عظمت علی رحمانی/نجم الحسن عارف
ملک کے معروف علما نے انبیائے کرامؑ کی شان میں گستاخیوں کے خلاف عالمی قوانین بنانے کا مطالبہ کردیا۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکومت اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی فورمز پر انبیائے کرامؑ کی شان میں گستاخی کے مرتکب ملعونوں کیلئے سخت ترین سزائوں کی بات اٹھائے۔ اسلامی ریاست میں گستاخ کو سزا دینا حکومت وقت کی ذمہ داری ہوتی ہے، حکومت کے سزا نہ دینے کی وجہ سے ہی عشاق رسول خود یہ کام کرتے ہیں۔
اس سلسلے میں ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے مفتی منیب الرحمان کا کہنا تھا کہ ’’تمام مذہبی مقدسات کی شان میں گستاخی کے خلاف عالمی سطح پر قوانین ہونے چاہیئں اور اس فعل کو سنگین جرم قرار دیا جائے۔ اس حوالے سے مغربی ممالک میں کیونکہ کوئی قانون موجود نہیں ہے، چنانچہ جب کوئی قانون ہی نہیں ہوگا تو گستاخ کا ٹرائل کس قانون کے تحت ہوگا؟ اس لئے یورپ کی سطح پر ایک عدالت ہو جہاں ٹرائل ہو نا چاہئے اور فی الفور ایسے مواقع پر حکم امتناعی لیا جائے‘‘۔ مفتی منیب الرحمان کا مزید کہنا تھا کہ گستاخ کو سزا دینا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے۔ ہم قانون کو ہاتھ میں لینے کی ترغیب نہیں دیں گے، حکومت کو پابند کیا جائے کہ وہ گستاخوں کو قرار واقعی سزا دے۔ اس حوالے سے ایسا ٹرائل کورٹ ہونا چاہئے، جہاں جلد فیصلے ہوں اور شرعی عدالت میں ایسے مقدمات قائم ہونا چاہئیں، جس کے ججز علمائے کرام ہوں۔ فتوی دینا علمائے کرام کا کام ہے، مگر گستاخی کے خلاف فتوے سے زیادہ اہمیت قانون کی ہے۔
علامہ مولانا ریحان امجدی کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ اقوام متحدہ میں ایسی قرار داد لائی جائے جس میں کسی بھی برگزیدہ شخصیت کی گستاخی کو جرم قرار دیا جائے اور سخت سزا تجویز کی جائے۔ اس حوالے سے اسلامی ممالک کو ساتھ ملا کر ایک عالمی قانون بنایا جائے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ کسی بھی گستاخ کو قانون کے مطابق جلد از جلد سزا دے۔ اگر حکومت وقت سزا دینے والے معاملے سے پہلو تہی کرتی ہے تو کوئی بھی یہ کام کرے گا۔ جیسا کہ ماضی میں ہو چکا ہے کہ واضح گستاخی پر حکومت خاموش رہی اور قانون ہاتھ میں لے لیا گیا۔ ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’’میں سمجھتا ہوں کہ ملعون گیرٹ ولڈرز کی سزا ہمارے نزدیک تو قائم ہے، کیونکہ وہ اپنے ارادے سے باز نہیں آیا ہے۔ اس نے کروں اور کرتا رہوں گا کا اعادہ کیا ہے‘‘۔
جمعیت علمائے پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل اور متحدہ مجلس عمل کے ترجمان صاحبزادہ شاہ محمد اویس نورانی کا کہنا تھا کہ گستاخانہ خاکوں کے مقابلے کی منسوخی امت مسلمہ کی تاریخی کامیابی ہے۔ مغرب میں بڑھتے گستاخانہ کلچر کے مستقل سدباب کیلئے اقوام متحدہ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ عشق رسول ایٹم بم سے بھی زیادہ طاقتور جذبہ ہے۔ مغربی طاقتیں مسلمانوں کے دلوں سے روح محمدؐ نکال کر انہیں راکھ کا ڈھیر بنانا چاہتی ہیں۔ ناموس رسالت کا تحفظ ہمیں اپنی جانوں سے بھی زیادہ عزیز ہے۔
جمعیت علمائے پاکستان سندھ کے صدر مولانا عقیل انجم قادری کا کہنا تھا کہ شان رسالت میں گستاخی اور دیگر مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخی کے حوالے سے عالمی عدالت اور عالمی فورم پر جایا جائے اور الہامی مذاہب کے بانیان کے حوالے سے ایک ہی قانون بنانے پر زور دیا جائے۔ ایک ایسا عالمی قانون بنے جس کے اندر تمام انبیا علیہم السلام کی شان میں گستاخی کی سزا کا تعین کیا جائے اور اس پر عمل درآمد ہونا چاہئے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کسی بھی شخص کی گستاخی کے ارتکاب کے بعد اس کی سزا کا سب سے پہلا عمل حکومت وقت کی ذمہ داری ہے۔ کیونکہ اسلام ایک مہذب اور منظم دین ہے، لہذا گستاخی کی سزا دینے کی حکومت پابند ہے۔ تاہم بعض جگہوں پر استثنائی حالات ہوتے ہیں کہ حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتی تو پھر کوئی بھی یہ کام کر گزرتا ہے۔ لہذا جہاں تک علمائے کرام کے متفقہ فتوی کا تعلق ہے تو وہ موجود ہے کہ گستاخ کی توبہ بھی قبول نہیں، اس کی سزا موت ہے۔
اتحاد امت کے سربراہ مولانا ضیاء الحق نقشبندی کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہئے کہ دیگر ممالک کے ساتھ مل کر ایسے قوانین بنائے جائیں کہ انبیائے کرام کی شان میں توہین کو سنگین جرم قرار دیا جائے اور اس کی سزا سخت سے سخت رکھی جائے۔ ہمیں اقوام امتحدہ جیسے دیگر اداروں میں بات کرنی ہوگی اور جو قانون بن جائے اس قانون پر عمل درآمد کرنا ریاست یا حکومتی مشنری کا حق ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں ایسے حالات اس لئے پیش آتے ہیں کہ حکومت خود سزا دینے میں تاخیر کرتی ہے۔
جامعہ دارالعلوم نعیمیہ ملیر کے استاد مفتی عابد جان نعیمی کا کہنا تھا کہ حکومتی سطح پر ایسے اقدامات کی ضرورت ہے کہ ان کے ذریعے تمام عالمی فورمز پر اس مسئلہ کو اٹھایا جائے اور قانون سازی کرائی جائے۔ ہمارے ملک میں جو قانون موجود ہے اس پر عمل درآمد کرایا جائے اور کسی بھی گستا خ کو سزا دینے کے حوالے سے علمائے کرام سے مشاورت کی جائے۔ عالمی سطح پر قانون سازی کیلئے جد وجہد کی جائے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ گستاخ کو سزا دے اور یہی احنا ف کے ہاں بھی ہے۔ تاہم امام مالکؒ اور امام ابن تیمیہؒ کے ہاں دوسری صورتیں ہیں کہ گستاخ کو فی الفور قتل کیا جائے۔
علامہ راغب حسین نعیمی کا کہنا تھا کہ بنیادی طور پر یہ حکومت کی ہی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ جرم ثابت ہونے کے بعد گستاخی کے مرتکب کو سزا دے۔ اگر فرط جذبات میں آکر کوئی عام شہری گستاخی کرنے والے کو قتل کر ڈالے تو شریعت اس کے بدلے میں اس کی جان لینے کا حکم نہیں دیتی۔ بلکہ ایسے مسلمان کیلئے آزادی کا حکم ہے، اس کیلئے کوئی سزا نہیں ہے۔ بدقسمتی سے گزشتہ ادوار میں برصغیر پاک و ہند میں اسے عاشقان رسول کو ہمیشہ سزا سنائی گئی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں بھی جو سزائیں سنائی گئی ہیں، وہ درست نہیں تھیں۔ اس سلسلے میں یہ بھی اہم بات ہے کہ عام مسلمانوں کیلئے یہ اجازت صرف فرط جذبات کی صورت میں ہے۔ اسے وطیرہ نہیں بنا لینا چاہئے۔ جب ہماری ریاست اور قانون، شان رسالت میں توہین کا واقعہ دیکھے تو آگے بڑھ کر کردار ادا کرتے ہوئے مجرم کو سزا دے، تاکہ عام لوگوں میں اشتعال پھیلنے کی گنجائش نہ رہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ علما کی سطح اس معاملے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ تمام علما اور مفتیان گستاخی کو بدترین جرم سمجھتے ہیں۔ اس کی سخت سزا کا یقین رکھتے ہیں، اسی طرح وہ ملک میں قانون کی بالادستی کے بھی خلاف نہیں ہیں۔ یہ تاثر غلط ہے کہ علما اس معاملے میں الگ الگ رائے رکھتے ہیں۔ اگر ماضی میں حکومتیں بھی ذمے داری اور حساسیت کا اظہار کرتیں تو افراد کو قانون ہاتھ میں لینے کا موقع نہ ملتا۔ عام آدمی اسی وقت جذباتی ہوکر سامنے آتا ہے جب ملکی قانون اور حکومت، توہین شان رسالت کے مرتکب افراد کو سزا دینے میں ناکام ہوجائے۔
پیر امین الحسنات کا کہنا تھا کہ جب امریکی پادری ٹیری جونز نے قرآن پاک کے خلاف مذموم عزائم کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت بھی میں کہتا تھا کہ دوران احتجاج پاکستان میں توڑ پھوڑ سے اس کا کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ ان پر دباؤ کیلئے ضروری ہے کہ مسلم ممالک کی حکومتیں ان مسائل کو مل کر ’’ٹیک اپ‘‘ کریں۔ ہمارے سیاسی رہنما ایک لائحہ عمل بنائیں۔ مغربی ممالک کا اہم ایشو معیشت ہے، اس لئے انہیں اس حوالے سے دباؤ میں لانا چاہئے۔ ڈنمارک میں جب ایسے واقعات ہوئے تو عرب ممالک نے اس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا تو ڈنمارک کو احساس ہوا۔ اب ہالینڈ کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا چاہئے۔ میں یہ بھی کہوں گا کہ ان مسائل کا حل قرآن میں بھی موجود ہے۔ ہمیں قرآن سے ہی رجوع کرنا چاہئے۔ سیرت طیبہ کے درس کو بڑھائیں۔ خود کو رسول نبیؐ کی سنت سے جوڑیں، ساری سازشیں ناکام ہوجائیں گی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت نے اچھا جواب دیا ہے۔ ہالینڈ کے سفیر کو دفتر خارجہ میں بلایا۔ وہاں کے وزیر خارجہ سے بھی رابطہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ شیل پیٹرول کے بائیکاٹ نے بھی اچھا نتیجہ دیا۔ ہماری حکومت کو اب اسے آگے بڑھانا چاہئے۔ اقوام متحدہ تک لے جانا چاہئے۔ اس معاملے کو عالمی امن سے جوڑ کر پیش کرنا چاہئے۔ پھر اس معاملے کو مسلم ملکوں کی معاشی پالیسیوں کے ساتھ منسلک کرنا چاہئے۔ او آئی سی کو مغرب میں جاری منفی مہم کے خلاف منظم کوششیں کرنی چاہئیں۔
قاری زوار بہادر کا کہنا تھا کہ اگر آٹھ دس اہم اسلامی ممالک بھی مل کر کوشش کریں تو بہت اچھے نتائج مل سکتے ہیں۔ جبکہ عوام کو شیل کے پیٹرول کا ہی نہیں باقی مغربی مصنوعات کا بھی بائیکاٹ کرنا چاہیے اور یہ بائیکاٹ اس وقت تک جاری رکھنا چاہیے جب تک حتمی طور پر یورپ کی حکومتیں اپنے ہاں قانون سازی کرکے گستاخی پر پابندی عائد نہیں کر دیتیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ گستاخ کو سزا کے حوالے سے ریاستیں اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرتیں۔ اس لئے عام آدمی ہی گستاخی کرنے والے کو خود سزا دینے کے لئے آگے بڑھتا ہے۔
عبدالمصطفی مہتم جامعہ نظامیہ لاہور کا کہنا تھا کہ ہم پہلے بھی اپنی سفارشات حکومت کو دے چکے ہیں کہ مغربی ممالک کے ساتھ بات کرنی چاہیے کہ ہم تمام انبیائے کرام کی شان میں گستاخی کے خلاف قانون سازی چاہتے ہیں۔ اب یہ سفارشات اقوام متحدہ اور دوسرے اداروں کے ساتھ بھی شیئر کرنی چاہئیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ گستاخ کو سزا دینا ریاست کی ذمے داری ہے۔ اس حوالے سے حکومتوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اگر اس پر عمل کیا جاتا اور گورنر سلمان تاثیر کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی جاتی تو اس کے قتل کی نوبت نہ آتی۔
٭٭٭٭٭