کراچی (اسٹاف رپورٹر ) سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو ریلیف ملتے ہی ملیر میں ایک بار پھر ریتی بجری مافیا سرگرم ہو گئی ۔7 تھانوں کی حدود میں رات کی تاریکی میں ریتی بجری مافیانے پولیس کی کالی بھیڑوں کی ملی بھگت اور بھاری رشوت کے عوض ایس ایس پی ملیر عدیل چانڈیو کی جانب سے بند کرائے گئے ریتی بجری کے دھکےپھر چلانے شروع کر دیئے ایک بار پھر سے رات 12 بجے سے صبح 6 بجے تک ریتی بجری کی چوری شروع ہو گئی ہے ۔ ملیر کی سکھن ندی، ملیر ندی، تھدو ندی،خاصخیلی گوٹھ، رہڑی گوٹھ،سوڈا فیکٹری سے متصل علاقوں کے علاوہ شاہ لطیف، گڈاپ، میمن گوٹھ ،بن قاسم ،اسٹیل ٹاو ن پولیس ، ریتی بجری مافیا اور ڈمپر مالکان کے خفیہ معاہدے تحت رات 12 بجے سے صبح 6 بجے تک بڑی تعداد میں ریتی بجری چوری کی جا رہی ہے ۔ملیر کے علاقے سے چوری ریتی بجری رات میں سپلائی کی جاتی ہے ، جبکہ ریتی بجر ی کے ڈمپروں سے متعلقہ تھانوں کی ناکوں پر تعینات پولیس موبائل کے اہلکار بھی فی ڈمپر 200 روپے وصول کرتے ہیں ، جہاں سے ریتی بجری اور سیمنٹ کے بلاک بنا کر ملیر سمیت شہر کےمختلف علاقوں میں فروخت کئے جا رہے ہیں۔ علاقہ مکینوں نےکہا کہ ایس ایس پی ملیر کو مقامی پولیس اندھیرے میں رکھ رہی ہے۔ انہیں معلوم ہی نہیں کہ ایک رات میں کروڑ پتی بننے والے پولیس اہلکار دوبارہ سرگرم ہوگئے ہیں۔ متعدد تھانوں سے تبدیل کئے گئے ایس ایچ اوز میں اکثر سابق ایس ایس پی راؤ انوار کے دور میں ایس ایچ او ز رہ چکے ہیں ،زرائع کے مطابق مذکورہ ایس ایچ اوز سے بہتری کی توقع نہیں ہے ۔ واضح رہے کہ راو انوار نے دس سال میں ضلع ملیر سے اربوں روپے کی بجری چوری کرائی ہے ، 7 تھانوں کے نجی بیٹرز ریتی بجری چوروں کی راؤ انوار سے معاملات طے کراتے تھے جس کے بعد ریتی بجری سپلائی کی جاتی تھی ،متعلقہ تھانوں کے بیٹرز یومیہ کی بنیاد پر لاکھوں روپے ریتی بجری چوری کرنے والے ٹھکیداروں سے وصول کرتے ہیں،’’امت‘‘ کومعلوم ہوا تھا کہ سابقہ ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کے پرائیویٹ بیٹر وقار نے 7 تھانوں کی حدود میں ریتی بجری کے ٹھیکے دیئے ہوئے ہیں،جن میں سائٹ سپر ہائی وے ،سہراب گوٹھ ،ملیر سٹی ،شاہ لطیف ٹاو ن ،سکھن ،شرافی گوٹھ اور میمن گوٹھ کے تھانے شامل ہیں ،ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ تھانوں کی حدود سے رات کی تاریکی میں متعلقہ تھانے کی مکمل سرپرستی میں ریتی بجری چوری کی جاتی رہی ہیں ،ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ میمن گوٹھ تھانے کی حدود سے ریتی بجری چوری کا نیٹ ورک پولیس اہلکار زوالفقار چلاتا ہے ،متعلقہ تھانے کی حدود سے رات میں 70 سے زاہد ڈمپر ز ریتی بجری چوری کی جاتی ہے ،جبکہ شاہ لطیف ٹاو ¿ن تھانے کی حدود سے خائستہ گل نامی شخص نے ریتی بجری کا ٹھیکہ لے رکھا ہے ،جو کہ شاہ لطیف ٹاؤن کے سیکٹر 21-D رزاق آباد سے رات کی تاریخی میں 40 سے زاہد ریتی بجری کے ڈمپر چوری کئے جاتے ہیں ،مزکورہ دونوں تھانوں کی حدود سے نکلنے والی ریتی بجری کی بیٹ شاہ لطیف تھانے کی پولیس چوکی خلدآباد کا بیٹر پولیس اہلکارعمران اللہ وصول کرتا ہے ، جو کہ وقار بیٹر کا خاص بندا بتایا جاتا ہے ،زرائع سے معلوم ہوا ہے کہ سائٹ سپر ہائی وے تھانے کی حدود میں نور گل نامی شخص نے سابقہ ایس ایچ او انار خان کے زریعے وقار سے ریتی بجری چوری کی سیٹنگ کروائی تھی ،جس کے بعد نور گل یومیہ کی بنیادوں پر ناردرن بائی پاس کے اطراف سے رات کی تاریکی میں 100 سے زائد سنگل اور ڈبل ڈمپروں میں ریتی بجری کا نیٹ ورک چلا رہا ہے ،جس کی بیٹ جاوید بیٹر وصول کرتا ہے،سہراب گوٹھ کی حدود میں ریتی بجری کا ٹھیکہ رؤف نے لیا ہوا ہے ، جو کہ گلشن معمار کا رہائشی ہے ،رؤف گڈاپ ندی سے رات میں تقریبا 80 کے قریب ریتی بجری کے ڈمپرچوری کرتا ہے ،جس کی بیٹ الآصف اسکوائر چوکی کا ہلکار یونس لیتا تھا،ملیر سٹی تھانے کی حدود میں رحمان نامی شخص نے ریتی بجری کا تھیکہ لے رکھا ہے ،ملیر ندی صالح گوٹھ سے متصل میمن گوٹھ کے ایریا سے رات 11 بجے سے صبح 6بجے تک 50 سے زائد ڈمپر ریتی بجری چوری کی جاتی ہے ،جس کی بیٹ پولیس اہلکار اقبال عرف بالا وصول کرتا ہے ،ذرائع کا کہنا تھا کہ سکھن د میں ریتی بجری کا نیٹ روک تاج نامی شخص چلا رہا ہے ،ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ سکھن تھانے کی حدود شہریارٹاو ن، خاصخیلی گوٹھ ،لٹ بستی کے ایریا سے رات کی ریتی بجری 50 سے زاہد ڈمپرز چوری کئے جاتے ہیں ،شرافی گوٹھ تھانے کی حدود سے صمد نے ریتی بجری کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے ،جو کہ شرافی گوٹھ سے متصل ملیر ندی سے یومیہ 30 کے قریب ریتی بجری کے ڈمپرز رات کی تاریخی میں چوری کئے جاتے ہیں ذرائع کا کہنا تھا کہ صمد کو مکمل وقار کی سرپرستی حاصل ہے ،ضلع ملیر کے 6تھانوں سے نکلنے والی ریتی بجری کی بیٹ سنگل ٹرک 3ہزار روپے اور ڈبل ٹرک 6ہزار روپے کے حساب سے وصول کی جاتی ہے ۔زرائع کاکہنا تھا کہ ایک اندازے کے مطابق ضلع ملیر کے 7 تھانوں کی حدود سے ایک رات میں نکلنے والی ریتی بجری سے لاکھوں روپے راو انوارکے دست راست کو دیئے جاتے ہیں۔