عباس ثاقب
جیسے جیسے سچن کا گھر نزدیک آرہا تھا، مجھے واضح طور پر اس کی حالت میں ایک عجیب و غریب تبدیلی رونما ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔ کچھ ہی دیر پہلے وہ اتنے سرور میں دکھائی دے رہا تھا کہ اس کے قدموں اور گفتگو میں لڑکھڑاہٹ نمایاں تھی۔ لیکن اب گویا محاورے کے عین مطابق اس کا نشہ ہرن ہو چکا تھا اور وہ مجھے خاصا مضطرب، بلکہ خوف زدہ دکھائی دے رہا تھا۔
اس نے مجھے گھر سے لگ بھگ بیس قدم پہلے ہی آٹو رکشا روکنے کا حکم دیا۔ میں نے تعمیل کی اور اسے آٹو سے نیچے اترنے میں مدد دینے کے لیے جلدی سے اترا، لیکن اس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے روک دیا اور اپنے بل پر آٹو سے اتر آیا۔ اس کے چہرے پر تشویش بھری سنجیدگی نمایاں تھی۔ جیب سے بٹوا نکال کر اس نے پانچ روپے کا ایک نوٹ نکال کر میری طرف بڑھایا اور پھر مرے مرے قدموں سے اپنے کوارٹر کے گیٹ کی طرف بڑھ گیا۔
اس کے گیٹ کے بالکل قریب پہنچنے پر میں نے انجن اسٹارٹ کر دیا۔ آٹو کے سلنسر سے خارج ہونے والی بلند آہنگ اور بھدی آواز رات کے سناٹے میںگونج اٹھی، لیکن میں نے آٹو آگے نہیں بڑھایا۔ میری نظریں سچن بھنڈاری پر جمی ہوئی تھیں۔ اس نے گیٹ کے سامنے پہنچ کر اپنی پتلون کی دائیں جیب میں ہاتھ ڈالا۔ یوں لگا جیسے اسے کرنٹ لگا ہو۔ اس نے ایک جھٹکے سے جیب سے ہاتھ نکالا اور پھر پتلون کی بائیں جیب ٹٹولی اور ایک بار پھر دائیں جیب میں گہرائی تک ہاتھ پہنچا کر اچھی طرح ٹٹولا۔ پھر باری باری پتلون کی پچھلی جیب، کوٹ کی سامنے کی تینوں اور اندرونی جیب اور آخر میں شرٹ کی جیب بھی کھنگال ڈالی۔ لیکن ہر بار اس کا ہاتھ خالی ہی باہر آیا۔
مجھے اس کے چہرے پر نمودار ہونے والی بدحواسی کے تاثرات دیکھ کر لطف آرہا تھا۔ وہ چند لمحے کے لیے تذبذب اور فیصلہ نہ کرنے کی کیفیت میں گیٹ پر کھڑا رہا۔ یہی وہ وقت تھا، جب میںآٹو بڑھاکر اس کے قریب لے گیا اور سلنسر کے شور پر غالب آنے کے لیے بلند آواز میں پوچھا ’’سب ٹھیک تو ہے سر؟ کیا ہوا؟‘‘۔
اس نے چونک کر میری طرف دیکھا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا، میں نے ایک بار پھر تقریباً چیخ کر پوچھا ’’کوئی پرابلم ہے بابو؟ میں کوئی ہیلپ کر سکتا ہے؟‘‘۔ یہ کہتے ہوئے میں نے آٹو کو دیوار کے ساتھ لگاکر اس کا انجن بندکر دیا۔ اچانک پھیل جانے والا سکوت بہت راحت انگیز محسوس ہوا۔ سچن غالباً تذبذب میں تھا کہ مجھے اپنا مسئلہ بتائے یا چلتا کرے۔ تاہم میں نے اس کی مشکل آسان کر دی ’’کیا لاک نہیں کھل رہا صاب؟ کی (Key) مجھے دو، میں کھول دیتا ہے‘‘۔
اس پر وہ جھنجلا کر بولا ’’سالی چابی نہیں مل رہی!‘‘۔ اس نے کئی غلیظ گالیوں سے یہ مختصر سا جملہ خاصا طویل کر دیا تھا۔ میں نے خاصی بلند آواز اور بے فکر لہجے میں کہا ’’تم ادھر ہوٹل میں بھول آیا ہوگا بابو، تھوڑا زیادہ چڑھا لیا تھا ناں ادھر!‘‘۔
میری بات سن کر سچن کو جیسے کرنٹ لگ گیا۔ اس نے باقاعدہ میرے منہ پر ہاتھ رکھ کر مجھے خاموش کیا اور لگ بھگ گھگیائے لہجے میں کہا ’’ابے چپ کر، مروائے گا کیا؟‘‘۔
میں نے اپنے منہ سے اس کا ہاتھ ہٹایا اور حیرانی سے پوچھا ’’تم اتنا گھبراتا کیوں ہے بوس؟ اتنا رات کو کون سن رہا ہے؟ اور سنتا ہے تو کوئی کیا بگاڑ لے گا اپنا؟‘‘۔
اس نے مجھے ڈپٹ کر کہا ’’میں نے کہا آواز نیچی رکھ‘‘۔ اس نے ایک بار پھر گالیوں سے جملہ سجایا تھا۔ میں نے دھیمے لہجے میں کہا ’’مجھے پتا ہے صاحب ، اس وقت تم اوور ڈرنک (دھت) ہے، اس لیے تمہارا گالیوں کا برا نہیں مانے گا، پر بتاؤ تو سہی مسئلہ کیا ہے؟ تم کیوں میرا گلا پکڑ کے چپ کراتا ہے؟‘‘۔
اس نے دانت پیس کر لیکن دبی آواز میں کہا ’’میری پتنی!‘‘۔ ساتھ ہی کوارٹر کی طرف ہاتھ سے اشارہ کیا۔ میں نے اپنے لہجے میں حیرت بھرتے ہوئے کہا ’’مائی گاڈ! بوس آپ اپنا وائف کو گھر میں لاک کرکے گیا تھا؟ اگر کوئی ایمرجنسی ہوگیا تو؟‘‘۔
اس نے مجھے جھڑکا ’’ابے چپ، یہ چھوٹا دوار (دروازہ) میں اندر سے کنڈی چڑھا ہے، سمجھا؟‘‘۔
میں نے کہا ’’تو پھر فکر کا کیا بات ہے صاحب، گھنٹی بجاکر میڈم کو بلاؤ، وہ آکر ڈور کھول دے گا‘‘۔
اس نے یہ سن کر ماتھے پر ہاتھ مارا ’’ابے وہ نیند کی گولی کھاکر سوتی ہے، اسے جگایا تو بہت جھگڑا کرے گی‘‘۔
میں نے کچھ سوچ کر کہا ’’تو پھر ایسا کرو تم دیوار کود کر چپ چاپ اندر چلا جاؤ۔ پرابلم خلاص‘‘۔
اس نے میری تجویز کو سر ہلاکر سراہا، لیکن میں نے اپنے منصوبے کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا ’’میرا خیال ہے تمہارا حالت ایسا نہیں ہے بوس کہ تم وال کراس کر سکے۔ ایک منٹ ویٹ کرو، میں اندر جاکر ڈور کھول دے گا۔ تم آرام سے اندر چلے جانا‘‘۔
میری یہ تجویز اس کے دل کو لگی۔ میں ایک ہی جست میں پانچ فٹ کے لگ بھگ اونچی دیوار پھلانگ کر گھر میں اتر گیا اور گیٹ کے چھوٹے دروازے کی کنڈی کھول کرباہر آگیا۔ سچن اندر گھسا، دروازے کو اندر سے کنڈی لگائی، ہاتھ کے اشارے سے مجھے جانے کا کہا اور گھر کے مرکزی دروازے کی طرف چل پڑا۔
میں گیٹ کے سامنے سے تو ہٹ گیا، تاہم کونے میں جاکر دیوار سے جھانک کر سچن کی سرگرمیوں کا جائزہ لیتا رہا۔ میں اپنا تجسس دورکرنا چاہتا تھا کہ یہ گیٹ سے تو اندر گھس گیا، گھرکے داخلی دروازے کا قفل کیسے کھولے گا۔ اس دروازے کی چابی بھی یقیناً اس چھوٹے سے گچھے میں شامل رہی ہوگی، جسے میں نے سچن کو سہارا دے کر آٹو میں چڑھاتے ہوئے اس کی پتلون کی جیب سے اڑا لیا تھا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭