سولر پینل کی آڑ میں32ارب منی لانڈرنگ کی نیب تحقیقات
کراچی (رپورٹ : اسامہ عادل) نیب نے سولر پینلز اور انورٹرز کی آڑ میں32 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کی تحقیقات شروع کر دی۔ سستے شمسی توانائی نظام مہنگے ظاہر کرکے درآمد کئے گئے، ڈیوٹی چھوٹ کےباعث اوور انوائسنگ کے ذریعے سالانہ 300ملین بیرون ملک منتقل کئے گئے۔81 فیصد سولر آلات کا سورس اور سپلائر سے متعلق ریکارڑ بھی موجود نہیں ہے۔ تفصیلات کے مطابق سولر پینل کی درآمد کی آڑ میں منی لانڈرنگ کی تحقیقات کیلئے پاکستان سولر ایسوسی ایشن نے تحقیقات کی سفارش کی تھی، جس کیلئے ایسوسی ایشن نے شواہد بھی فراہم کئے تھے، جس پر معلوم ہوا کہ سولر پینل اورانورٹرز کی درآمد کی آڑ میں ایک سال کےدوران 32ارب روپے کی منی لانڈرنگ کی گئی۔ نیب نے منی لاندڑنگ کے بڑے اسکینڈل کی تحقیقات شروع کردی ہے۔ تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ سولر پینل پر ڈیوٹی چھوٹ کےباعث اوورانوائسنگ کے ذریعے سالانہ 300ملین بیرون ملک منتقل کئے جارہے ہیں۔ ذرائع نے بتا یا کہ اے گریڈ کے سولر پینل کی قیمت 35سینٹ فی واٹ جبکہ درآمد کنندگان نے ایک سے ڈھائی ڈالر فی واٹ ریٹ ظاہر کرکے سولر پینل امپورٹ کئے۔ ذرائع نے بتا یا کہ لنڈے کے کپڑوں کا کاروبار کرنےوالے تاجر نے ایک کمپنی کیلئے 2ارب روپے مالیت کے سولر پینل درآمد کئے۔ ذرائع نے بتا یا کہ قومی خزانے کو سالانہ 38ارب روپے کے نقصان کے باوجود متعلقہ حکام نے کوئی کارروائی نہ کی۔ معلوم ہوا ہے کہ ایک سال کے دوران 839 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کے حامل سولرپینل درآمد کئے گئے، جن میں سے 680 میگاواٹ سولر پینل غیر معیاری بی اور سی گریڈ کے نکلے۔ امپورٹ کئے گئے 81 فیصد سولر آلات کا سورس اور سپلائر سے متعلق ریکارڈ بھی موجود نہیں۔ ذرائع نے بتا یا کہ ناقص کوالٹی کے آلات کی درآمد سے سولر ٹیکنالوجی پر اعتماد ختم ہوگیا۔ مذکورہ تحقیقات میں مزید پیشرفت کیلئے سولر ایسوسی ایشن نے نیب حکام کو ایک اور خط لکھ دیا ہے جس میں انہوں نے ناقص اور غیر معیاری سولر پینلز سے متعلق مزید شواہد دینے کی یقین دہانی کرائی ہے۔