کراچی (رپورٹ: ارشاد کھوکھر) مولانا فضل الرحمن ریلیف کیلئےسابق صدر آصف علی زرداری کا آخری ہتھیار بن گئے۔ مقتدر حلقوں سے مایوسی کے بعد صدارتی انتخاب میں حکمران جماعت کو ٹف ٹائم دینے اور اپوزیشن کو مضبوط کرنے کیلئے نواز لیگ کے پیش کردہ نام کی حمایت پر غورشروع کردیا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اولین ترجیح اب بھی بیرسٹر اعتزاز احسن کواپوزیشن کا مشترکہ صدارتی امیدوار بنانا ہے ،تاہم اس کی نظر چیئرمین سینیٹ کے عہدے پر بھی ہے ،جس کا حصول نواز لیگ کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں۔ اس ضمن میں کوئی بھی حتمی فیصلہ کل بروز جمعرات تک متوقع ہے۔باخبر ذرائع کے مطابق منی لانڈرنگ کیس میں پھنسی ہوئی پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت نے یہ حکمت عملی بنائی تھی کہ صدارتی انتخابات کی نمبر گیم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وفاقی حکومت اور مقتدر حلقوں سے اس حوالے سے کوئی ریلیف حاصل کیاجائے ،جس کے بعد بدلے میں صدارتی انتخابات میں حکومتی امیدوار کی کامیابی کو سہل بنانے کیلئےاپوزیشن کو تقسیم کردیا جائے اوراس کے 2 امیدوار میدان میں رہیں، کیونکہ پی پی قیادت اس سے واقف ہے کہ نوازلیگ کی قیادت بیرسٹر اعتزاز احسن کی حمایت کرنے کے لئے رضا مند نہیں ہوگی۔ تاہم مذکورہ ذرائع کا کہناہے کہ مذکورہ گیم میں پیپلزپارٹی کی قیادت کسی بھی حوالے سے وفاقی حکومت یا مقتدر حلقوں سے ریلیف ملنے سے کافی مایوس ہوچکی ہے۔ تنگ آمد بجنگ آمد کے پیش نظرپارٹی کی اعلیٰ قیادت نے اس بات پر غور شروع کردیا ہے کہ ایسی صورتحال میں حکومت کو وفاقی حکومت کو ٹف ٹائم دیا جائے اور اپوزیشن کے سا تھ ملکر ڈٹ کر مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کیا جائے جس میں صدارتی انتخابات میں اپوزیشن کے مشترکہ امیدوار کے طو رپر چوہدری اعتزاز احسن کو دستبردار کراکے جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی حمایت کرنا شامل ہے۔ اگرچہ پیپلزپارٹی کے اعلیٰ سطح کے ذرائع کا کہناہے کہ اب بھی قیادت کی اولین ترجیح اس بات پر ہے کہ چوہدری اعتزاز احسن کو اپوزیشن کے مشترکہ امیدوار کے طور پر سامنے لایا جائے تاہم اس کے امکانات کم ہے اور ایسی صورتحال میں کہ سابق صدرکے لئے ریلیف کا دروازہ نہیں کھلتا تو پھر پی پی قیادت مولانا فضل الرحمان کی حمایت بھی کرسکتی ہے ۔ اس حوالے سے آئندہ 36گھنٹے اہم ہیں کیوں کے صدارتی انتخابات کے لئے کاغذات نامزدگی جمع کرانے والے امیدوار کے لئے انتخابات سے دستبردار ہونے کی آخری تاریخ کل 30 اگست کی ہے ۔مذکورہ ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی کی قیاد ت کی نظر چیئرمین سینیٹ کے عہدے پر بھی ہے ۔اس وقت اپوزیشن جماعتوں کو سنینٹ میں واضح اکثریت حاصل ہے جن میں سے نوازلیگ سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز کی تعداد 32 ہے پی پی پی کی قیادت سمجھتی ہے کہ چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی نو کے لئے نواز لیگ کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں ہوگی ۔اس لئے جب کوئی ریلیف نہیں مل رہا ہے ،تو پھر اپنے آپ کو اپوزیشن جماعتوں سے جوڑے رکھا جائے۔