کراچی (رپورٹ:نواز بھٹو)محکمہ بلدیات نے الہ دین پارک کی زمین نجی فرم کو الاٹ کرنے کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات، اراضی کے ڈیجیٹل سروے اور 1995 سے الہ دین پارک کی آمدنی کے اسپیشل آڈٹ کرانے کی سفارش کی ہے۔ نیب نے بھی اسکینڈل کی تحقیقات کیلئے مختلف ذرائع سے ریکارڈ حصول کی کوششیں تیز کردیں، اس حوالے سے سورس رپورٹ جلد تیار کئے جانے کا امکان ہے۔ الہ دین پارک کی انکوائری سے سفاری پارک کی 207 ایکڑ اراضی نجی فرم کو دینے کی سازش بھی ناکام ہو گئی، جس سے کے ایم سی کا لینڈ ڈپارٹمنٹ سخت دباؤ کا شکار ہو گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق سیکریٹری بلدیات نے زبانی طور پر چیف سیکریٹری کو الہ دین پارک اسکینڈل سے متعلق کسی بھی دباؤ کو خاطر میں لائے بغیر زبانی رپورٹ پیش کرنے کے بعد باضابطہ طور پر تحریری رپورٹ بھی ارسال کر دی ہے۔3 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 52 ایکڑ اراضی کا مکمل ریکارڈ حاصل کرکے تحقیقات میں محکمہ ریونیو کو بھی شامل کیا جائے۔ رپورٹ کے مطابق کے ایم سی کی طرف سے حکومت سندھ کو بائی پاس کر کے الاٹ کی گئی زمین کا ڈیجیٹل سروے کروایا جائے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ کمرشل اور اوپن ایریا کتنا ہے۔ اس بات کی بھی تحقیقات کرائی جائے کہ منصوبے کیلئے عام نیلامی نہ کروانے کی کیا وجوہات تھیں اور اراضی کی الاٹمنٹ مخصوص فرم کو کیوں کی گئی اور اس کیلئے اشتہار شائع کیوں نہیں کروایا گیا۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ منصوبہ کے ایم سی حکام کی مرضی سے شروع کیا گیا تھا، جس کیلئے حکومت سندھ کو اعتماد میں نہیں لیا گیا، محکمہ بلدیات کو نہ تو لے آؤٹ پلان سے آگاہ کیا گیا اور نہ ہی دیہہ کا نقشہ دیا گیا، جس سے کئی ابہام جنم لے رہے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کے ایم سی اور اس نجی فرم کے معاہدے میں یہ طے پایا تھا کہ یہ اراضی 80 سے 90 فیصد تفریحی مقاصد کیلئے استعمال ہوگی، جبکہ5 فیصد پر گفٹ سینٹر اور اسنیکس بار قائم ہوں گے، پارکنگ و داخلہ فیس معمولی ہو گی لیکن اس وقت معاہدے کے برعکس کئی گنا زائد فیس وصول کی جا رہی ہے۔ الہ دین پارک میں تعمیر کلب ، پویلین اینڈ، شادی ہال، تجارتی کاروباری مراکز غیر قانونی ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کے ایم سی نےمعاہدے کی اصل صورت تبدیل کر دی ہے، جس کا مقصد فرم کو فائدہ پہنچانا ہے، اصل معاہدے کے بعد ہونے والے 3 چھوٹے معاہدوں کی وجہ سے اصل معاہدہ مسخ ہوگیا ہے ، جس کی وجہ سے یہ بھی معلوم نہیں ہو رہا کہ لیز ختم ہونے کی اصل مدت کتنی ہے۔ رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ 1995 سے الہ دین پارک کی آمدنی کا اسپیشل آڈٹ کرایا جائے۔ ذرائع کے مطابق محکمہ بلدیات کے سخت موقف کے باعث الہ دین پارک کے بعد سفاری پارک کی207ایکڑ اراضی8 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی آڑ میں ایک نجی فرم کو دینے کی سازش ناکام بنا دی ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ فرم بھی الہ دین پارک انتظامیہ کی طرح سفاری پارک کی جگہ سرکاری و نجی شراکت سے ایک جدید پارک بنانے کی خواہشمند تھی ۔دونوں پارکوں سے متعلق حقائق منظر عام پر آنے کے بعد نیب نے بھی تحقیقات کیلئے پر تولنا شروع کر دئیے ہیں اور مختلف ذرائع سے ریکارڈ حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ نیب ذرائع کے مطابق با ضابطہ چھان بین کی اجازت کیلئے جلد ڈی جی نیب کراچی کو سورس رپورٹ دیدی جائے گی۔ اس سلسلے میں بلدیہ عظمیٰ کی ایک بے اختیار اہم شخصیت نے نام شائع نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ الہ دین پارک کی اراضی نجی فرم کو دینے کی تحقیقات ہونی چاہئے اور اس سازش کا بھی پتہ لگانا چاہیئے کہ الہ دین پارک انتظامیہ کو ہی سفاری پارک دینے کی سازش کس نے کی تھی ۔ الہ دین پارک سے کے ایم سی کو ہونے والی آمدنی کی چھان بین بھی کی جائے تاکہ معلوم ہو سکے کہ شہریوں کے پیسوں پر کس نے ہاتھ صاف کئے۔ اس سلسلے میں رابطہ کرنے پر پویلین اینڈ الہ دین پارک کے بی ڈی او رمیز احمد نے بتایا کہ پارک سے متعلق تمام امور شفاف ہیں، لیز کی تاریخ سے متعلق کوئی تنازع نہیں ہے۔ جب ان سے کاروباری سرگرمیوں میں اضافے اور تفریحی سرگرمیوں میں کمی سے متعلق معلوم کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ وقت کیساتھ تبدیلیاں ہوتی ہیں، چیزیں بڑھتی ہیں، یہ جو کچھ ہو رہا ہے صرف لینے کیلئے کیا جا رہا ہے، کلب بند نہیں ہوگا، ہماری انتظامیہ طاقتور ہے اور وہ ایسا نہیں کرنے دے گی۔