کی جائیں ان کا مکمل ریکارڈ اور ان کی کمپنیوں کا این ٹی این نمبر سمیت ہر ضروری ریکارڈ رکھا جائے اور جو لو گ 5 لاکھ سے زائد کی رقم آر ٹی سی کی صورت میں خرید لیں، ان کی خصوصی مانیٹرنگ بھی کی جائے۔
ذرائع کے بقول ابتدائی طور پر یہ سہولت ایشیا میں موجود بینک کی مقرر کردہ برانچوں سے کہیں سے بھی حاصل کرنے کی آسانی تھی۔ تاہم بعد ازاں اس کو دستاویزی طور پر صرف پاکستان میں کیش کرنے تک محدود کردیا گیا۔ اسمگلنگ اور منی لاندرنگ کے اس کیس کے حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ تفتیشی افسر کے تبادلے کے بعد اسمگلنگ میں ملوث فیکٹری مالکان اور بینک انتظامیہ کے خلاف تحقیقات روک دی گئیں، جس کی وجہ سے اہم نیٹ ورک بے نقاب نہ ہوسکا جبکہ کیس کی تحقیقات کو ملیر سے گرفتار ہونے والے شخص تک محدود کرکے اس کا حتمی چالان پیش کردیا گیا اور اس ملزم کو بھی ’’پلیڈ گلٹی‘‘ کرواکر کیس نمٹا دیا گیا ۔
ذرائع کے بقول مافیا میں ملوث فیکٹری مالکان اور آر ٹی سی جاری کرنے والے بینک افسران نے خود کو کیس سے نکالنے کیلئے سابقہ حکومت کے آخری برس ایف آئی اے کے کراچی میں موجود ایک ایڈیشنل ڈائریکٹر سے بعض سرکاری اور سیاسی شخصیات کے توسط سے رابطے کئے اور ایک میٹنگ کے بعد تحقیقات کو التوا میں ڈالنے میں کامیاب ہوگئے جس کے بعد ایف آئی اے کی جانب سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس کیس کو دو حصوں میں تقسیم کردیا جائے۔ ایک حصے میں ملوث چاول کی فیکٹریوں کے مالکان کا ٹیکس چوری کا کیس ایف بی آر کو بھجوادیا جائے اور دوسرے حصے میں بینک کے حوالے سے تحقیقات کیلئے ایک علیحدہ انکوائری شروع کردی جائے، جس کے بعد ایسا ہی کیا گیا اور ایک اے کیٹگری کی انکوائری شروع کرنے کیلئے سابق ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ سے درخواست کی گئی اور انکوائری مارک کرنے کے بعد اسے آہستہ آہستہ آگے بڑھایا گیا۔ تاہم چند ماہ سے اس انکوائری پر کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے اور ایف آئی اے افسران مناسب وقت کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ اس انکوائری کو تیزی سے آگے بڑھانے کیلئے سازگار حالات میسر آسکیں۔
اس کیس کے حوالے سے کام اس وقت شروع کیا گیا تھا جب ایران کے علاقے چاہ بہار سے چلائے جانے والے ایک ایسے نیٹ ورک کا سراغ لگایا گیا، جو پاکستان سے اربوں مالیت کے چاول منگواتا ہے۔ تحقیقات میں سامنے آیا تھا کہ چاہ بہار سے کراچی کے علاقے ملیر میں قائم بینکوں کے 5 اکائونٹس میں اربوں روپے منتقل ہوتے رہے۔ ملیر میں موجود بینک اکائونٹس میں اربوں روپے گوادر، تربت اور بلوچستان کے دیگر شہروں میں قائم بینکوں سے حاصل کردہ آر ٹی سی یعنی روپیز ٹریول چیک کی مدد سے جمع کروائے جاتے رہے۔ ایران سے پاکستان میں چلنے والے اس نیٹ ورک کے خلاف ایف آئی اے کو مشکوک بینک ٹرانزیکشن کی صورت میں اطلاعات موصول ہوئی تھیں، جس پر ایف آئی اے نے انکوائری شروع کی۔ مذکورہ انکوائری میں ایف آئی اے اسٹیٹ بینک کے افسر انسپکٹر اعجاز علی شاہ نے جب تحقیقات کا آغاز کیا تو انکشاف ہوا کہ چاہ بہار اسمگلنگ نیٹ ورک میں ایرانی تیل پاکستان اسمگل کیا جاتا ہے اور اسی کے عوض پاکستان سے چاول ،آٹا ،گنا اور کپاس سمیت دیگر اشیاء غیر قانونی طور پر ایران منتقل ہوتی ہیں۔ اہم شواہد سامنے آنے پر انسپکٹر اعجاز علی شاہ نے اپنی ٹیم کے ہمرا کراچی کے علاقے ملیر سے زبیر ولد حاجی لال بخش کو گرفتارکیا۔ مذکورہ شخص کے ایسے 5 اکاوئنٹس پر تحقیقات شروع کی گئیں، جس سے بھاری مالیت کی ٹرانزیکشن سامنے آئی ہیں۔ جب مذکورہ اکاوئنٹس پر تحقیقات شروع ہوئیں تو معلوم ہوا کہ حبیب بینک دیہہ ملاح برانچ ملیر میں بلوچ اینڈ کمپنی کے ٹائٹل سے موجود اکاوئنٹ نمبر 03547900077003، مذکورہ بینک میں زبیر نامی شخص کے اکاوئنٹ نمبر 03540018121503، ملیر سٹی میں واقع یونائٹیڈ بینک لمیٹڈ میں زبیر کے نام سے موجود اکاوئنٹ نمبر 200612616، مسلم کمرشل بینک ملیر سٹی برانچ میں موجود بلوچ اینڈ کمپنی کے نام سے موجود اکاوئنٹ نمبر 462347571002511 اور مذکورہ برانچ میں زبیر نامی شخص کے اکاوئنٹ نمبر 462347531001109 میں ساڑھے 8 ارب کی ٹرانزیکشن کے ثبوت ملے، یہ رقم ایران سے اسمگل ہو کر پاکستان آنے والے تیل کے عوض پاکستانی اسمگلروں اور ڈیلروں سے وصول کی گئی اور پھر اسی رقم کو ٹریول ٹرانزیکشن یا حوالہ کے نیٹ ورک کے ذریعے ایران منتقل کردیا گیا۔ اس طرح سے ملکی معیشت کو ٹیکس کی مد میں اربوں کا نقصان پہنچایا گیا۔ ٭
٭٭٭٭٭