اسلام آباد(نمائندہ خصوصی )وزیر اعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور مانیکا اور احسن جمیل گجر سپریم کورٹ میں پیش نہیں ہوئے۔سابق ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے پر از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے چیف جسٹس کو بتایا کہ خاور مانیکا نے کہا کہ 3 بجے اسکول سے 10 سالہ بیٹی کو لینے جانا ہے ، جبکہ احسن جمیل گجر کے گھر ایس ایچ او موجود ہیں مگر ان سے رابطہ نہیں ہورہا۔ دوران انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس ڈاکٹر سید کلیم امام و دیگر افسران پیش ہوئے،تاہم وزیر اعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور مانیکا اور احسن جمیل گجر پیش نہیں ہوئے، جس پر عدالت نے ابتدائی طور پر آئی جی کو ہدایت کی کہ 3 بجے تک ان کی حاضری یقینی بنائیں۔گزشتہ روزسماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ خاور مانیکا اور احسن جمیل گجر کہاں ہیں؟یہ کیا قصہ ہے؟5 دن سے پوری قوم اس کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔رات ایک بجے تبادلہ کیا گیا، کیا صبح نہیں ہونی تھی، ڈیرے پر بلا کر معافی مانگے کا کیوں کہا گیا؟انہوں نے ریمارکس دیئے کہ وزیر اعلیٰ یا ان کے پاس بیٹھے شخص کے کہنے پر تبادلہ ہوا تو یہ درست نہیں ہے، ایک بات بار بار کہہ رہا ہوں کہ پولیس کو آزاد اور بااختیار بنانا چاہتے ہیں۔ یہ خاور مانیکا معافی منگوانے والا کون ہوتا ہے اور وزیر اعلیٰ پنجاب نے معافی مانگنے کے لیے کیوں دباووٴ ڈالا، ہم دیکھتے ہیں کس طرح دباوٴ کے تحت تبادلہ ہوتا ہے۔ آئی جی کلیم امام نے بیان دیا کہ مجھ پر ڈی پی او کے تبادلے کے لیے کوئی دباوٴ نہیں، محکمانہ طور پر ان کا تبادلہ کیا گیا، اسپیشل برانچ اور دیگر ذرائع سے پتہ چلا تھا کہ رضوان گوندل درست معلومات نہیں دے رہے۔ تبادلہ سزا نہیں ہوتا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے وزیر اعلیٰ سے ڈی پی او کو ملنے سے روکا؟ ایک خاتون پیدل چل رہی تھی، پولیس نے پوچھا تو اس میں کیا غلط ہے؟ اس پر آئی جی پنجاب نے جواب دیا کہ اس لڑکی کا ہاتھ پکڑا گیا تھا۔ ڈی پی او رضوان گوندل نے بیان دیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے پی ایس او حیدر کی کال آئی کہ میں اور آر پی او ملیں، میں نے 23 اور 24 اگست والے واقعے کا قائم مقام آر پی او کو بتایا۔انہوں نے بتایا کہ پورا واقعہ آئی جی پنجاب کو واٹس ایپ پیغام بھیجا، واقعے والے دن 4 بجے فون آیا کہ آپ رات 10 بجے تک وزیر اعلیٰ ہاوٴس پہنچ جائیں۔رضوان گوندل نے بتایا کہ رات 10 بجے وہاں پہنچ گئے تھے، جہاں وزیر اعلیٰ پنجاب نے احسن جمیل کا تعارف بطور بھائی کرایا۔انہوں نے کہا کہ احسن جمیل نے پوچھا مانیکا فیملی کا بتائیں، لگتا ہے ان کے خلاف سازش ہورہی ہے۔اپنے بیان میں رضوان گوندل کا کہنا تھا کہ مجھے بیرون ملک سے بھی پیغامات بھیجے گئے، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پیغام بھیجنے والے کون تھے؟اس پر رضوان گوندل نے بتایا کہ پیغام بھیجنے والوں میں آ ئی ایس آئی کے کرنل طارق تھے، انہوں نے پیغام دیا کہ آپ ڈیرے پر چلے جائیں۔رضوان گوندل نے کہا کہ ایک فون بیرون ملک میں موجود میرے سینئر عظیم ارشد نے بھی کیا جبکہ میں ابراہیم مانیکا کو کال کرتا رہا کہ آپ میرے دفتر نہیں آسکتے تو گھر آجائیں۔انہوں نے مزید کہا کہ میں حلفاً یہ کہتا ہوں کہ مجھے کسی پولیس اہلکار نے نہیں بتایا کہ لڑکی سے بدتمیزی ہوئی ہے۔عدالت میں جاری سماعت کے دوران ایڈیشنل آئی جی ابوبکر نے اپنی رپورٹ پیش کی، جس میں بتایا گیا کہ خاتون سے بدتمیزی کا پہلا واقعہ 5 اگست کو پیش آیا۔انہوں نے بتایا کہ 6 اگست سے 23 اگست تک اس معاملے پر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا اور نہ ہی کسی نے رابطہ کیا، میری تحقیقات یہ ہیں کہ ڈی پی او کو اس واقعے کی تحقیقات کرنی چاہیے تھی۔ایڈیشنل آئی جی نے بتایا کہ ہم عوام کے خادم ہیں، ہماری کوئی انا نہیں ہوتی، 24 اگست کو 18 دن بعد بتایا گیا کہ ایک فون بیرون ملک سے آیا اور دوسرا فون آئی ایس آئی کے کرنل نے کیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم قانون کی بالادستی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ پورے واقعے میں وزیر اعلیٰ پنجاب کا کیا کام تھا، یہ وزیر اعلیٰ کا یار کہاں سے آگیا؟ کیا احسن جمیل گجر کوئی بڑا آدمی ہے؟ چیف جسٹس میاں ثاقب نثارنے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے خلاف آرٹیکل 62ون ایف کے استعمال کاعندیہ دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کڑیاں مل رہی ہیں کہ سی ایم کے کہنے پرتبادلہ کیا گیا، آرٹیکل 62 ون ایف کس کس پر لاگو ہوسکتا ہے؟ مخدوم صاحب سے معاونت لیں گے کہ 62 (1) ایف وزیر اعلیٰ پر لگتا ہے یا نہیں، ممکن ہے اور کسی وزیر اعلیٰ کے کام آجائے۔ بعد ازاں عدالت نے خاور مانیکا، احسن جمیل گجر اور کرنل طارق کو پیر کو طلب کرلیا ساتھ ہی عدالت نے وزیر اعلی ٰپنجاب کے پی ایس او حیدر، ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹرز شہزادہ سلطان اور سی ایس او عمر کو بھی طلب کرتے ہوئے سماعت پیر تک ملتوی کردی۔