کراچی(اسٹاف رپورٹر) وکلا کے الیکٹرک کی غفلت کا شکار ہونے والے بچوں کے معاملے پر قانونی جنگ لڑنے کے لئے تیار ہوگئے ‘کے الیکٹرک کے خلاف درج مقدمہ انسداددہشت گردی کی عدالت میں چلانے اور کے الیکٹرک کی نیب سے تحقیقات کرانے کا مطالبہ بھی کردیا ہے ۔دوسری جانب تاجر برادری نے کے الیکٹرک کے سربراہ کو اسی تار سے لٹکانے کا مطالبہ کیا ہے جس سے عمر اپنے دونوں ہاتھوں سے محروم ہوا ہے ۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ الیکٹرک کی غفلت سے معصوم بچوں کے ہاتھ ضائع ہوئے اورشہریوں میں دہشت بھی پھیلی ہے کے الیکٹرک کا مقدمہ انسداددہشت گردی کی عدالت میں چلنا چاہے جبکہ کے الیکٹرک کا معاملہ ہزاروں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں اربوں کا معاملہ ہے تاہم یہ کیس نیب کی عدالت میں جانا چاہئے۔ اس حوالے سے ایڈووکیٹ عبدالقادرخان مندوخیل کا کہنا ہے کہ مذکورہ فیملی کا کیس میں فی سبیل اللہ لڑوں گا‘انہوں نے بتایا کہ قانون کے مطابق ہائی ٹینشن وائر رہائشی گھروں سے 60فٹ دور ہونی چاہیے لیکن ایسا نہیں ہے‘بیشتر رہائشی علاقوں میں گھروں کے قریب ہائی ٹینشن کی تار ڈالی ہوئی ہے جو حادثے کا سبب بن رہی ہے‘انہوں نے بتایا کہ کے الیکٹرک کی غفلت سے معصوم بچوں کے ہاتھ ضائع ہوئے اس کی ذمہ دار کے الیکٹرک ہے‘انہوں نے بتایا کہ کے الیکٹرک کا مقدمہ انسداددہشت گردی کی عدالت میں چلنا چاہے کیونکہ سکس ون بی کا قانون کہتا ہے وہ جرم جس میں شہری خوف و ہراس میں مبتلاہوں وہ دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے تاہم یہ ہائی ٹینشن کی تار بھی دہشت کی علامت ہیں۔ایڈوکیٹ صلاح الدین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ متاثرہ بچوں پر ہونے والے ظلم کی ذمہ دار کے الیکٹرک ہے‘انہوں نے بتایا کہ ہائی ٹیشن کی تاررہائشی علاقوں میں نہیں ہونی چاہیے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ متاثرہ فیملی کے غم میں برابر کے شریک ہیں اگر فیملی ہم سے رابطہ کرے گی تو ہم کے الیکٹرک کے خلاف ضرور کیس لڑے گے۔جسٹس(ر) وجیہہ الدین احمد نے امت کو مذکورہ معاملے پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ کے الیکڑک کے نام سے پاکستان نے سفید ہاتھی پالا ہوا ہے اس سفید ہاتھی کو چلانے والے سیاستدان ہیں جن کے حصے باندھے ہوئے ہیں انہوں کے مزید بتایا کہ کے الیکڑک کی پاکستان میں بادشاہت ہے کیونکہ ارباب اختیار ان کے پاس ہے۔کے الیکٹرک سرکاری ادارہ تھا یہ پرائیویٹ کیسے ہواان پر ایک کمیٹی تشکیل دینی چاہئے۔ کون کون اس میں شامل ہے کس کس سیاستدان کا اس میں حصہ تھا۔ انہوں نے بتایا کہ کے الیکٹرک کا معاملہ ہزاروں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں اربوں کا معاملہ ہے تاہم یہ کیس نیب کی عدالت میں جانا چاہیے ۔دوسری جانب وفاقی ایوان ہائے صنعت و تجارت کے وائس چیئرمین برائے کنزیومر کمیٹی عبدالصمد بڈھانی نے اپنے بیان میں کہا کہ عمر کے علاج و معالجے کے اخراجات اگر حکومت نے برداشت نہ کئے تو وہ تمام اخراجات اٹھائیں گے ۔انہوں نے کہا کہ کے الیکٹرک کا سربراہ مذکورہ واقعہ کا ذمہ دار ہے اور اسے اسی تار سے لٹکانا چاہیے جس تار سے عمر اپنے دونوں ہاتھ کھو بیٹھا ہے۔ تحریک لبیک کے مقامی رہنما غلام نورانی کا کہنا ہے کہ کے الیکٹرک انسانی جانوں سے کھیل رہا ہے ، کے الیکٹرک کی ہٹ دھرمی اتنی بڑھ گئی ہے کہ وہ اپنی غفلت و لاپرواہی کی وجہ سے ہونے والے واقعات کی مذمت تک نہیں کرتا ، کے الیکٹرک انتظامیہ کو چاہیئے تھا کہ وہ متاثرہ بچوں کے والدین سے فوری رابطہ کرتی اور انہیں ہر قسم کی امداد کی فراہمی یقینی بناتی مگر اب تک ایسا نہیں کیا گیا،تحریک لبیک کی قیادت نے فیصلہ کیا ہے کہ کے الیکٹرک کے ظلم کے خلاف جلد سڑکوں پر آئیں گے۔