کراچی(رپورٹ : سید نبیل اختر)نیب نے سول ایوی ایشن اتھارٹی میں گزشتہ 10 سالوں کے دوران کی گئی بھرتیوں کی تحقیقات کا آغاز کردیا۔باچا خان انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی توسیع ‘ تزئین و آرائش پر ہونے والے اخراجات اور بھرتیوں کا ریکارڈ بھی مانگ لیا ۔بے ضابطگیوں کی شکایات پر ٹھیکوں اور ادائیگیوں کی تفصیلات بھی طلب کرلی ہیں ۔اہم ذرائع نے بتایا کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی میں 2008سے اب تک کی جانے والی مستقل اور کنٹریکٹ بھرتیوں کی تحقیقات کا آغاز کرتے ہوئے نیب حکام نے سی اے اے سے ریکارڈ مانگ لیا ہے۔ذرائع نے بتایا کہ نیب کی جانب سے لکھے گئے مکتوب میں سی اے اے حکام سے 2008سے اب تک بھرتی ہونے والے مستقل اور کنٹریکٹ ملازمین کا ڈیٹا طلب کرلیا ہے ،جس میں بھرتی ہونے والے ملازمین کے قومی شناختی کارڈ کا نمبر ،اس کی تعلیمی قابلیت سے متعلق دستاویزات ،بھرتی کی تاریخ ،بھرتی کی اسامی کی صورت حال ،بھرتی کا کیڈر اور اب ان ملازمین کا عہدہ بھی پوچھا گیا ہے کہ وہ دس سالوں کے دوران ترقی کرکے کن عہدوں پر براجمان ہیں۔’’امت ‘‘کو سی اے اے ذرائع نے بتا یا کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی میں سرکاری سطح پر ملازمتوں پر پابندی کی وجہ سے بڑے پیمانے پر ملازمتیں نہیں دی جاسکیں ،تاہم پروجیکٹس میں اندھا دھند بھرتیاں کی گئیں اور اس سلسلے میں سابقہ حکومت سے خصوصی منظوری بھی حاصل کی جاتی رہی ہیں۔سی اے اے حکام نے بھاری مشاہروں پر بھرتیاں کیں، جس سے سرکاری خزانے کو نقصان پہنچا ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ بھرتیوں میں سی اے اے انتظامیہ نے مؤقف اختیار کیا کہ تنخواہوں کا معاملہ مارکیٹ ویلیو کے مطابق دیکھا گیا ہے ،جس کی وجہ سے ان افراد کی تنخواہیں سی اے اے کے مستقل ملازمین کی تنخواہوں سے زیادہ مقرر ہوئیں ۔امت کو سی اے اے ذرائع نے بتایا کہ انتظامیہ نے نیب تحقیقات سے بچنے کے لیئے کنسلٹنٹ کمپنیوں کو ہائر کیا اور انہیں اتنی ادائیگیاں کی گئیں، جس پر وہ قانون کی گرفت سے بچ جائیں۔معلوم ہوا ہے کہ 2017میں سول ایوی ایشن اتھارٹی نے اپنی لیگل ٹیم کے تجربہ کار افسران کو کھڈے لائن لگانے کے بعد میسرز اے بی ایس اینڈ کو ماہوار 20لاکھ 80ہزار روپے ادائیگی کا فیصلہ کیا اور ٹھیکے کی منظوری کے لیئے منٹس ایگزیکٹیو کمیٹی کو بھی بھجوائے تاکہ آڈٹ اعتراض سے بچا جاسکے ‘2فروری 2017کو جاری ہونے والے ایک مکتوب نمبر HQCAA/2687/005/HROD/Iمیں کہا گیا کہ 21دسمبر 2016کو لیگل کنسلٹنسی حاصل کرنے کے لیئے ٹینڈر کا اشتہار شائع کیا گیا تھا۔ٹینڈر کھولنے کی تاریخ 10جنوری 2017رکھی گئی تھی جس میں ٹیکنیکل کوالی فکیشن کے لیئے 70مارکس لینا ضروری تھے۔ اس سلسلے میں دو کمپنیوں میسرز اے بی ایس اینڈ کو اور میسرز نشتر اینڈ ظفر اینڈ کو نے بولی میں حصہ لیا، تاہم ٹیکنیکل بڈ میں صرف اے بی ایس اینڈ کو نے کوالیفائی کیا ۔نانشیئل بڈ 18جنوری کو کھولی گئی ،جس میں اے بی ایس کمپنی کو بطور لاکنسلٹنٹ شارٹ لسٹ کیا گیا ۔کمپنی نے 25لاکھ روپے ماہانہ کی بولی دی ‘مکتوب میں کہا گیا کہ کمپنی نے خود ہی اپنی بولی کم کرنے پر بھی رضامندی ظاہر کی جس کے تحت کمپنی کو سی اے اے ماہوار 20لاکھ 80ہزار روپے ادا کرے گی۔ اس معاہدے کے تحت کمپنی سی اے اے سے 2سال کے دوران 4کروڑ 99لاکھ 20ہزار روپے وصول کرے گی ۔مذکورہ کمپنی کو ٹھیکہ دینے کے حوالے سے مکتوب میں کہا گیا کہ ڈھائی کروڑ روپے سے زائد کی ادائیگی کا اختیار ایگزیکٹیو کمیٹی کو حاصل ہے لہذہٰ کمیٹی سے مذکورہ ٹھیکہ دینے کی منظوری کے لیئے منٹس مرتب کیئے گئے ہیں تاکہ منظوری ملتے ہی اے بی ایس اینڈ کو سے خدمات حاصل کرنا شروع کی جاسکیں ۔سی اے اے ذرائع نے بتا یا کہ 1982سے سول ایوی ایشن اتھارٹی لیگل ڈیپارٹمنٹ کے ایک درجن سے زائد تجربہ کار افسران خدمات انجام دے رہے تھے‘ جن ملازمین کی ذمہ داری تھی کہ سی اے اے کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے قانونی معاملات میں ڈی جی سی اے اے کو ایڈوائس کریں اور عدالت میں بھی سی اے اے کے مفاد کا تحفظ کریں ۔مذکورہ ٹیم نے اپنی مہارت سے 90فیصد کیسز میں سی اے اے کو فتح سے ہمکنار کیا اور آڈٹ اعتراضات بھی دور کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔لیگل ڈیپارٹمنٹ کے افسران انٹر نیشنل سول ایوی ایشن آرگنائزیشن کی ہدایات کے عین مطابق اپنی ذمہ داریاں انجام دیتے تھے جس کے نتیجے میں سی اے اے فنانس اور لیگل برانچ فنانشیل بے ضابطگیوں سے بچارہا۔ اچانک ایچ آر ڈائریکٹوریٹ نے ایک حکم نامے کے ذریعے لیگل کے تمام افسران کو دیگر ڈائریکٹوریٹ میں بھیج دیا ۔بعد ازاں معلوم ہوا کہ افسران کی دیگر شعبوں میں تبادلے کی وجہ ایک لیگل فرم کو نوازنا تھا۔ذرائع نے بتایا کہ گزشتہ برس ایچ آر انتظامیہ نے اخبارات میں لاءفرم کی خدمات کے حوالے سے اشتہار دیا، جس میں 10نامور کنسلٹنٹ کمپنیوں نے حصہ لیا، تاہم وہ ٹینڈر نامعلوم وجوہات کی بناپر ختم کردیا گیا۔بعدازاں پھر ٹینڈر کے لئے اشتہار دیا گیا تاہم سی اے اے انتظامیہ کی پسندیدہ کمپنی کے نام ٹینڈر نہ کھلنے پر وہ ٹینڈر بھی ختم کردیا گیا۔دو مرتبہ ٹینڈر ختم ہونے کے بعد ایک بار پھر ٹینڈر جاری کیا گیا جس میں 2کمپنیوں نے حصہ لیا ‘ایک کمپنی نے اپنی درخواست واپس لی جس کے نتیجے میں اے بی ایس کمپنی ٹینڈر کی فاتح قرار پائی ‘یہی کمپنی گزشتہ برس سے مختلف سروسز مہیا کرنے کے سلسلے میں سی اے اے سے بھاری رقوم بھی لیتی رہی ہے جس میں سروس ریگولیشن اور ریگولیٹری ریگولیشنز تیار کرنے پر سی اے اے نے فی کس 40لاکھ روپے کی ادائیگی کی تھی جو بعد میں سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج بھی کردی گئی ۔حیرت انگیز طور پر کمپنی نے بڈ کی رقم کو بھی کم کرنے کی بات کی جس پر ایڈیشنل ڈائریکٹر ایچ آر نے مجاز اتھارٹی کو اس سلسلے میں نشاندہی کی کہ کمپنی اپنی دی گئی بڈ کی رقم کو کم کرنے کے لئے بھی تیار ہے ‘مذکورہ معاہدہ غیر قانونی سرگرمی کی طرف اشارہ کررہا تھا کیونکہ پی پی آر اے رولز کے تحت ٹینڈر کھلنے کے بعد بولی کی رقم پر بات چیت نہیں کی جاسکتی ۔ذرائع نے بتا یا کہ نیب سے بچنے کے لئے سالانہ 4کروڑ 99لاکھ روپے کی رقم سامنے آئی جو سی اے اے نے ادا کرنا تھی ۔ذرائع نے بتا یاکہ مذکورہ معاملہ بھی نیب تحقیقات کا حصہ بنے گا اور انتظامیہ کو اس سلسلے میں وضاحت پیش کرنا پڑے گی ‘وہیں نیو اسلام آباد ایئر پورٹ پروجیکٹ میں کی گئی بھرتیوں کی تحقیقات بھی کی جائے گی جس سے قومی خزانے کو نقصان پہنچا یا گیا ‘اس طرح کا ایک معاملہ گزشتہ برس آڈٹ رپورٹ میں سامنے آیا جس میں سی اے اے انتظامیہ کی غفلت کی وجہ سے 54کروڑ روپے کے نقصان کی نشاندہی کی گئی تھی ‘معلوم ہوا کہ سی اے اے کی آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا کہ 2008میں پلاننگ کمیشن حکومت پاکستان کی جاری کردہ پرجیکٹ مینجمنٹ کی گائیڈ لائن کے پیرا 3.30کے مطابق پروجیکٹ کے لیئے پروجیکٹ اسٹاف کی بھرتی اوپن کمپٹیشن اور شفاف طریقے کے ذریعے کی جائے گی ‘مذکورہ بھرتی کے سلسلے میں پروجیکٹ ڈائریکٹر کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی جائے گی جو پرنسپل اکاو نٹس افسر کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن ‘فنانس ڈویژن اور پلاننگ ڈویژن کے اراکین پر مشتمل ہوگی ‘پروجیکٹ اسٹاف کی بھرتی کی ذمہ داری پروجیکٹ ڈائریکٹر کی ہوگی ‘اس کے لیئے کسی دوسرے فورم سے اجازت کی ضرورت نہیں اگر اس حوالہ سے پی سی ون میں منظوری لے لی گئی ہو ۔آڈٹ میں نشاندہی کی گئی کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی نے نیو اسلام آباد انٹرنیشنل ایئر پورٹ کی تعمیر کے مختلف پیکجز میں مختلف ٹھیکے داروں کو ٹھیکے دیئے گئے ‘منصوبے پر 19پیکجز اور 3 کنسلٹنٹ کمپنیوں کے ذریعے کام کروایا جارہا تھا ‘پروجیکٹ کی لاگت مارچ 2008میں 36ارب 86کروڑ 50 لاکھ روپے منظور کی گئی تھی جبکہ پی سی ون میں بڑھاکر 81 ارب 17کروڑ 10لاکھ کردی گئی۔آڈٹ کے مشاہدے میں آیا کہ محمد ارشد آرائیں اور طاہر شریف کو انجینئر اور پروجیکٹ ڈائریکٹر کا مشیر بھرتی کیا گیا۔ڈیلی ویجز پر کی جانے والی مذکورہ بھرتیاں 3اور 4لاکھ روپے ماہوار کے عوض کی گئیں۔آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا کہ مذکورہ بھرتیوں کے لیئے اشتہار بھی شائع نہیں کیا گیا جوکہ رولز کی خلاف ورزی ہے۔اسی طرح سابقہ پروجیکٹ مینجمنٹ کنسلٹنٹ لوئس برجر کے 30ملازمین ماہانہ 11ہزار سے 25ہزار روپے کے حساب سے بھرتی کیئے گئے ‘مذکورہ بھرتیوں میں بھی قواعد کے برخلاف کی گئیں ،آڈٹ میں کہا گیا کہ مذکورہ بھرتیوں کی وجہ سے منصوبے کی تکمیل کی مجوزہ تاریخ جون 2016تک 54کروڑ 40ہزار روپے کی ادائیگیاں کی گئیں ۔آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ بھرتیاں متعلقہ قوانین اور قاعد وضوابط کے نفاذ کے لیے ناکافی نگرانی کے طریقہ کار اور کمزور اندرونی کنٹرول کا سبب ہے ۔آڈٹ نے قواعد کے برخلاف بھرتیوں کی نشاندہی نومبر 2014میں کی تھی تاہم سی اے اے انتظامیہ نے اس سلسلے میں کوئی جواب نہ دیا۔ مذکورہ معاملہ 14جنوری 2015کے ڈیپارٹمنٹل آڈٹ کمیٹی کے اجلاس میں زیر بحث آیا ‘جس پر سی اے اے انتظامیہ نے جواب دیا کہ میسرز لوئس برجر کی خدمات خراب کارکردگی کی وجہ سے ختم کردی گئی ہے ‘انجینئر اور اسٹاف کی بھرتیاں کام چلاو بنیاد پر کی گئی تھی جس پر آڈٹ نے کہا کہ انجینئر اور پروجیکٹ ڈائریکٹر کے مشیر کی بھرتی کے لیئے اخبار میں اشتہار نہیں دیا گیا ‘مشیر کے لیئے پی سی ون میں منظوری بھی نہیں لی گئی ‘جبکہ 30اسٹاف کی بھرتی کے لیئے بھی قواعد کا خیال نہیں رکھا گیا ‘آڈٹ نے سول ایوی ایشن اتھارٹی کو اس بات کا پابند کیا کہ پلاننگ کمیشن کی طے کردہ ہدایات کے مطابق بھرتیوں کو قانونی دائرے میں لانے کے لیئے اقدامات کیئے جائیں ‘آڈٹ نے یہ بھی ہدایت کی ڈیلی ویجز بھرتی کیئے گئے ملازمین کی خدمات فوری طور پر بند کی جائیں تاہم انتظامیہ نے اس سلسلے کوئی قدام نہیں اٹھایا۔سی اے اے ذرائع کا کہنا ہے کہ نیب اس سلسلے میں بھی تحقیقات کرے گا ‘دوسری جانب پشاور کے باچہ خان ایئر پورٹ کی توسیع اور تزئین و آرائش پر ہونے والے اخراجات ‘ٹھیکوں کی تفصیلات بھی نیب حکام نے سی اے اے سے طلب کی ہیں۔ معلوم ہوا کہ سی اے اے حکام نے مذکورہ ہوائی اڈے پر ڈیڑھ ارب روپے کے اخراجات کرنا تھے تاہم یہ بڑھ کر ساڑھے 5ارب روپے پر پہنچ گئے ۔نیب حکام نے سی اے اے انتظامیہ سے مذکورہ ہوائی اڈے کے لیئے ہونے والے ٹینڈرز اور دیگر دستاویزات بھی مانگ لی ہیں۔