اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) آصف زرداری سخت دباؤ میں ہیں۔ یہ دباؤ محض اس دولت کا حساب دینے کے لئے نہیں۔ جو دباؤ ڈالنے والوں کے بقول انہوں نے اور خاندان نے سرکاری خزانے سے لوٹی ہے۔ بلکہ انہیں سیاست سے آؤٹ کرنے کے لئے ہے۔ دباؤ ڈالنے والوں کا کہنا ہے کہ صرف نواز خاندان کو سیاست سے باہرکرنے کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔ اس لئے آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ کو بھی میدان سے باہر جانا چاہیے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ دباؤ محض انہیں میدان سے باہر کرنے کے لئے ہے۔ یا اس کا مقصد ان کی گرفتاری اور سزا بھی ہے؟ اور ان سے دولت واپس بھی لینی ہے؟ تو اس کے ایک سے زائد جواب ملتے ہیں۔ نواز شریف کے خلاف زرداری کے غیر مشروط تعاون نے کئی دلوں کو موم کیا ہے۔ لیکن فیصلہ سازوں کے رویے میں کتنی لچک آئی ہے۔ اس باب میں راوی خاموش ہے۔ مشکل یہ ہے کہ اس بار زرداری کے بین الاقوامی دوست بھی ان کی مدد نہیں کر پا رہے۔زرداری نے امریکی اسٹیبلشمنٹ اور متحدہ عرب امارات کے شیخوں سے تعلقات بڑھائے تھے۔ لیکن پاک امریکہ تعلقات کی سردمہری نے امریکی سفارش کے ہر امکان کو روک دیا ہے۔ جو زرداری کی گلوخلاصی کا سبب بن سکتا تھا۔ اسی طرح امارات کا لنگر بھی سعودیوں کے پاؤں سے بندھا ہے۔ اور سعودیوں سے پاکستان کے تعلقات میں اب وہ گرم جوشی نہیں۔ جو ماضی میں کبھی تھی۔ امریکہ کی طرف سعودی ولی عہد کے غیر معمولی جھکاؤ نے پاکستان کو محتاط ہونے پر مجبور کر دیاہے۔ چار ارب ڈالر قرض کی پیش کش بھی دراصل امریکی ایما پر تھی۔ اس کا مقصد امریکی مطالبات پورے کرنے کے لیے سعودی کاندھا استعمال کرنا تھا۔ زرداری کی مشکل یہ بھی ہے کہ مقتدر حلقے ان کی حب الوطنی کے حوالے سے شروع سے مشکوک رہے ہیں۔ ماضی کی اسٹیبلشمنٹ کے ایک اہم رکن اور سابق لیفٹیننٹ جنرل ظہیر کا تو یہ کہنا تھا کہ زرداری سے رابطوں کے لئے امریکی سی آئی اے کے جس شعبے کو ذمہ داری دی گئی تھی۔ وہ بین الاقوامی مافیاز کو ڈیل کرتا ہے۔ گویا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ زرداری کو امریکن کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ وہ عالمی مافیاز کو ہی استعمال کرکے اپناکام کر جاتے ہیں۔ زرداری کی دوسری مشکل یہ ہے کہ ایف آئی اے کے موجودہ سربراہ بشیر میمن ایک دیانت دار اور دلیر افسر ہیں۔ وہ سندھ پولیس میں تھے۔ تب بھی دلیری کی شہرت رکھتے تھے۔انہوں نے نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں ان کے پرنسپل سیکریٹری سعید مہدی سے براہ راست ٹکر لی تھی۔ تب بشیر نے کراچی میں جوئے کے ایک ایسے اڈے پر چھاپہ مار کر اسے بند کر دیا تھا۔ جسے سعید مہدی کی براہ راست سرپرستی حاصل تھی۔ اس بات کا علم بشیر میمن کو بھی تھا۔ اور بشیر کو کیا ساری پولیس اور انتظامیہ کو تھا۔ یہ ایشیا کا سب سے بڑا جوئے کا اڈہ تھا۔ اور برسوں سے چل رہا تھا۔ لیکن بشیر نے علاقہ ایس ایس پی لگتے ہی اسے بند کرا دیا۔ جس پر مشتعل ہو کر سعید مہدی نے ان کی گرفتاری کے احکامات جاری کر دیئے۔ وہ دن بڑے مشکل تھے۔ لیکن وہ جھکے نہیں اور اڈہ کھولنے سے صاف انکار دیا۔ اگلے چند دنوں میں نواز شریف کراچی آئے تو کسی ہمدرد نے ان کے ہاتھ میں اخبار کا وہ شمارہ پکڑا دیا۔ جس میں بشیر کی کارروائی اور سعید مہدی کے اشتعال کی پوری کہانی درج تھی۔ بس اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی اور بشیر کا سر اللہ نے بلند رکھا۔ یہی بشیر میمن اب ایف آئی اے کے سربراہ ہیں۔ زرداری ان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر چکے ہیں۔ جس کا اثر الٹا ہوا ہے۔سو اب ایف آئی اے ہے اور زرداری ہیں۔ زرداری کی پوری کوشش ہے کہ وہ مقتدر حلقوں سے اپنے معاملات سیدھے کر لیں۔ لیکن اس کام میں سب سے بڑی رکاوٹ نواز شریف ہیں۔ جب تک نواز شریف کے معاملات سیدھے نہیں ہوتے۔ زرداری کی بچت کا راستہ نہیں کھلے گا۔ لیکن ہو یہ رہا ہے کہ نواز شریف اور مقتدر حلقوں میں کشیدگی ختم کرانے کے بجائے زرداری نواز شریف کے خلاف سخت ترین پوزیشن لے رہے ہیں۔ تاکہ بڑوں کے لئے خود کو قابل قبول بنا سکیں۔ لیکن بڑے عمران حکومت کو مستحکم کرنے کے لئے زرداری کی اس خواہش کا فائدہ تو اٹھا رہے ہیں۔انہیں واک اوور نہیں دے رہے۔ جس سے ان کی فرسٹریشن میں اضافہ ہو رہا ہے۔ صدارتی امیدوار کے مشترکہ چناؤ کے فیصلے سے گریز بھی اسی فرسٹریشن کا نتیجہ ہے۔ وہ اپوزیشن کے متفقہ امیدوار لانے کی کسی کوشش کا حصہ بننا نہیں چاہتے۔ اور دکھائی بھی یہی دیتا ہے۔ لیکن اس کے عوض ان کی جاں بخشی نہیں ہو رہی۔ البتہ قطرہ قطرہ کرکے اوکسیجن ضرور دی جارہی ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر چھوٹ دینے کا فیصلہ بھی لگتا ہے صدارتی الیکشن تک ہی چلے گا۔ اس کے بعد راوی اندھیرا ہی اندھیرا لکھتا ہے۔اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید اور ان کے بیٹے عبدالغنی مجید کی گرفتاری نے ان کے ہاتھ پاؤں پھلا رکھے ہیں۔ انور مجید تو طبی وجوہات کی بناء پر اسپتال میں داخل ہیں۔ لیکن اے۔ جی مجید پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ وہ سلطانی گواہ بن گئے تو زرداری کا بچاؤ مشکل ہوجائے گا۔ اور خدشہ ہے کہ بن بھی جائیں گے۔ انور مجید اور ان کے بیٹوں نے ایک درمیانے درجے کے کاروباری خاندان سے ارب پتی خاندان بننے کا سفر محض چند برسوں میں طے کیا ہے۔ ظاہر ہے ان کے پاس اس کی وجوہات بھی ہوں گی۔ لیکن یہ تو طے ہے کہ وہ زرداری کے سب سے قریبی فرنٹ مین تھے۔ اور شوگر ملوںکے انتظام سمیت کئی کاروبار سنبھالتے تھے۔ ان میں اندرون ملک بزنس بھی تھے اور بیرون ملک بزنس بھی۔ زرداری کے بچپن کے دوست ڈاکٹر ذوالفقار مرزاکی ناراضگی کے پیچھے بھی انور مجید خاندان تھا۔ زرداری نے مرزا شوگر مل مرزا سے لے کر انور مجید کو دینے کی ہدایت کی تھی۔ مرزا کو اس میں تامل تھا۔ وہ انور مجید کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ انور مجید اور ان کے بیٹے زرداری کو دھوکا دیں گے۔ اور وقت آنے پر آقا بدل لیں گے۔ مرزا اپنے مؤقف میں درست تھے یا غلط۔ یہ جانچنے کا صحیح وقت آگیا ہے۔ انور مجید اور ان کے بیٹے اگر ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔ تو مرزا کا مؤقف درست ثابت ہو جائے گا۔ اور ڈٹے رہتے ہیں تو مرزا غلط ثابت ہوں گے۔ لیکن یہ تو طے ہے کہ زرداری کے شجر میوہ دار کے نیچے انور مجیدکا خاندان فرش سے عرش تک پہنچ گیا ہے۔ سندھ برسوں سے ان کے تابع مہمل رہا ہے۔ پولیس۔ انتظامیہ اور وزرا تک کی تقرری کا اختیار زرداری نے ان کی سفارش پر چھوڑ رکھا تھا۔ انور مجید کے دفتر کے باہر ہمیشہ اعلیٰ سرکاری افسران۔ بینکوں کے صدور۔ اور وزرا کی گاڑیاں کھڑی رہتی تھیں۔ کراچی کے عبدالستار ایدھی ہاکی اسٹیڈیم بلڈنگ میں واقع ان کے دفاتر سے دو بار کمپیوٹر سیکشن میں بڑے پیمانے پر چوری کی وارداتیں ہوئیں۔ جن میں کمپیوٹروں کی ہارڈ ڈسک غائب کی گئیں۔ انور اس کا الزام کھلم کھلا بعض سرکاری اداروں پر لگاتے رہے۔ بعدازاں ان کے دفتر سے رینجرز نے بھاری تعداد میں ہتھیار بھی برآمد کئے۔ جس کا مقدمہ ابھی تک چل رہا ہے۔ بات یہ ہے کہ انور مجید یا ان جیسے کاروباری حضرات جلد سے جلد پیسہ کمانے کی دھن میں خطرے کی وہ لکیر بلا سوچے سمجھے عبور کر جاتے ہیں۔ جس کے پار کالے دھن۔ کرپشن یا غیر ملکی مفادات کے تحفظ کے تالاب میں سونے کا پانی جھلملا رہا ہوتا ہے۔ پانی کی جھلملاہٹ ان کی آنکھیں چکا چوند کر دیتی ہے۔ اور وہ بالٹی لے کر تالاب میں کود پڑتے ہیں۔ مشکل تب ہوتی ہے جب سرخ لکیر عبور کرنے پر ان کی گرفت ہوتی ہے۔ پھر جائے رفتن رہتا ہے نہ پائے ماندن۔ سیاسی رابطے کام آتے ہیں نہ سماجی ولولے۔ رشتہ داریاں مدد کرتی ہیں نہ دوستیاں۔ باہر والے آتے ہیں نہ اندر والے جاگتے ہیں۔ ظاہر ہے جس پہ تکیہ تھا۔ وہی تند ہواؤں کی زد میں آجائے تو دوسرا کون مدد کو آئے گا؟ انور مجید بڑھاپے کی جس منزل میں ہیں۔ اس میں لوگوں کو مال سے زیادہ اولاد۔ عزت۔ اور آخرت کی فکر ہوتی ہے۔ خصوصاً آخرت کی۔ اور اس عزت کی جو آپ اولاد کے لئے چھوڑ کر جاتے ہیں۔ لیکن آپ کی کسی غلطی سے اولاد کا سکون چھن جائے۔ فیملی کی عزت برباد ہوجائے۔ اور آخرت خطرے میں پڑ جائے تو بندے کو صرف اس کا رب ہی بچا سکتا ہے۔ اور رب تب مدد کرتا ہے۔ جب وہ توبہ کی توفیق دیتا ہے۔ اللہ کرے کہ انور مجید کو توبہ اور معافی کی توفیق ملے۔ اور اللہ پاک ان کے سفید بالوں کی لاج رکھ لیں۔ ورنہ کہانی جہاں تک جا چکی ہے۔ اور جہاں جا رہی ہے۔انور مجید اور ان کے بیٹوں کا بچنا مشکل ہے۔ انہی کے طوطے میں تو زرداری کی جان ہے۔ یہ چھوٹ گئے تو سمجھیں زرداری چھوٹ گئے۔ اور زرداری کے بارے میں ایسا کوئی فیصلہ کم از کم مستقبل قریب میں تو نظر نہیں آتا۔ ویسے بھی مقتدرحلقے پالیسی فیصلے تبدیل نہیں کرتے۔ ہاں۔ ضرورت پڑنے پر اتنی لچک ضرور دکھا دیتے ہیں۔ جس سے پالیسی متاثر نہ ہو۔ اور فی الحال تو یہ لچک بھی دکھتی نظر نہیں آرہی۔ نواز شریف کا پلڑا جو بیلنس کرنا ہے۔