لاہور/اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) خاور مانیکا اور سابق ڈی پی او پاکپتن نے باہمی تنازع پر انکوائری کمیٹی کو جواب جمع کرادیا ہے جبکہ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) پاک پتن رضوان گوندل کے تبادلے پر ازخود نوٹس لے لیا ہے۔نجی ٹی وی کے مطابق خاتون اول بشری عمران کے سابق شوہر خاور مانیکا کو پولیس ناکے پر روکے جانے اور ڈی پی او کے تبادلے کے تنازع پر پولیس افسر رضوان گوندل اور خاورمانیکا نے انکوائری کمیٹی کو جواب جمع کرادیے ہیں۔خاورمانیکا نے اپنے بیان میں بتایا کہ پولیس نے ان کے ساتھ بدتمیزی کی اور ہمیں ہی بُرا بنا کرپیش کیا جارہا ہے، واقعے سے متعلق ڈی پی او رضوان گوندل کو آگاہ کیا لیکن انہوں نے تعاون نہ کیا۔ خاور مانیکا کے بیٹے ابراہیم نے انکوائری ٹیم کو ای میل کے ذریعے تمام معاملے سے آگاہ کیا جس میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح پولیس نے خاورمانیکا اور ان کی بیٹی سے بدتمیزی کی۔دوسری جانب سابق ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل نے بھی ایک اور تحریری بیان جمع کروادیا جس میں انہوں نے اپنے اور آرپی او کے ساتھ سی ایم ہاؤس میں ہونے والی تکرار کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ ہاؤس میں غیر متعلقہ شخص بھی خود ڈی پی او سے پوچھ تاچھ کرتا رہا اور بارہا خاور مانیکا کے ڈیرے پر جاکر معافی مانگنے کا مطالبہ کیا گیا۔بیان میں بتایا گیا کہ ڈیرے پر معافی نہ مانگنے پر سی ایم ہاوس میں ڈی پی او کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا تھا، اگلے روز وزیراعلی پنجاب کے پرسنل سیکٹری نے ڈی پی کو فوری چارج چھوڑنے سے متعلق فون پر آگاہ کردیا، 20 منٹ بعد ڈی آئی جی ہیڈ کواٹرز نے چارج چھوڑنے کا حکم جاری کیا۔سابق ڈی پی او رضوان گوندل نے انکوائری آفیسرکے سامنے مانیکا فیملی کی طرف سے پولیس اہلکاروں کو مبینہ طور پر غلیظ گالیاں دینے کو بھی انکوائری کا حصہ بنانے کی درخواست کی ہے۔معاملے پر ایلیٹ فورس اور متعلقہ انسپکٹرز کے بیانات بھی ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ تحقیقاتی رپورٹ مکمل کرکے آئی جی پنجاب کو بھجوائی جائے گی ۔ سابق ڈی پی او رضوان گوندل کی مالی معاونت کی تفصیلات بھی اکھٹی کی جارہی ہیں۔دوسری جانب چیف جسٹس سپریم کورٹ نے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) پاک پتن رضوان گوندل کے تبادلے پر ازخود نوٹس لے لیا ہے۔چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کیس کی سماعت آج صبح ساڑھے 9 بجے سماعت ہوگی۔سپریم کورٹ نے آئی جی پنجاب، آر پی او اور ڈی پی او رضوان گوندل کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا ہے۔عدالت نے انکوائری آفیسر کو بھی رپورٹ کے ہمراہ پیش ہونے کا حکم دیا۔