ابوواسع
روحیل اصغر شیخ اور اخلاق گڈو کے درمیان وراثتی دشمنی بہت سی قیمتی جانیں لے گئی تو دونوں کو خیال آیا کہ اب اسے ختم کردینا چاہیے کیونکہ دونوں جیل کاٹنے کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی حصہ لے رہے تھے۔ دوسرے یہ کہ ان کے کرتا دھرتا بھی قتل ہوچکے تھے، چنانچہ دونوں گروپس نے آپس میں صلح کرلی۔ اگرچہ اس دشمنی میں دونوں کے باپ اور بھائی مارے جاچکے تھے۔ اخلاق گڈو کے باپ ماجھا سکھ کو شادمان مارکیٹ کے قریب اس کے گن مینوں سمیت قتل کیا گیا جن کے قتل کا الزام شیخ اصغر گروپ پر لگا۔ اسی طرح روحیل کا باپ اور بھائی بھی اسی دشمنی کے بھینٹ چڑھ چکے تھے۔ اس دشمنی کو بڑھاوا دینے میں نورا کشمیری کا نام بھی آتا ہے جس کے بارے بعض لوگ کہتے ہیں کہ اسی نے اس دشمنی کو پروان چڑھانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ حقائق کیا تھے؟ اس سے قطع نظر اب روحیل اصغر کیلئے اچھو اور چھیدی ایک عضو معطل بن گئے تھے۔ چھیدی دو بار جیل سے ہوکر آیا تھا۔ اب اس پر مقدمات ختم ہوچکے تھے۔ اب نمبر اچھو کا تھا، وہ اچھو جو کسی کے سامنے نہیں آتا تھا، لیکن ہر قتل میں نام اسی کا لیا جاتا۔ اس کی سمجھداری اور جرائم کو مینج کرنے کی خوبی نے اسے ایک چھلاوہ بنا دیا تھا۔ اچھو کو ایک ایس ایس پی عابدی، ڈی ایس پی اور پولیس کی گارد اعوان ڈھائیوالا میں گرفتار کرنے کیلئے آئے تھے۔ صاف ظاہر تھا کہ اچھو نے سرنڈر کرنا تھا۔ اسی وقت ایک کالا بکرا لا کر چھیدی نے اچھو کا صدقہ اتارا اور اس کے ساتھ ہی اس وقت ایس ایس پی کو ایک لاکھ روپیہ دیا اور کہا تھا کہ اسے سیدھا جیل لے کر جانا، پولیس مقابلے میں مت مار دینا۔ اس وقت دس بیس لوگ گھر میں موجود تھے اور اچھو انہی میں موجود تھا، ایس ایس پی کو یہ معلوم نہ تھا کہ ان میںاچھو کون سا ہے۔ جب اچھو کی ماں اور چھیدی نے بتایا کہ یہ اچھو ہے تو پولیس آفیسر یہ بات ماننے کوتیا رنہ تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اصل بندہ پیش کریں آپ کوئی اور بندہ اچھو بنا کردے رہے ہیں۔ جب تکرار زیادہ بڑھی تو ایس پی کے سامنے قرآن پاک لایا تھا اور اس نے چھیدی سے کہا کہ اس پر ہاتھ رکھ کر کہو کہ یہی اچھو ہے۔ چھیدی نے کہا تم بھی قرآن پر ہاتھ رکھو کہ اسے جعلی مقابلے میں قتل نہیں کرو گے۔ چنانچہ دونوں نے وہاں قرآن پر حلف لیا اور یوں اچھو کی گرفتاری عمل میں آئی۔ اچھو جیل چلا گیا اور وہاں اس کی ملاقاتیں دیگر قاتلوں سے ہوئیں اور وہیں اس کی تصاویر بھی اتاری جاتی رہیں۔ وہیں پر اس کی دوستی لاہور کے ایک معروف کردار رئیس ٹینکی سے ہوئی اور دونوں نے اکھٹے تصویر بھی بنوائی۔ اچھو کا دائیاں ہاتھ بالا گاڈی تھا، اچھو جب پیش ہوگیا تو وہ نشہ کرنے لگا۔ اس وقت ہیروئن کا نشہ نیا نیا متعارف ہواتھا، چنانچہ وہ اسی کا عادی ہوگیا تھا۔ ایک روز وہ پتوکی سے لاہور آرہا تھا کہ بالا گاڈی کی گاڑی کا کسی دوسری گاڑی کے ساتھ جی ٹی روڈ پر چھوٹا سا ایکسیڈنٹ ہوگیا۔ اسی دوران ٹریفک وارڈن بھی پہنچ گیا، معاملہ تقریباً رفع دفع ہوگیا تھا کہ اچانک وارڈن کی نظر بالا گاڈی کے بازو پر کنندہ نام ’بالاگاڈی‘ پر جاپڑی۔ وارڈن نے فوری طور پر وائرلیس کال کردی اور یوں پورے علاقے کی پولیس نے اس جگہ کو گھیرے میں لے کر بالا گاڈی کو گرفتار کرکے اچھو باڑلا کے پاس جیل بھجوا دیا۔
دوسری جناب چھیدی جس کی دہشت زیادہ تھی وہ باہر تھا یہ اپریل 1987ء کا دور تھا۔ چھیدی کے بچپن کا ایک دوست بھولی تھا جو ان کے گھر میں ہی پلا بڑھا تھا۔ اسے اچھو پسند نہیں کرتا تھا لیکن چھیدی بہت عزیز رکھتا۔ بھولی کی ایک بہن سے چھیدی کے تعلقات تھے، جس کے بارے بھولی کو معلوم ہوگیا۔ بھولی اسی بات پر اچھو سے لڑ پڑا اور اسے چھوڑ کر پچروں کے ساتھ ملا۔ وہاں اس نے ایک سازش کے تحت صلح کے نام پر چھیدی کو داتا دربار بلایا، وہاں پچروں کے ساتھ ان کی صلح ہوئی اور وہاں سے وہ لوگ کالا خطائی روڈ پر ایک گھر میں کھاناکھانے چلے گئے۔ چھیدی کے ساتھ اس وقت یونس جٹا اور چھوٹا راہ سمیت دیگر پانچ لوگ بھی تھے ، بھولی نے وہاں کھانے میں نشہ آور دوائیں ملا دیں اور اسی اثناء میں اس نے چھیدی پر کاربین سے فائر کھول دیا۔ چھیدی کے ٹانگ کے اوپر والے حصے پر گولی لگ گئی، پولیس کو پہلے ہی مخبری کردی گئی تھی، پولیس نے بھی علاقے کو گھیر لیا۔ کالا خطائی روڈپر آٹھ گھنٹے تک ان پانچ لوگوں نے پولیس کے ساتھ مقابلہ کیا، جس میں کلاشنکوف کی کم وبیش دوہزار گولیاں ان پانچوں نے فائر کیں۔ آٹھ گھنٹے بعد جب ان کے پاس اسلحہ ختم ہوا تو انہیں پولیس نے نشانہ بنا کر مارڈالا۔ یوں اچھو اور بالا گاڈی کی عدم موجودگی میں چھیدی اپنی جذباتی پن اور حسن پرست طبیعت کے ہاتھوں ساتھیوں سمیت موت کے منہ میں چلا گیا۔ یکم اپریل 1987ء کو چھیدی مارا گیا اور اس کی لاش لے کر پولیس جیل پہنچ گئی تاکہ اچھو کو اپنے بھائی کا آخری دیدار کرائے۔ اچھو ابھی جیل میں ہی انڈر ٹرائل تھا، لاش لے کر رانا مقبول ایس ایس پی جیل گیا تھا۔ یہ وہی رانا مقبول ہے جو آئی جی سندھ کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوا۔ اچھو نے اسے کہا تھا کہ تم نے میرا بھائی ماردیا ہے، اب میں تمہیں تمہارے خاندان سمیت ختم کروں گا۔ چنانچہ اس نے جیل کے اندر سے اپنے باہر رہنے والے ساتھیوںکو پیغام بھجوا یا کہ اب پولیس اور پچروںکا جو بندہ سامنے آئے اسے بے دریغ گولی مار دی جائے۔ بھولی چونکہ چھیدی کے قتل کا مین کردار تھا، اس لیے سب سے پہلے اسے نشانہ بنانے کا ٹاسک دیا گیا جسے تائو گاڈی اور شریف ٹی ٹی نے مار دیا تھا۔ لیکن یہ قتل اچھو کی زندگی میںنہیں ہوسکا تھا، کیونکہ چھیدی کے قتل کے 14 دن بعد اچھو اور بالا گاڈی کو بھی ماردیا گیا۔
جب اچھو نے ایس ایس پی کودھمکی دی تو اس نے پچروں کو ساتھ ملایا اور اپنے سینیئر کے سامنے پیش ہوگیا کہ اچھو نے مجھے کیا کیا دھمکیاں دی ہیں، جبکہ اس نے پچروں کے پہلے ہی درجنوں قتل کررکھے ہیں۔ چنانچہ آئی جی وغیرہ نے اس کے انکائونٹر کے آرڈرلے لیے۔ یوں انہوں نے 13 اپریل 1987ء کی رات اچھو اور بالا گاڈی کو جیل سے نکالا۔ صبح انہیں شاہدرہ عدالت میں پیش کرنا تھا، اگلی صبح اخبارات میں یہ خبر چلا دی گئی کہ اچھو اور بالا گاڈی کو عدالت میں پیشی کے لیے لایا جارہا تھا کہ اس کے گینگ کے لوگ ان دونوں کو چھڑا کرلے گئے ہیں۔ اخبارات میں پولیس کی گاڑیوں پر فائرنگ کے نشانات کے فوٹو اخبارات میں شائع کرادئیے گئے۔ جبکہ دونوںکو جیل سے نکال کر کسی الگ تھلگ جگہ رکھ دیا گیا۔ ادھر اچھو کے خاندان کو معلوم ہوگیا کہ پولیس ان کے ساتھ گیم کھیل رہی ہے۔ انہیںجعلی مقابلے میں قتل کر دیا جائے گا، چنانچہ خاندان نے بھاگ دوڑشروع کردی۔ یہ لوگ روحیل اصغر کے پاس گئے، اس نے انہیں اطمینان دلایا کہ میں دیکھتا ہوں آپ فکر نہ کریں، پولیس سے پوچھتا ہوں۔ لیکن اندرون خانہ پولیس اسی کی ایما پر اچھو کو ٹھکانے لگانے لگی تھی۔ اسی طرح اس وقت بڑے بڑے لوگ جن میں ملک جاوید، ملک شفیع بھٹے والا سمیت دیگر لوگوں سے رابطہ کیا لیکن سب بے بس ہوگئے۔ چنانچہ اگلے روز بینی روڈ پر ان دونوں کولے جایا گیا اور انہیں کہا کہ بھاگ جائو، اچھو نے اس وقت موجود ڈی ایس پی سے کہا کہ اس طرح نہ کرو، مجھ سے تین کروڑ روپے لے لو اور ہم دونوں کو چھوڑ دو۔ لیکن ایس پی نے کہا کہ ملک اشرف ہم لوگ مجبور ہیں، تم لوگوںکے اوپر سے آرڈر آئے ہیں، تم پچاس کروڑ بھی دو تو آج تم دونوں بچ نہیں سکتے۔ اس پر بالا گاڈی نے پولیس والوں سے کہا کہ ہم پیٹھ پر گولی نہیں کھائیںگے، اگر مارنا ہے تو سینے پر مارو۔ لیکن و ہ نہ مانے تو پھر بالا گاڈی نے کہا ٹھیک ہے، تم ہم دونوںکے ہاتھوں سے ہتھکڑیاں نکال لو، ہمارے پاس اسلحہ نہیں ہے، اگر پھر تم ہمیں پیٹھ پر گولی مار سکو تو ست بسمہ اللہ۔ لیکن پولیس والوں کی اتنی ہمت نہ تھی کہ ان کے ہاتھ کھول کرانہیں کہتے بھاگو۔ ظاہر ہے وہ ماہر لڑاکا تھے، ان کے ہاتھ کہاں آنے والے تھے۔ پولیس نے اگلے روز پولیس مقابلے کا کہہ کر دونوں کی لاشیں لواحقین کے حوالے کردیں۔ اچھو باڑلا کی اعوان ڈھائے والامیں نماز جنازہ ادا کی گئی، گائوں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ اس سے بڑاجنازہ آج تک گائوں میںنہیں دیکھا گیا۔
اچھو باڑلا اور شیدی باڑلانے صرف دس برس مجرمانہ زندگی گزاری، لیکن جو زندگی انہوں نے گزاری اس کی گونج آج تک لاہور میں سنائی دیتی ہے۔ آج بھی لوگ اچھو اور چھیدی کے قصے بیان کرتے ہیں، اعوان ڈھائیوالا میں ان کے گھر پر اب ان کے خاندانی تنازعہ کی وجہ سے قبضہ ہوچکا ہے۔ اچھو اور چھید ی کی والدہ اب اس گائوں میں نہیں رہتی، بلکہ شہر میں اپنی بیٹی کے پاس رہتی ہے، اور رات کے کسی آخری لمحے میں اب بھی اپنے کڑیل اور نوجوان بیٹوں کی یاد میں اٹھ کر آہ و بکا کرتی ہے۔
٭٭٭٭٭